نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت برقرار
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر ذاکر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھ دی گئی۔
سپریم کورٹ نے مجرم ظاہر جعفر کی اپیل مسترد کر کے دفعہ 302 میں سزائے موت برقرار رکھی ہے۔
علاوہ ازیں مجرم ظاہر جعفر کی دفعہ 376 میں سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا جبکہ اغوا کے الزام میں سزا کالعدم قرار دے دی گئی۔
دوسری جانب عدالت نے مجرم ظاہر جعفر کے مالی اور چوکیدار کی سزائیں کم کردیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ چوکیدار اور مالی جتنی سزا گزار چکے ہیں اتنی ہی رہیں گی۔
اسلام آباد میں سفاکی سے قتل کی گئی سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم کے قتل کا ملزم ظاہرجعفر کیا کام کرتا تھا ، جیو نیوز نے پتا لگا لیا ۔
آج سپریم کورٹ میں نور مقدم کیس کے مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر مجرم ظاہر جعفر کے وکیل نے دلائل دیے کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے، اپیل کنندہ کے خلاف شواہد کا شک و شبہ سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالت بطور شواہد پیش فوٹیجز سے باہر نہیں جاسکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ میں پراسیکیوشن کی فوٹیج چلائی گئی لیکن وہ چل نہ سکی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جس سی سی ٹی وی فوٹیج پر آپ کا اعتراض ہے اسے آپ تسلیم کرچکے ہیں، پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے بھی کہا فوٹیج ٹیمپرڈ نہیں اور نہ اس سے چھیڑ چھاڑ کی گئی، کوئی انسان ویڈیو بناتا تو اعتراض ہوسکتا تھا کہ مخصوص حصہ ظاہر کیا گیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اس ویڈیو کے معاملے پر تو انسانی مداخلت ہے ہی نہیں، یہ ویڈیو سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے ریکارڈ ہوئی۔
کیس کا پس منظرمجرم ظاہر جعفر نے 2021ء میں نور مقدم کو اسلام آباد میں تشدد کے بعد قتل کردیا تھا جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
بعدازاں اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی مجرم کی سزائے موت برقرار رکھی تھی۔
ظاہر جعفر نے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سزائے موت برقرار مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت ظاہر جعفر کی سپریم کورٹ
پڑھیں:
پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آزاد جموں و کشمیر کی سیاست ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان مفادات کی کشمکش کے باعث اِن ہاؤس تبدیلی کا عمل تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاحال متبادل قائدِ ایوان کی نامزدگی کا فیصلہ نہیں کیا، جس کے باعث تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا عمل رُکا ہوا ہے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی کے بعد ہی حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم ڈیڑھ ہفتہ گزرنے کے باوجود وہ اپنی پوزیشن واضح نہیں کر سکی۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن مبینہ طور پر قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہی ہے، جس کے باعث پیپلز پارٹی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ اگر انتخابات قبل از وقت منعقد ہوتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو اِن ہاؤس تبدیلی سے حاصل ہونے والے سیاسی فوائد محدود ہو سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارٹی قیادت اسمبلی کی مدت مکمل کرنے پر مُصر ہے۔
ذرائع کے مطابق آزاد حکومت کا تقریباً 80 فیصد ترقیاتی بجٹ ابھی خرچ ہونا باقی ہے۔ اس کے علاوہ دو ہزار کے قریب سرکاری بھرتیاں، صحت کارڈ پروگرام اور دیگر عوامی فلاحی اقدامات نئی حکومت کے لیے اہم سیاسی مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان منصوبوں سے سیاسی فائدہ اٹھا سکے، مگر وقت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اسمبلی کی مدت جولائی میں ختم ہو رہی ہے، اس لیے مارچ میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ قانون کے مطابق انتخابات سے دو ماہ قبل ترقیاتی کام روک دیے جاتے ہیں اور تبادلوں یا نئی بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جاتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر یہی صورت برقرار رہی تو پیپلز پارٹی کو صرف دو ماہ یعنی دسمبر اور جنوری کا مختصر عرصہ ملے گا، جو اس کے سیاسی ایجنڈے کے لیے ناکافی سمجھا جا رہا ہے۔