ایف پی سی سی آئی کا حکومت سے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈینس پر نظرثانی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
اپنے بیان میں فیڈریشن کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ملک بھر کے تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے انکم ٹیکس آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایف پی سی سی آئی نے حکومت سے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈینس پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی) کے صدر عاطف اکرام شیخ نے وفاقی حکومت سے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر کے تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز نے انکم ٹیکس آرڈیننس کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس افسران کو اکاؤنٹس منجمد، پیسے نکالنے کے لامحدود اختیارات دینا درست نہیں، اس اقدام سے ٹیکس ریکوریز میں اضافے کے بجائے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔
عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ تاجر برادری کو ترمیمی آرڈیننس پر سخت تحفظات ہیں، حکومت اس پر نظر ثانی کرے، حکومت معیشت اور تاجر دشمن اقدامات کے بجائے بزنس کمیونٹی کو سہولیات دے۔ صدر ایف پی سی سی آئی کا کہنا تھا کہ وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت تاجروں کی نمائندہ تنظیم ہونے کے ناتے آرڈیننس کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے، حکومت قانون سازی سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کو یقینی بنائے، جبکہ ایف پی سی سی آئی ٹیکس کلیکشن میں اضافے کیلئے حکومت کے ساتھ تعاون کو تیار ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایف پی سی سی آئی انکم ٹیکس کا مطالبہ
پڑھیں:
وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
جماعت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کیجانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں موجود بڑے آئینی نقائص کو بے نقاب کیا ہے اور حکومت کی جانب سے کلکٹرس و سرکاری افسران کے ذریعے وقف املاک میں بے جا تصرف کی کوششوں پر قدغن لگائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسلمان عدالت کی جانب سے دی گئی اس عبوری راحت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے میں خاص طور پر وقف املاک میں انتظامیہ کی بے جا مداخلت کے خلاف تحفظ اور واقف کے لئے 5 سال تک باعمل مسلمان رہنے کی ناقابل فہم شرائط کی معطلی ایک مناسب اقدام ہے تاہم اس سب کے باوجود ہمارے کئی اہم خدشات اور تحفظات اب بھی باقی ہیں، خاص طور پر وقف بائے یوزر سے متعلق عبوری فیصلہ کافی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت اعظمی وقف بائے یوزر پر دیے گئے موجودہ عبوری موقف پر ازسرنو غور کرے گی اور اپنے حتمی فیصلہ میں وقف بائے یوزر کو پوری طریقہ سے بحال کرے گی، مکمل انصاف کے حصول تک ہم اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سید سعادت اللہ حسینی نے مزید کہا کہ عدالت نے کلکٹرز اور نامزد افسران کو دیے گئے وہ وسیع اختیارات ختم کر دیے ہیں جن کے تحت وہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی وقف املاک کو سرکاری زمین قرار دے سکتے تھے، یہ فیصلہ ہمارے اس موقف کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ ترمیمی ایکٹ انتظامیہ کو وہ اختیارات دیتا ہے جو عدلیہ کے دائرہ کار میں آتے ہیں اور یہ آئین کے بنیادی اصول، یعنی اختیارات کی علیحدگی، کی خلاف ورزی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت اعظمی کی جانب سے وقف کے انتظام میں بلاجواز حکومتی مداخلت کی کھلی مذمت اور کمیونٹی کے خدشات کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح واقف کے لئے پانچ سال تک بس عمل مسلمان رہنے کی شرط کی معطلی بھی عدالت کی جانب سے ہمارے مؤقف کی تائید ہے، ہم مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ شرط امتیازی،ناقابل فہم اور ناقابلِ عمل ہے۔ اس شق کے حوالے سے عدلیہ کی مداخلت ظاہر کرتی ہے کہ ایسے غیر آئینی قوانین، عدالتی جانچ کی کسوٹی پر پورے نہیں اُتر سکتے، ہمیں امید ہے کہ حتمی فیصلے میں اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ کئی اہم مسائل اب بھی حل طلب ہیں، سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ وقف بایو کی شق کا خاتمہ اب بھی ہزاروں تاریخی مساجد، قبرستانوں اور عیدگاہوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، جو اوقاف صدیوں سے بغیر رسمی دستاویزات کے قائم اور برقرار ہیں، ہم ہمیشہ یہ کہتے آئے ہیں کہ ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں تمام مذاہب کے بے شمار مذہبی ادارے بغیر دستاویزات کے برسوں سے موجود ہیں، وقف بائے یوزر کا اصول بہت ضروری ہے، ہمیں امید ہے کہ عدالت ہمارے اس موقف کو اپنے حتمی فیصلے میں تسلیم کرے گی۔