WE News:
2025-09-18@12:03:31 GMT

غزہ میں امداد 3 ماہ بعد بحال لیکن فراہمی انتہائی کم

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

غزہ میں امداد 3 ماہ بعد بحال لیکن فراہمی انتہائی کم

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی بحال کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ محدود پیمانے پر بھیجی جانے والی یہ مدد 20 لاکھ سے زیادہ بھوکے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہو گی۔

یاد رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں امداد کی فراہمی 11 ہفتوں سے بند کی ہوئی تھی۔

ٹام فلیچر نے بتایا ہے کہ آج اقوام متحدہ کے 9 امدادی ٹرکوں کو کیریم شالوم کے سرحدی راستے سے غزہ میں داخلے کی اجازت مل گئی ہے جو مدد لے کر آ رہے ہیں لیکن امداد کی یہ مقدار اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حماس اور امریکا کے درمیان غزہ میں جنگ بندی اور امداد پر حتمی مذاکرات

اقوام متحدہ اور اس کے شراکتی اداروں کو دوبارہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ امدادی کام کو موجودہ اور ثابت شدہ مؤثر طریقہ کار کے ذریعے سہولت دی جائے گی۔

اسرائیلی بمباری پر اظہار تشویش

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ پر فضائی اور زمینی حملوں میں سیکڑوں فلسطینیوں کی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے ضرورت مند لوگوں کو بڑے پیمانے پر امداد کی فوری، محفوظ، بلا رکاوٹ اور براہ راست فراہمی کے مطالبے کو دہرایا۔

مزید پڑھیے: اسرائیل نے امدادی سامان غزہ پہنچانے والا بحری جہاز بمباری سے تباہ کردیا

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ سیکریٹری جنرل نے ثالثوں کی جانب سے غزہ میں معاہدہ طے کرنے کے لیے جاری کوششوں کا خیرمقدم کیا ہے۔ وہ تواتر سے خبردار کرتے چلے آئے ہیں کہ متواتر تشدد اور تباہی سے شہریوں کی تکالیف میں اضافہ ہو گا اور بڑے پیمانے پر علاقائی تنازع بھڑکنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

سیکریٹری جنرل نے غزہ کی آبادی کو جبراً کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کے کسی اقدام کو بھی سختی سے مسترد کیا ہے۔

ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے واضح، اصولی اور عملی منصوبہ موجود ہے جس کے تحت اسرائیل کے حکام کو شمال اور جنوب میں غزہ کی جانب کم از کم 2 راستے کھولنے ہوں گے۔

انہوں نے کہا امداد کا محدود کوٹہ ختم کر کے اس کی آسان انداز میں اور تیزرفتار فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امداد کی رسائی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا اور جہاں امداد پہنچائی جانی ہو وہاں عسکری کارروائیاں عارضی طور پر روکنی ہوں گی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کردیا

اقوام متحدہ کی ٹیموں کو خوراک، پانی، صحت و صفائی اور پناہ کے سامان، طبی سہولیات، ایندھن اور کھانا بنانے کے لیے درکار گیس سمیت بنیادی ضرورت کی تمام اشیا ضرورت مند لوگوں کو پہنچانے کی اجازت دینی ہو گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

غزہ غزہ امداد غزہ امداد ناکافی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: غزہ امداد ناکافی اقوام متحدہ کے امداد کی کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیل کے وزیر اعظم نے قطر میں حملہ کرکے ہمام الحیہ سمیت پانچ لوگوں کو شہید تو کردیا مگر اپنے مقصد کی حصولیابی میں ناکام رہا کیونکہ اس کا اصل ہدف تو حماس رہنما خلیل الحیہ تھے جو اپنے ساتھیوں سمیت زندہ بچ گئے لیکن اس حماقت نے نیتن یاہو سمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رسوا کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخرنیتن یاہو پر اچانک اس خودکش حملے کا جنون کیوں سوار ہوا؟ اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاج کا دباؤ کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن 9ستمبر کو اس حرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔امسال کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے تمام 193رکن ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے جنہیں ایک ملک، ایک ووٹ” کی بنیاد پر برابر کا حق حاصل ہے ۔جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں سبھی اراکین کو قراردادوں پر ووٹ دینے کے یکساں اختیارات حاصل نہیں ہے اور سب برابر بھی نہیں ہیں۔ چند مستقل ارکان ممالک کے پاس ویٹو کا حق ہے جس استعمال کرکے وہ سارے لوگوں کی آواز دبا دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کا اس سال موضوع ہے :بہتر ساتھ:امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے بھی زیادہ۔یہ غیر معمولی اجلاس 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔12 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ‘نیویارک ڈیکلیئریشن’ کی منظوری دی تاکہ ‘مقررہ مدت کے اندر، ٹھوس، ناقابل واپسی اقدامات’ کیے جاسکیں ۔اجلاس میں اس قراراداد کے حق میں 142 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ بڑے دنوں کے بعد ہندوستان نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران غزہ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں کا اجلاس ہو گا جس میں امکان ہے کہ برطانیہ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر لے گا۔فرانس سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اس دوران فلسطین کو تسلیم کرکے دو ریاستی حل پر زور دینے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہوئی ہے اس لیے فلسطین کو مبصر سے رکن کا درجہ مل جائے گا۔
اسرائیل قطر میں حماس پر حملہ کرکے فلسطین کی رکنیت کو اور بھی زیادہ اہم اور آسان بنادیا ہے ۔پچھلے سال یعنی 2024 میں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات دینے کے لیے ووٹ دے کر سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنائے ۔اس قرارداد کو 143 بمقابلہ 9 ووٹوں کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ 25 ارکان غیر حاضر تھے ۔ مخالفین میں صرف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوو اور پاپوا نیو گنی جیسے ممالک تھے لیکن اس ایک سال کے اندر غیر حاضر ممالک کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے اور اس میں فرانس و برطانیہ جیسے ویٹو والے ممالک ہوں گے ۔اسی طرح دو سال قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے حق میں 120کے خلاف صرف 14 ووٹ پڑے تھے لیکن 45کی غیر حاضری بڑی رکاوٹ تھی یہ اعدادو شمار فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری کا ثبوت ہیں۔
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کو روکنے کے لیے اسے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی براہِ راست بات چیت ، سرحدوں پر امن و سلامتی اور
یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل کے حل سے جوڑ دیا ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے ‘نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی’ اس طرح کی شرائط لگا کر
تو روس اور یوکرین کی رکنیت بھی ختم کردینی چاہیے لیکن اس کا تو تصور بھی محال ہے کیونکہ روس ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور یوکرین
مغرب کا حلیف یا آلۂ کار ہے ۔ اس لیے ان پر امریکہ بہاد ر یہ شرائط نہیں رکھے گا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اسرائیل کی علامتی
شکست ہونے کے سبب اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے 18اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا ۔
سلامتی کونسل کی اس ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے بہت زیادہ حمایت ملی تھی ۔ اس کے حق میں 12ووٹ پڑے تھے مگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا تھا اور ریاستہائے متحدہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔اس لیے کہنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ کی ماں جمعیت اقوام کے بارے میں علامہ اقبال نے جو کہا تھا وہ اب بیٹی پر بھی صادق آتا ہے
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ عجیب منافقت ہے کہ 144ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس سے قبل امریکی اتحادیوں میں سے فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے نے فلسطین حمایت کی تھی مگر یورپی ممالک اس پر آمادہ نہیں تھے ۔ یہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے روس اور چین، اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ اس طرح روس کے لئے کوسوو اور چین کے لئے تائیوان کو رکن بنانے میں آسانی ہوگی ۔ اس بار یوروپ کی برف پگھلی ہے ۔ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل کا وقت آ گیا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا تھا کہ ، ”یوروپی یونین کی جانب سے یوروپی کمیشن کو اپنی توقعات کا اظہار کرنا ہو گا۔ اسے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی اس اپیل کو سننے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کے فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کی گئی تھی۔ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے پہلے دن پرفرانسیسی وزیر خارجہ باروٹ نے مندجہ بالابیان دیا تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت کرنے والے فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ دو ملکی حل پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالے ۔ یہ فرانس کی طرف سے ایک تیز حملہ تھا کیونکہ وہ فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کے وعدے کے چند دن بعد ہی غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے ۔ فرانس کی جانب سے اس صدائے امن کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ دیگر مغربی ممالک نے
دوسرے ملکوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیلجیئم نے امسال 9 ستمبر سے شروع ہو رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کردی ۔ بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے پیش نظر کیا گیا ہے ، جہاں اسرائیلی جارحیت زیادہ تر آبادی کو کم از کم ایک بار بے گھر کر چکی ہے اور اقوام متحدہ نے قحط اور بھکمری کو تسلیم کیا ہے ۔
بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ”اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کے کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیلجیئم کو اسرائیلی حکومت اور حماس کے ‘دہشت گردوں’ پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے ۔یہ اسرائیلی عوام کو سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اور انسانی قانون کا احترام اور پاسداری کرے جو اس کے برعکس زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔امسال 31جولائی (2025)کو فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مالٹا نے طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ”ذمہ دار ملک کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے تصور کو نظریہ سے عملی شکل دینے کے لیے کام کریں۔ کینیڈا کے صدر میک کارنی نے کہا کہ ”کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس پر اسرائیل کو ایسی مرچی لگی کہ اس کے وزارت خارجہ نے لکھا ”کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے انعام ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی مغربی ممالک کے ان اعلانات کے خلاف اسرائیلی موقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے حماس کے لیے انعام قرار دیا، نیز اسے غلط وقت میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ اپنے بین الاقوامی حلیفوں کے پیٹھ پھیر لینے سے بے چین ہوکربن یامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ابتداء میں ہی قطر کے اندر یہ ناکام حملہ کرکے مغربی ہمدردوں کواور بھی دور کردیا ہے ۔ فرانس اور سعودی عرب کے مشترکہ صدارت سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے نیویارک دفتر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس نے اسرائیل کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے لڑائی کو روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ جنگ بندی ”ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈالے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے ناقدعالمی رہنما مل کر نیتن یاہو کے ذریعہ تباہ کرنے کی کوشش کا مقابلہ دو ریاستی حل سے کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • سیلاب زدہ علاقوں میں شدید انسانی بحران، عالمی برادری امداد دے: اقوام متحدہ
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنیوالے ممالک کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں’ شدید انسانی بحران’ ہے، عالمی برادری امداد فراہم کرے، اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • اقوام متحدہ نے رپورٹ میں اسرائیلی قیادت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کردیا
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد
  • پاکستان کی اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کی حمایت