واٹس ایپ پر یک سطری پیغام موصول ہوا ‘حکومت نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے رینک پر ترقی دیدی’، جسے پڑھ کر ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا۔ سبب اس جھٹکے کا یہ تھا کہ پچھلے 3 دن سے ٹویٹر پر کچھ معروف پٹواری خاصے بےچین تھے اور بے چینی کی وجہ یہ اطلاعات تھیں کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے ساتھ ‘سیز فائر’ ہوچکا اور اب فریقین کانفیڈنس بلڈنگ کی طرف جائیں گے۔
جب سیاسی پس منظر اس طرح کا ہو اور قومی تاریخ کا واحد فیلڈ مارشل ایسا گزرا ہو جو عسکری لطائف یاد دلاتا ہو تو جھٹکا تو بنتا تھا۔ چلیے پہلے آپ کو فیلڈ مارشل رینک سے جڑے چند معروف لطائف سناتے ہیں پھر اس بات کی جانب آئیں گے کہ جنرل عاصم منیر لطائف والے فیلڈ مارشل بننے جا رہے ہیں یا حقیقی فیلڈ مارشل۔
انڈین فیلڈ مارشل مانک شاہ سے صحافی نے پوچھا
‘سر آپ فیلڈ مارشل بن گئے۔ اب آپ کیا کریں گے؟’
مانک شاہ نے دکھی لہجے میں جواب دیا
‘اب میں صرف شادیوں اور جنازوں میں شرکت کیا کروں گا’
اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں برطانوی ملٹری میسز میں کہا جاتا کہ ‘فیلڈ مارشل فرنچ ملٹری کے اس افسر کو کہتے ہیں جس کے ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں سرنڈر کا سفید جھنڈا ہو’۔
خود فرانس میں فیلڈ مارشل کی تعریف مزید دلچسپ تھی۔ وہاں کہا جاتا تھا کہ ‘فیلڈ مارشل وہ ہوتا ہے جو جنگ تو جیتتا ہے مگر جنگ کے 20 سال بعد لکھی گئی اپنی کتاب میں’۔
امریکی ملٹری اکیڈمی ویسٹ پوائنٹ میں آج کل کے کیڈٹس کہتے ہیں کہ ‘فائیو اسٹار جنرل وہ ہوتا ہے جسے اس کا جی پی ایس ہیڈ کوارٹر سے باہر جانے نہیں دیتا اور ہیڈ کوارٹر میں بھی اگر وہ اِدھر اُدھر نکل جائے تو جی پی ایس اسے واپس اس کے پاور پوائنٹ تک لے آتا ہے’۔
ایک جرمن میم کے مطابق فیلڈ مارشل ملٹری کا آخری رینک نہیں ہے۔ ہر فیلڈ مارشل کچھ عرصے بعد ‘مؤرخ’ کے رینک پر پروموٹ ہوجاتا ہے۔ یہ میم یوں تراشی گئی کہ بیشتر فیلڈ مارشل عسکری مصنف ضرور بنے۔
یہ تو ہوئے فیلڈ مارشل سے متعلق دنیا بھر سے چند مشہور لطائف جو معروف بھی عسکری حلقوں میں ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عاصم منیر بھی لطیفوں والے فیلڈ مارشل بنائے گئے ہیں؟
اس سوال کی نوبت یوں آئی کہ پاکستان اور انڈین آرمی کا ڈی این اے رائیل برٹش آرمی کا ہے اور برطانوی ملٹری تاریخ میں کوئی 150 کے قریب فیلڈ مارشل گزرے ہیں جن میں سے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے سرے سے کوئی جنگ ہی نہ لڑی تھی۔ گویا اعزازی فیلڈ مارشل والی ریوڑیاں بانٹنے کا رواج وہاں بہت ہی عام رہا۔
یہ اسی ڈی این اے کا اثر تھا کہ ایوب خان نے بھی اس روایت کا فائدہ اٹھا لیا۔ ایسے تاریخی پس منظر میں خدشہ یہی ابھر سکتا ہے کہ کہیں عاصم منیر کو بھی پانچ ستارہ جنرل بناکر جنازوں اور شادیوں کی تقریبات کے لیے تو وقف نہیں کیا جارہا؟
مگر صد شکر کہ یہ خدشہ بس خدشہ ہی رہ گیا۔ عاصم منیر لطیفوں والے نہیں بلکہ وہ فیلڈ مارشل بنائے گئے ہیں جن کے پاس فوج کی کمان بھی ہوتی ہے۔ ایسے فیلڈ مارشل دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا، برطانیہ، سوویت یونین اور جرمنی میں بکثرت دیکھے گئے۔ بلکہ جرمنی میں تو صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ فوجی حلقوں میں یہ جملہ مشہور ہوگیا تھا کہ ‘ایک ہی جگہ کئی فیلڈ مارشل جمع ہوجائیں تو کیاس پیدا ہوجاتا ہے’۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ 22 اپریل کے بعد والی صورتحال میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے 2 حوالوں سے شاندار مثال قائم کی ہے۔ پہلا حوالہ یہ کہ وہ بالکل واضح اور غیر متزلزل تھے۔ کسی بھی اینگل سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ کنفیوژن یا افراتفری کے شکار ہیں۔ دوسرا حوالہ یہ کہ وہ جو کسی ملٹری نغمے کا بول تھا ‘فوج اور عوام ایک’ انہوں نے اسے عملاً کرکے دکھا دیا، اور وہ یوں کہ ایک طرف آئی ایس پی آر پورے تسلسل کے ساتھ قوم کو اپڈیٹ رکھ رہی تھی وہ بھی پوری ٹرانسپیرنسی کے ساتھ۔ جبکہ دوسری طرف 10 مئی کو سورج نکلنے کے بعد جو فتح ون میزائل داغے جا رہے تھے، ان کے بہت قریب پبلک بھی موجود رہی تھی اور فوج نے انہیں دور جانے کا نہیں کہا بلکہ اس قربت کو قبول کیا۔ یوں اس روز گویا فوج اور عوام عملاً شانہ بشانہ تھے۔
چنانچہ نہ تو ان جھڑپوں کے دوران اور بعد ہر مرحلے پر قوم مکمل یکسو تھی۔ کوئی افراتفری یا کنفیوژن قومی سطح پر بھی نظر نہ آئی۔ کسی بھی حلقے میں ایسے سوال زیر گردش نہ تھے جنہیں اپنے جوابات کی تلاش ہو۔
پاکستانی قوم کے لیے یہ لڑائی کسی لائیو میچ کی طرح رہی۔ آئی ایس پی آر نے مناظر ہی نہیں دکھائے بلکہ جو نظروں سے اوجھل تھا اس سے متعلق بھی بالکل درست حقائق سے آگاہ کیا۔ حتیٰ کہ اپنے کسی بیس پر حملے کی خبر کو بھی چھپایا نہیں۔
اس کے برخلاف اگر آپ انڈیا کا حال دیکھیں تو ان کی وزارتِ دفاع نے معلومات کے حوالے سے جو خلا پیدا کردیا تھا اسے جلد ہی انڈین میڈیا نے ایسے بلیک ہول شکل دیدی جو انڈین بیانیہ ہی نہیں بلکہ ساکھ اور بھرم بھی نگل گیا۔ نتیجہ یہ کہ آج وہ پوری دنیا میں تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔
بدنامی صرف ان کے میڈیا کے ہی حصے میں نہیں آئی بلکہ صورتحال یہ ہے کہ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے چند دوست ممالک کو بند کمرہ بریفنگ دی ہے۔ اس بریفنگ سے لوٹنے والے سفارتکاروں نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ بریفنگ میں جو دعوے کیے گئے ان کے ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔
سیز فائر کو 12 دن ہوگئے مگر انڈیا اب بھی کوئی جامع ملٹری پریس بریفنگ دینے کی ہمت نہیں کررہا۔ بتانے کے لیے جھوٹ کے سوا کوئی آپشن نہیں اور خوف یہ ہے کہ اگر وہ آفیشل پریس کانفرنس میں کوئی جھوٹا دعویٰ کردیں یا کسی چیز کی نفی کردیں تو کہیں آئی ایس پی آر ایسے ثبوت نہ شو کردے جو اس نے کسی ایسے موقع کے لیے سنبھال رکھے ہوں گے اور ان کا یہ خدشہ بے جا نہیں۔
ہم سب جانتے ہی ہیں کہ چائنیز آئی ایس آر کی سہولت ہمیں میسر تھی۔ ہم خلائی آنکھ سے میدان جنگ کو دیکھ رہے تھے۔ ہر ہر ہدف کی حملے سے قبل اور بعد کی تصاویر موجود ہیں۔ حتیٰ کہ پاک فضائیہ اور انڈین ایئرفورس کی 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب والی جھڑپ کا سگنل ڈیٹا اور ریڈار سیگنیچرز تک موجود ہیں۔ گویا انڈیا پاکستانی میزائلوں اور طیاروں کے ہی نہیں بلکہ آئی ایس پی آر کے خوف سے بھی تاحال جان نہیں چھڑا سکا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے مین اسٹریم میڈیا کو انہوں نے ایک ریڈ لائن کھینچ کر دیدی ہے کہ اگر کسی نے اسے عبور کیا تو ایسے اخبار اور ٹی وی چینل کو بند کردیا جائے گا۔ وہ ریڈ لائن یہ ہے کہ 10 مئی کا تو سرے سے ذکر ہی نہیں کرنا۔ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب سے متعلق بس یہ کہنا ہے کہ انڈیا نے آتنک وادیوں کے ٹھکانے تباہ کیے اور اس کے بعد سیدھا 9 مئی پر آکر پاکستانی ایئربیسز پر حملے کا ڈھول پیٹنا ہے اور اس کا سبب پاکستانی ڈرونز کی انڈیا آمد بتانی ہے۔
اس ریڈ لائن نے صورتحال ان کے لیے اتنی مضحکہ خیز بنادی ہے کہ ری پبلک ٹی وی پر ارناب گوسوامی اور مشہور ملٹری کامیڈین جی ڈی بخشی جلوہ افروز ہوئے۔ ارناب نے پوچھا، بخشی جی کیا موجودہ صورتحال میں انڈیا سپر پاور ثابت ہوا کہ نہیں؟ کامیڈین بخشی نے جواب دیا ‘جی بالکل ہوگیا ہے، ایس 400، آکاش میزائل، اے آئی اور ہمارے سٹیلائٹ نے ثابت کردیا کہ ہم سپر پاور ہیں’۔
مضحکہ خیزی اس میں یہ رہی کہ اسکرپٹ تو انہیں پکڑا دیا گیا مگر ہدایتکار یہ ہدایت دینا بھول گیا کہ یہ سب کہتے ہوئے چہرے پر خوشی اور آواز میں جوش نظر آنا چاہیے۔ معاملہ اس کے برعکس یہ رہا کہ دونوں کی آواز ہی نہیں بجھے چہروں سے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے ایک کے ابّا حضور اور دوسرے کی امّاں جان ایک ہی ‘فضائی حادثے’ میں چل بسے ہوں۔ گویا صورتحال یہ ہے کہ مودی کے ہوش صرف زمینی اہداف، فضائی جھڑپ میں ہی نہیں اڑائے گئے بلکہ انفارمشن وار میں بھی اس لمحہ موجود تک پاکستان کی ان پر برتری قائم ہے۔
یہ ہمہ جہت ملٹری حکمت عملی بنانے والے کمانڈر کے لیے فیلڈ مارشل کا رینک تو بنتا ہے۔ ممکن ہے سرحد پار سے کہا جائے کہ بھئی یہ تو سرے سے جنگ ہی نہ تھی۔ بس 2 عدد جھڑپیں تھی۔ محض جھڑپ پر فیلڈ مارشل؟ سو عرض کردیں کہ اگر جھڑپ ہی اتنی مؤثر ہو کہ خطے میں طاقت کا توازن ہی نہ بدل دے بلکہ مغربی وار انڈسٹری کو خطرے سے دوچار کردے تو کیوں نہیں؟
اوپر سے یہ مزہ الگ کہ اب 3 دن تک بھارتی اس غم میں مرے جائیں گے کہ ہائے بھگوان، انہوں نے تو قرآن مجید کی آیات پڑھنے والے کو فیلڈ مارشل بنا دیا۔ پھر بقول موذی جی آپریشن ابھی جاری ہے بس وقفہ لیا گیا ہے۔ سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہ کرکٹ میچ والا وقفہ نہیں جو مقررہ وقت پر دونوں ٹیموں نے لینا ہی ہوتا ہے بلکہ یہ باسکٹ بال والا ‘ٹائم آؤٹ’ ہے جو شکست سے دوچار ٹیم کو بار بار لینا پڑتا ہے۔ سو اس وقفے میں ہماری جانب سے یہ فیلڈ مارشل پروموشن سائیکالوجیکل وار فیئر کا کرارا وار بھی ثابت ہوگا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آئی ایس پی آر فیلڈ مارشل یہ ہے کہ ہی نہیں کے ساتھ کے لیے ہیں کہ تھا کہ
پڑھیں:
فیلڈمارشل کون ہوتاہے اوریہ عہدہ کسے دیاجاتاہے؟
اسلام آباد(راشدعباسی)جنرل سیدعاصم منیر فیلڈمارشل کے عہدے پرفائزہونے والے پاکستان کے دوسرے اعلیٰ ترین فوجی افسرہیں، اس سے پہلے جنرل ایوب خان اس عہدے پرفائزہوئے تھے ،ایوب خان پاکستان کے ہی نہیں بلکہ اس خطے کے پہلے فیلڈمارشل بنے تھے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوب خان بغیرکوئی جنگ لڑے فیلڈمارشل بنے،انہیں کسی نے فیلڈمارشل نہیں بنایاتھابلکہ انہوں نے خود اپنے آپ کو فیلڈمارشل کااہل قراردیااور خودہی بحیثیت کمانڈرانچیف یہ عہدہ لے لیا،فیلڈمارشل اس وقت تک بااختیاررہ سکتاہے جب تک وہ کمانڈنگ پوزیشن میں ہو،اگرفیلڈمارشل کمانڈنگ پوزیشن میں نہ ہوتو یہ عہدہ نمائشی سے زیادہ کچھ نہیں،فیلڈمارشل کایہ اعزازی عہدہ ہوتاہے جو اس جنرل کو دیاجاتاہے جس نے ملک کے لئے غیرمعمولی خدمات انجام دی ہوں ،کوئی غیرمعمولی کام کیاہو،فیلڈمارشل کو فائیوسٹارجنرل بھی کہاجاتاہے،آرمی چیف اور جوائنٹ چیف کو فورسٹارجنرلزہی کہاجاتاہے ،صرف فیلڈمارشل کاعہدہ فائیوسٹارہوتاہے، فیلڈ مارشل کا عہدہ یورپی فوجی روایات سے نکلا ہے، خصوصاً برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی افواج میں برطانوی فوج میں اسے فیلڈ مارشل کہا جاتا ہے جبکہ جرمنی میں یہ عہدہ جنرل فیلڈ مارشل کہلاتا ہے،برطانیہ، بھارت، جرمنی، روس وغیرہ میں بھی یہ رینک موجود رہا ،بھارت میں فیلڈ مارشل کوڈی کرشنا مینن اور سم مانک شا کو یہ رینک دیا گیا تھا۔
Post Views: 5