Express News:
2025-05-21@05:23:22 GMT

ایک سبق آموز روداد

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

سہیل خان پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ پی پی 240 بہاولنگر سے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوئے ہیں۔ تاہم یہ ذہن میں رکھیئے کہ وہ سنی اتحاد کونسل یا تحریک انصاف والے آزاد امیدوار نہیں تھے۔

وہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو ہرا کر منتخب ہوئے ہیں۔اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ حقیقی آزاد رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔بعد میں انھوں نے مسلم لیگ (ن) کو جوائن کیا تھا۔ وہ ایک صحافی بھی ہیں۔ بہاولنگر میں وہ صحافت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اپنے خدمت خلق کی وجہ سے وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو ہرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

سہیل خان کی کہانی بھی عجیب ہے۔ وہ آجکل اپنی خدمت خلق کے جذبہ کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ میں نے ان کی کہانی سنی ہے، سوچا آپ کے ساتھ بھی شیئر کروں۔ پانچ جنوری کی بات ہے۔ ان کے حلقے میں مسافر بس اور کوسٹر کا حادثہ ہوا، چار لوگوں موقع پر ہی جان سے چلے گئے جب کہ کئی زخمی ہوئے۔ یہ ایک المناک حادثہ تھا۔میں نے اس حادثے کی رپورٹ دیکھی ہے،اس میں لکھا ہے کہ یہ المناک حادثہ بس ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔

بہر حال جب اس ایکسیڈنٹ کی خبر علاقے کے ایم پی اے سہیل خان کو ملی تو وہ حلقے میں موجود تھے۔ وہ فوری موقع پر پہنچے، زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کا بندو بست کیا۔ اپنی گاڑیوں کو بھی زخمیوں کو استعمال کیا۔ اس کاوش کی وجہ سے کچھ جانیں بچ بھی گئیں۔

زخمیوں کو علاج کی سہولت یقینی بنانے کے بعد ایم پی اے صاحب حادثے میں جاں بحق ہوجانے والوں کی تدفین میں لگ گئے۔ وہ درد دل رکھنے والے انسان ہیں ورنہ جائے وقوعہ کے دورے کے بعد وہ گھر جا سکتے تھے اور چند روز کے بعد پروٹوکول کے ساتھ مرحومین کے لواحقین سے تعزیت کے لیے ان کے گھروں میں جا سکتے تھے۔ لیکن سہیل خان ایسا نہیںکیا۔ وہ اس ایکسیڈنٹ سے کافی رنجیدہ تھے۔ انھیں لوگوں کے مرنے کا بہت دکھ تھا۔

اس ایکسیڈنٹ کے بعد سہیل خان نے پولیس کے اعلیٰ عہدیدارن سے کہا کہ علاقہ میں بہت ایکسیڈنٹ ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ڈرائیورز کی غیر ذمے دارانہ ڈرائیونگ ہے ۔ لیکن ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غیر معیاری بسیں بھی علاقہ میں چل رہی ہیں۔ ان بسوں کا فٹنس سرٹفکیٹ نہیں ہے۔

انھوں نے پولیس سے کہا کہ سڑکوں پر بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے چلنے والوں بسوں کو بند کیا جائے۔ سہیل خان کا یہ موقف ہے کہ عالمی معیار یہی ہے کہ بس کے ڈرائیور کی سیٹ نیچی ہوتی ہے تاکہ وہ سڑک کے برابر ہوں۔ یہ جو بسوں کے ڈھانچے پاکستان میں بنتے ہیں ان میں ڈرائیور کی سیٹ اونچی بنا دی جاتی ہے۔ جو خلاف قانون ہے۔ سہیل خان کا موقف ہے کہ ایسی بسیں جن کے ڈرائیور کی سیٹ اونچی ہے، انھیں سڑک پر چلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

سہیل خان نے اس ضمن میں پنجاب اسمبلی میں ایک دھواں دھار تقریر کی بھی کی ۔ انھوں نے ایکسیڈنٹس کی تفصیل بھی پنجاب اسمبلی میں پیش کی۔ ان کی تقریر بس مالکان کو پسند نہیں آئی ، انھیں ہاتھ ہلکا رکھنے کے لیے سفارشیں آئیں۔

ان کے ساتھی ان کو سفارشیں کرنے لگے۔ لیکن جس تواتر سے ٹریفک حادثے ہورہے ہیں اور جتنی بڑی تعداد میں مسافروں کی اموات ہورہی ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے عوام کے منتخب نمایندوں کو بھی تو کچھ نہ کچھ احساس ہونا چاہیے اور جتنا ہو سکے ، وہ حکومت کو آگاہ کریں کہ ٹریفک حادثات کس طرح ہوتے ہیں؟ کیوں ہوتے ہیں ؟ ذمے دارکون ہے؟ اور ان حادثات کی روک تھام کیسے ہوسکتی ہے؟ ایم پی اے سہیل خان کے خیال میں وہ حق بات کررہے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کی جانوں معاملہ ہے۔ اس لیے کوئی لچک نہیں ہونی چاہیے۔

 اب آگے سنیئے!11مئی کو ایم پی اے سہیل خان کا بیٹا اپنی گاڑی میں جا رہا تھا کہ ایک بس نے گاڑی کو بری طرح ٹکر مار دی، ایم پی اے سہیل خان کا بیٹا شدید زخمی ہوا۔ سہیل خان کی رائے میں جب وہ ٹریفک حادثاث کے حوالے سے اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ رہے تو انھیں سخت پیغام دینے کے لیے یہ ایکسیڈنٹ کرا دیا گیا ہے۔

یہ ان کے لیے پیغام ہے کہ خاموش ہو جاؤ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔ سہیل خان رکن پنجاب اسمبلی ہیں۔ انھوں نے آزاد جیت کر حکومتی جماعت جوائن کی ہے، میرا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں تو ان کو انصاف ملنا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن مسلہ یہ ہوا ہے کہ ایم پی اے موصوف جس قسم کا پرچہ کرانا چاہتے ہیں، پولیس نے ویسا درج نہیں کیا۔ وہ سمجھتے ہیں ان کے بیٹے کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے اوروہ نامزد قتل کرنے کی سازش کا پرچہ درج کرانا چاہتے تھے۔ لیکن مقامی پولیس نے ایکسیڈنٹ کی ہی ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس کے بعد سہیل خان نے پنجاب اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس جمع کروایا۔ اس توجہ دلاؤ نوٹس میں انھوں نے اپنے خاندان پر حملہ کا ذکر کیا۔ لیکن اس توجہ دلاؤ نوٹس سے بھی کچھ نہیں ہوسکا ۔ پھر کیا ہوسکتا ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس طرح کے کاموں کیا ہوتا ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی نے صلح کرنے میں ہی عافیت جانی۔ یہ رودار بیان کرنے کا مقصد کسی کو درست یا غلط ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بیان کرنا ہے کہ ہمارا نظام اتنا گیا گزرا ہے کہ ایک ایم پی اے اپنے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا ، یہ ایک واقعہ نہیں ہے۔

ایسا ہمارے معاشرے میں روز ہوتا ہے۔ ٹرانسپورٹرز پاکستان کا ایک بڑا طاقتور طبقہ ہے۔ اگر نظارہ کرنا ہو تو ٹرک اور بس اڈوں پر جاکر دیکھ لیں، آپ کو لگے کا کہ ان سے طاقتور کوئی نہیں ہے۔ ایک ایم پی اے ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لیکن پنجاب حکومت کو تو کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ ایک ایم پی اے تو ہوسکتا ہے ، کمزور ہو لیکن حکومت تو کمزور نہیں ہوتی ، ریاست کے سامنے کوئی کچھ نہیں ہوتا۔

پاکستان میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد دہشت گردی کی وارداتوں میں مارے جانے والوں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ کراچی میں تو ڈمپرز کی ٹکروں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوئی ہے کہ وہاں ایم کیو ایم باقاعدہ احتجاج کے لیے باہر نکلی‘ جماعت اسلامی بھی احتجاج کرتی ہے حتی کہ پیپلز پارٹی جس کی حکومت ہے وہ بھی حادثات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ایسے میں پنجاب میں بسوں اور دیگر موٹر وہیکلز حادثات کی شرح مزید بڑھی تو یہ عوامی احتجا ج کی بھی شکل اختیار کر سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی سہیل خان کا ڈرائیور کی والوں کی انھوں نے رہے ہیں نہیں ہے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

پاک بھارت کشیدگی لیکن اس دوران ایران کا کیا کردار رہا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کردیا

راولپنڈی (ویب ڈیسک) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حالیہ پاک-بھارت تنازع میں ایران کی امن کوششوں کو سراہا اور پڑوسی ملک کو اُن قوتوں سے خبردار کیا جو دونوں ممالک کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتی ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام واقعے کے فوراً بعد بغیر کسی ثبوت کا اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، اسی دوران ایران نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی تھی۔

ترجمان پاک فوج لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایرانی خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان عالمی برادری کا تہہ دل سے شکر گزار ہے اور ہم بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران جیسے برادر ممالک کے شکر گزار ہیں۔

بنگلہ دیشی ائیر لائن کا پہیہ دوران پرواز غائب ہوگیا  

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ خطے میں کچھ قوتیں، بیرونی عناصر کی مدد سے برادر ممالک کے درمیان غلط فہمیاں اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور دوستوں اور بھائیوں کے درمیان دراڑ ڈالنا چاہتی ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے تہران کی کوششوں اور حمایت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی برادری اور برادر ممالک خصوصاً ایران، کی تمام کوششوں سے خوش ہیں جنہوں نے کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کیا"۔

ٹرمپ کی بیٹی بچے کی ماں بن گئی  

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ایران اور پاکستان کے ’بہت تاریخی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور دونوں ہمیشہ ہر آزمائش میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔‘

لیفٹیننٹ جنرل چوہدری نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک ’ہمسایہ اور دوست ممالک ہیں جو کئی شعبوں اور معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ خواہش اور پالیسی ہے کہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر امن اور دوستی ہو جب کہ تہران اور اسلام آباد ’خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے باہمی تعاون کر رہے ہیں‘۔

پاکستانی طیارے گرانے کی خبر غلط تھی : بھارتی صحافی کا امریکی اخبار کو اعتراف

یادرہے کہ حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ نے دورہ پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں، جس کے بعد وہ بھارت گئے اور وہاں بھی انہوں نے متعدد رہنماؤں سے ملاقات کے دوران تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • امپورٹس کم کر کے پاکستان نے تجارتی خسارہ کم کیا، خرم حسین
  • غزہ میں امداد 3 ماہ بعد بحال لیکن فراہمی انتہائی کم
  • پاکستان جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، لیکن وطن عزیز کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنا اچھی طرح جانتے ہیں: وزیر اعظم کا نیوی کے جوانوں سے خطاب
  • ’’ پی ٹی آئی تحریک عدم اعتماد لارہی ہے تو ضرور لائے، سو بسم اللّٰہ لیکن‘‘۔۔۔ خواجہ آصف نے تحریک انصاف کو ’’مشورہ ‘‘ دیدیا
  • ’’مودی حکومت سیز فائر توڑنا چاہتی ہے لیکن ۔۔۔‘‘ حامد میر نے اہم انکشافات کر دیئے 
  • پی ایس ایل کی رونقیں بحال، بھارت بے حال
  • ترجمان پاک فوج نے مار گرائے جانے والے چھٹے بھارتی جہاز کی تفصیل بتا دی
  • پاک بھارت کشیدگی لیکن اس دوران ایران کا کیا کردار رہا؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کردیا
  • ٹرمپ امن کی بات بھی کرتے ہیں اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں: ایرانی صدر