فیلڈ مارشل کے بعد ائیر چیف مارشل کا دورہ امریکا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے بعد ائیر چیف مارشل کا دورہ امریکا،پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق ایک دہائی سے زائد عرصے میں ’پاکستان فضائیہ کے کسی حاضر سروس سربراہ کا یہ امریکا کا پہلا دورہ ہے جس کا مقصد دو طرفہ دفاعی تعاون کو مضبوط بنانا اور باہمی مفادات کو آگے بڑھانا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یہ اعلیٰ سطح کا دورہ پاکستان امریکا میں ایک اسٹریٹجک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس دورے نے دفاعی تعاون اور اہم علاقائی اور عالمی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کے علاوہ ادارہ جاتی تعلقات کو گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ اس دورے کے دوران ایئر چیف نے اعلیٰ سطح ملاقاتوں کا سلسلہ امریکا کی اعلیٰ عسکری اور سیاسی قیادت سے کیا۔
پینٹاگون میں ایئر مارشل ظہیر بابر نے امریکی ایئر فورس (بین الاقوامی امور) کی سیکرٹری کیلی ایل سیبولٹ اور امریکا کی فضائیہ کے چیف آف سٹاف جنرل ڈیوڈ ڈبلیو ایلون سے ملاقات کی ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقاتوں کے دوران بات چیت کا مرکز دوطرفہ فوجی تعاون کو آگے بڑھانے، باہمی تعاون کو بڑھانے اور مشترکہ تربیت اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کے مواقع تلاش کرنے پر تھا۔
ایئر مارشل نے دونوں ممالک کی فضائیہ کے درمیان فوجی تعاون اور تربیت کے شعبوں میں موجودہ تعلقات کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔اس سے قبل فیلڈ مارشل اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکا کا دورہ کیا تھا اور دورے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی کی تھی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہے آئی ایس پی آر کے مطابق کا دورہ
پڑھیں:
فیلڈ مارشل کا بیانیہ، بھارت کا وجود ٹوٹنے کی طرف
چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی اور کامیابی کے لئے عوام، حکومت اور افواج کے درمیان مضبوط تعلق نا گزیر ہے خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سر پرست ہندوستان ہے ہم ہندوستان کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ پاکستان نے نہ پہلے ہندوستان کی اجارہ داری قبول کی اور نہ کبھی کرے گا ۔ جمعہ کو آئی ایس پی آر سے جاری بیان کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے 52ویں کامن ٹریننگ پروگرام کے افسران سے خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں تاہم ان سے ایک ہی تقاضا کرتے ہیں کے وہ ہندوستان کی دہشت گردانہ پراکسیوں فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخوارج کو جگہ نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اپنی انفرادی اور علاقائی پہچان سے بڑھ کر پاکستانیت کی پہچان کو اپنائیںہر نظام میں مسائل اور کمزوریاں ہوتی ہیںآپ کا کام ہے کہ کمزوریوں اور منفی قوتوں کو نظام پر حاوی نہ ہونے دیںجو اقوام اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں ان کا مستقبل بھی تاریک ہو جا تا ہے ملک سے محبت اور وفاداری اولین اور بنیادی شرط ہے۔ فیلڈمارشل کا کہناتھاکہ ریاست کی تمام اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی کی اساس پاکستان کی انتظامیہ اور سول بیورو کریسی ہے، اس کی بھاری اور اہم ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔معرکہ حق میں ریاست کی تمام اکائیوں نے مثالی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا معرکہ حق میں پاکستان نے کشمیر لائن آف کنٹرول سے لے کر ساحل سمندر تک انڈیا کی بلا جواز جارحیت کے خلاف بہترین جواب دیا اللہ نے معرکہ حق میں ہماری مدد کی کیونکہ ہم حق پر تھے۔
دہشت گردی ہندوستان کا اندرونی مسئلہ ہے جو اس کا اپنی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر متعصبانہ اور ظالمانہ رویوں کا نتیجہ ہے بحیثیت قوم ہم پاکستانی کبھی بھی ہندوستان کے آگے جھکے ہیں اور نا جھکیں گے۔فیلڈ مارشل حافظ سید عاصم منیر پاک بھارت حالیہ جنگ کے نہ صرف یہ کہ فاتح بلکہ ہیرو بھی ہیں،میری ان سے گزارش ہے کہ جس طرح بھارت کی دہشت گرد ی،سینہ زوری اور ہندو توا شدت پسندی کے خلاف مضبوط بیانیہ ہے،بالکل اسی طرح اندرون ملک فتنہ الہندوستان اور فتنہ الخواج کے علاہ اسلام آباد ،لاہور، کراچی وغیرہ میں پائی جانے والی ہندوستانی لا بی کے خرکاروں پر بھی کڑی نظر رکھی جائے، ہندوستانی لابی کے یہ خرکار اداکاراں اور فنکاروں کی شکل میں ہوں یا انہوں نے دانشوروں ،قلمکاروں،تجزیہ کاروں کے روپ دھار رکھے ہوں،ان بھارتی لابی کے خرکاروں نے این جی آوز کی آڑ لے رکھی ہو،یا کسی ترقی پسند شاعر کا اپنے نام کے ساتھ لاحقہ لگا رکھا ہو،ان سب کی گو شمالی کی ضرورت ہے،ہندوستانی ’’را‘‘کے گماشتے جس بھی فیلڈ میں ہوں ان سب کو قوم کے سامنے بے نقاب کرنا لازم ہو چکا ہے، کیونکہ بھارت نہ تو پاکستان میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے سے باز آ رہا ہے اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر کے انسانوں پر ظلم و ستم ڈھانے سے،دہلی کے حکمران مقبوضہ کشمیر کو توبھارت کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دیتے نہیں تھکتے، کوئی ان سے پوچھے کہ بھارت میں چلنے والی علیحدگی پسند مسلح تحریکیں جوبھارت کا ’’انگ‘‘ ’’انگ‘‘توڑنے میں مصروف ہیں ۔ان علیحدگی پسندوں سے بھارت اپنا وجود کب تک بچا سکے گا؟ انسانی حقوق کی پامالی ، لسانی، نسلی و مذہبی تعصبات کے حوالے سے بھارت کا بر اعظم ایشیا میں پہلا نمبر قرار دے دیا جائے تو بالکل درست ہوگا ، بھارت میں پنجاب ،تامل،ناڈو، بہار، چھتی گڑھ، اڑیسہ، ہما چل پردیش، مہارا شٹر سمیت شمال مشرق میں آسام، ناگا لینڈ، منی پورا اور ترقی پورہ سمیت بھارت میں تقریبا ً67علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں 17بڑی اور 50چھوٹی ہیں، صرف آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں،بتایا جاتا ہے کہ 162 اضلاع پر علیحدگی پسندوں کا مکمل کنٹرول ہے، علیحدگی کی تحریکیں بھارتی حکومت اور ریاست کے لئے بہت بڑا چیلنج بنی ہوئی ہیں۔
ان تحریکوں نے بھارت کے دیگر حصوں آندھرا پردیش اور مغربی بنگال پر بھی اثرات مرتب کئے ہیں، علیحدگی پسند تحریکوں کی منظم عسکری کارروائیوں کے خوف کی وجہ سے بھارتی فوج اور سکیورٹی کے دیگر اداروں کے اہلکار نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں، دوسری جانب بھارت لداخ اور ارونا چل پردیش پرچین کے موقف سے بھی سخت پریشان ہے، علیحدگی کی ان تحریکوں نے بھارت کے ریاستی ڈھانچے کو مفلوج کر رکھا ہے، بھارت میں چلنے والی علیحدگی کی بڑی تحریکوں میں بھارتی پنجاب میں چلنے والی سکھوں کی خالصتان تحریک سر فہرست ہے، 1970 ء میں سکھوں نے اپنے حقوق کے لئے اکالی دل کے نام سے۔ ایک تنظیم قائم کی، ان کامطالبہ تھا کہ حکومت ملک میں سکھوں کے ساتھ روا رکھے گئے ناروا سلوک کو ختم کرے اور انہیں تمام شعبوں میں ہندو اکثریت کے مساوی حقوق دے، لیکن بھارت سرکار نے ان مطالبات پرکان نہیں دھرااور نسلی ومذہبی تعصب کی بنا پر امتیازی سلوک اور زیادیتاں جاری رکھیں۔ سکھوں نے ہندو حکمرانوں کے اس منفی رویے سے مایوس ہو کر 1980 ء میں باقاعدہ مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، بھارتی حکومت نے سکھوں کی اس تحریک کو کچلنے کے لئے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا، لیکن خالصتان تحریک کو پھر بھی کچلا نہیں جا سکا، آخر کار 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کے روحانی مرکز گولڈن ٹمپل پرچڑھائی کر دی، ان کی مذہبی قیادت کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ قتل و غارت کا بازار بھی گرم کیا گیا۔ اسی دوران بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو ان کے 2سکھ محافظوں نے قتل کر دیا، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی، جس پر بھارتی فوج نے بڑا آپریشن کر کے اکالی دل و خالصتان تحریک کی قیادت کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تحریک کووقتی طور پر دبائو دیا۔ خالصتان کانظریہ آج بھی ناصرف زندہ ہے، بلکہ اپنے حقوق کی خاطر سکھوں کے کئی گروہ بھارت کے خلاف جدوجہد بھی کر رہے ہیں، جن میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان، زندہ بادفورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگرفورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سر فہرست ہیں۔ دوسری اہم تحریک تامل نائوڈو بھی بھارت میں اپنی جڑیں پیوست کر چکی ہے، یہ ابتدا میں ایک لسانی تحریک تھی، بعدمیں قوت پا کر علیحدگی کی جانب مائل ہوئی، اگرچہ تامل بھی ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں۔ تاہم یہ تاملی زبان کو ہندی سے معتبرسمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حکومت ہم پر ہندی مسلط کر کے تاملوں کو غلام بنانا چاہتی ہے، یہ قضیہ اولا 1937ء میں سامنے آیا جب کانگریس کی صوبائی حکومت نے مدراس کے سکولوں میں جہاں تاملی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ ہندی کولازمی تعلیم کا درجہ دیا تھا، جس پر تاملوں نے اپنے بچوں کو ہندی پڑھانے سے انکار کردیا تھا۔
(جاری ہے)