JERUSALEM:

غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کے خلاف اسرائیلی معاشرے کے اندر سے مخالفت کی آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے جنگ ایک نئے اور خونریز مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، متعدد سیاسی اور عسکری شخصیات حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔

اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) کے سابق نائب سربراہ اور بائیں بازو کے سیاستدان یائر گولان نے اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے سخت رائے کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: ’’غزہ میں بچوں کی سانسیں رُک رہی ہیں، دوا اور کھانا نہیں‘‘ برطانوی سرجن کی دہائی

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ہوش کے ساتھ ریاستی رویہ اختیار نہ کیا تو اسرائیل ایک عالمی تنہائی کا شکار ریاست بن جائے گا، جیسا کہ کبھی جنوبی افریقہ تھا۔

یائر گولان نے مزید کہا کہ ایک مہذب ریاست عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں چھیڑتی، بچوں کو قتل کرنا تفریح نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی آبادی کو خالی کرانا اس کا ہدف ہونا چاہیے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یائر گولان کے ان بیانات کو خون آلود بہتان قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔

اسرائیل کے سابق وزیر دفاع اور IDF کے سابق چیف آف اسٹاف موشے بوگی یعلون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر مزید سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم حکومتی پالیسی ہے، جس کا واحد مقصد اقتدار کو قائم رکھنا ہے اور یہی پالیسی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: غزہ میں امداد کی بندش پر مغربی ممالک کا اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان

برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق اسرائیل وہی ملک ہے جہاں 19 ماہ قبل حماس کے حملے کے بعد عوام میں جنگی جذبات عروج پر تھے، لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔

اسرائیلی نیوز چینل کے حالیہ سروے کے مطابق 61 فیصد اسرائیلی شہری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کے حامی ہیں، جبکہ صرف 25 فیصد مزید عسکری کارروائی اور غزہ پر قبضے کے حق میں ہیں۔

اسرائیلی حکومت اب بھی حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروانے کے دعوے پر قائم ہے، اور وزیر اعظم نیتن یاہو مکمل فتح کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان کے کچھ حامی اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی بے چینی، مایوسی اور بے بسی کا شکار نظر آتی ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج کی جارحیت؛ مغربی کنارے میں یورپی سفارتکاروں کے وفد پر گولیاں برسا دیں

سابق اسرائیلی یرغمالی مذاکرات کار گرشون باسکن کے مطابق اکثریتی یرغمالی خاندان اس جنگ کے خاتمے اور کسی باوقار معاہدے کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک چھوٹی اقلیت سمجھتی ہے کہ پہلے حماس کا خاتمہ ضروری ہے، اس کے بعد یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوگی۔

دوسری جانب غزہ میں تباہی کے مناظر اور اسرائیل کی جانب سے 11 ہفتوں بعد محاصرہ جزوی طور پر ختم کرنے کے باوجود، اب تک صرف محدود انسانی امداد ہی علاقے میں داخل ہو سکی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق کہا کہ

پڑھیں:

شام اسرائیل کے ساتھ 1974 کے معاہدے کی بحالی کیلئے امریکا سے تعاون پر آمادہ

شام اسرائیل کے ساتھ 1974 کے معاہدے کی بحالی کیلئے امریکا سے تعاون پر آمادہ WhatsAppFacebookTwitter 0 4 July, 2025 سب نیوز

دمشق (آئی پی ایس )شام نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ 1974 کے علیحدگی کے معاہدے کو دوبارہ نافذ کرنے کے لیے امریکا سے تعاون پر آمادہ ہے۔عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شام کے وزیرخارجہ اسد الشیبانی نے اپنے امریکی ہم منصب مارکو روبیو کے ساتھ فون کال کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں، شام کی امریکا کے ساتھ 1974 کے علیحدگی کے معاہدے کی طرف واپسی کے لیے تعاون کی خواہش کا اظہار کیا۔

واشنگٹن، شام اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہا ہے، گزشتہ ہفتے ایلچی تھامس بیراک نے کہا تھا کہ اب دونوں کے درمیان امن کی ضرورت ہے۔نیویارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے تھامس بیراک نے اس ہفتے تصدیق کی کہ شام اور اسرائیل اپنے سرحدی تنازع کو ختم کرنے کے لیے امریکا کی ثالثی میں بامعنی بات چیت کر رہے ہیں۔

دسمبر میں شام کے طویل عرصے سے حکمران بشار الاسد کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد، اسرائیل نے اپنی فوجیں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی اس زون میں تعینات کر دی تھیں جو شامی اور اسرائیلی افواج کو الگ کرتا ہے۔اسرائیل نے شام میں فوجی اہداف پر سیکڑوں فضائی حملے بھی کیے ہیں اور شام کے جنوب میں گہرائی تک دراندازی بھی کی ہے۔

شام اور اسرائیل تکنیکی طور پر 1948 سے حالت جنگ میں ہیں، اسرائیل نے 1967 کی عرب-اسرائیلی جنگ کے دوران گولان کی پہاڑیوں کا تقریبا دو تہائی حصہ شام سے فتح کرکے اسے 1981 میں ضم کر لیا تھا مگر بین الاقوامی برادری کے بیشتر حصے نے اسرائیل کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

1973 کی جنگ کے ایک سال بعد، دونوں ممالک نے ایک معاہدہ کیا، اس معاہدے کے حصے کے طور پر، اسرائیلی مقبوضہ علاقے کے مشرق میں 80 کلومیٹر (50 میل) طویل اقوام متحدہ کے زیر نگرانی بفر زون بنایا گیا تھا، جو اسے شام کے زیر کنٹرول علاقے سے الگ کرتا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے پیر کو کہا کہ ان کے ملک کو شام اور پڑوسی ملک لبنان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں دلچسپی ہے، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ گولان کی پہاڑیاں کسی بھی مستقبل کے امن معاہدے کے تحت ریاست اسرائیل کا حصہ رہیں گی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرصنعتی پالیسی کی سفارشات مکمل، وزیراعظم کے ویژن کے تحت عملدرآمد کا آغاز صنعتی پالیسی کی سفارشات مکمل، وزیراعظم کے ویژن کے تحت عملدرآمد کا آغاز بھارتی فوج کے نائب سربراہ کا پاکستان کی عسکری برتری کا اعتراف گمراہ کن تشہیر: اپیلٹ ٹربیونل کمپٹیشن کمیشن کا پریما ملک کے خلاف فیصلہ برقرار، جرمانہ میں کمی کر دی اسرائیلی جارحیت ناقابل قبول ہے؛ اولین ترجیح غزہ میں مستقل جنگ بندی ہے؛ سعودی عرب ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین گنڈا پور سواں گارڈن سوسائٹی کے صدر رضا گوندل سمیت منیجمنٹ کمیٹی عہدے سے فارغ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی دھمکیاں قابلِ قبول نہیں، ہتھیار نہیں ڈالیں گے، سربراہ حزب اللہ
  • اسرائیل کا مذاکراتی ٹیم قطر بھیجنے کا اعلان؛ حماس کی شرائط مسترد
  • غزہ پر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملے جاری، مزید 64 فلسطینی شہید
  • حماس کی غزہ جنگ بندی معاہدے پر تجاویز موصول؛ مشاورت بھی شروع؛ اسرائیل
  • ریسکیو آپریشن جاری ، لیاری میں عمارت کے ملبے سے ایک اور لاش برآمد ، تعداد 15ہو گئی
  • اسرائیل کا حملہ،مزید 138 فلسطینی شہید، خان یونس کے مزید علاقے خالی کرنے کا انتباہ
  • غزہ کے اسرائیل نواز غنڈے
  • شام اسرائیل کے ساتھ 1974 کے معاہدے کی بحالی کیلئے امریکا سے تعاون پر آمادہ
  • لیاری میں گرنے والی عمارت رات سے جھول رہی تھی، آوازیں بھی آرہی تھیں
  • غزہ میں جنگ بندی پر حماس کا جواب 24 گھنٹے میں آجائے گا؛ ڈونلڈ ٹرمپ