یہ بچوں کا قتل ہے جنگ نہیں، اسرائیل میں بغاوت کی آوازیں بلند ہونے لگیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
JERUSALEM:
غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کے خلاف اسرائیلی معاشرے کے اندر سے مخالفت کی آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے جنگ ایک نئے اور خونریز مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، متعدد سیاسی اور عسکری شخصیات حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔
اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) کے سابق نائب سربراہ اور بائیں بازو کے سیاستدان یائر گولان نے اسرائیلی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے سخت رائے کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: ’’غزہ میں بچوں کی سانسیں رُک رہی ہیں، دوا اور کھانا نہیں‘‘ برطانوی سرجن کی دہائی
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے ہوش کے ساتھ ریاستی رویہ اختیار نہ کیا تو اسرائیل ایک عالمی تنہائی کا شکار ریاست بن جائے گا، جیسا کہ کبھی جنوبی افریقہ تھا۔
یائر گولان نے مزید کہا کہ ایک مہذب ریاست عام شہریوں کے خلاف جنگ نہیں چھیڑتی، بچوں کو قتل کرنا تفریح نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی آبادی کو خالی کرانا اس کا ہدف ہونا چاہیے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے یائر گولان کے ان بیانات کو خون آلود بہتان قرار دیتے ہوئے رد کر دیا۔
اسرائیل کے سابق وزیر دفاع اور IDF کے سابق چیف آف اسٹاف موشے بوگی یعلون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) پر مزید سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم حکومتی پالیسی ہے، جس کا واحد مقصد اقتدار کو قائم رکھنا ہے اور یہی پالیسی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں امداد کی بندش پر مغربی ممالک کا اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان
برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق اسرائیل وہی ملک ہے جہاں 19 ماہ قبل حماس کے حملے کے بعد عوام میں جنگی جذبات عروج پر تھے، لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔
اسرائیلی نیوز چینل کے حالیہ سروے کے مطابق 61 فیصد اسرائیلی شہری جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کے حامی ہیں، جبکہ صرف 25 فیصد مزید عسکری کارروائی اور غزہ پر قبضے کے حق میں ہیں۔
اسرائیلی حکومت اب بھی حماس کو ختم کرنے اور تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروانے کے دعوے پر قائم ہے، اور وزیر اعظم نیتن یاہو مکمل فتح کا وعدہ کرتے ہیں۔ ان کے کچھ حامی اب بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ملک کی ایک بڑی آبادی بے چینی، مایوسی اور بے بسی کا شکار نظر آتی ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی فوج کی جارحیت؛ مغربی کنارے میں یورپی سفارتکاروں کے وفد پر گولیاں برسا دیں
سابق اسرائیلی یرغمالی مذاکرات کار گرشون باسکن کے مطابق اکثریتی یرغمالی خاندان اس جنگ کے خاتمے اور کسی باوقار معاہدے کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک چھوٹی اقلیت سمجھتی ہے کہ پہلے حماس کا خاتمہ ضروری ہے، اس کے بعد یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہوگی۔
دوسری جانب غزہ میں تباہی کے مناظر اور اسرائیل کی جانب سے 11 ہفتوں بعد محاصرہ جزوی طور پر ختم کرنے کے باوجود، اب تک صرف محدود انسانی امداد ہی علاقے میں داخل ہو سکی ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔