اسرائیلی فوج کی جارحیت؛ مغربی کنارے میں یورپی سفارتکاروں کے وفد پر گولیاں برسا دیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی جارحیت سے غیرملکی سفارت کار بھی محفوظ نہیں ہیں جو جنین کیمپ کے دورے پر آئے تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وفد میں یورپی سفارت کاروں کے ساتھ عرب ممالک کے اعلیٰ سطح کے نمائندے بھی موجود تھے۔
اس دورے کا مقصد حالیہ دنوں میں اسرائیلی فوج کی مغربی کنارے اور بالخصوص جنین میں ملٹری آپریشن کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں کا جائزہ لینا تھا۔
یہ وفد جب مقامی اور بین الاقوامی صحافیوں کے ہمراہ مغربی کنارے کے جنین کیمپ دورے پر پہنچا تو اسرائیلی فوج نے یورپی سفارت کاروں پر فائرنگ کردی۔
اسرائیلی فوج کی اندھا دھند فائرنگ پر یورپی سفارت کاروں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سفارت کاروں کا پہلے طے شدہ اور بتائے گئے راستے سے ہٹ گیا تھا۔
ترجمان اسرائیلی فوج نے کہا کہ یہ وفد ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیا تھا جہاں اسے داخلے کی اجازت نہیں تھی۔
یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب اسرائیلی فوج نے کسی غیر ملکی وفد کو نشانہ بنایا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج کی یورپی سفارت سفارت کاروں
پڑھیں:
یورپی یونین اسرائیل پر پابندیاں لگانے کیلئے غور کر رہی ہے
اپنی ایک رپورٹ میں صیہونی اخبار کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کا یہ فیصلہ کو ایک ڈپلومیٹک اقدام ہے جس سے اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ اسلام ٹائمز۔ سپین، آئر لینڈ اور سلوانیا جیسے یورپی ممالک غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث "اسرائیل" پر پابندیاں عائد کرنے کے لئے مصِر ہیں۔ ان ممالک کی درخواست کے باوجود اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس یونین کے دیگر اراکان کی مخالفت کے باعث اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھ پائے گا۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ "کایا کیلس" اس یونین کے اراکین کو غزہ میں صیہونی رژیم کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پانچ اقدامات پیش کریں گی۔ قبل ازیں یورپی یونین میں فلسطین کے حامی ممالک کی غزہ کے حق میں کوششیں، جرمنی اور اٹلی جیسے دیگر اراکین کی مخالفت کی وجہ سے ناکام ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی اخبار یدیعوت آحارونوت نے یورپی یونین کے اس فیصلے کو ایک ڈپلومیٹک اقدام قرار دیا جس سے اسرائیل پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔