جس پانی پر بھارت کا حق ہے وہ پاکستان کو نہیں ملے گا، نریندر مودی کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
نئی دہلی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 مئی 2025ء ) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس پانی پر بھارت کا حق ہے وہ پاکستان کو نہیں ملے گا۔ راجستھان میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک بات بھول گیا کہ اب بھارت ماتا کا خادم مودی سر اونچا کیے یہاں کھڑا ہے، مودی کا دماغ ٹھنڈا ہے اور ٹھنڈا رہتا ہے لیکن مودی کا خون گرم ہے اب تومودی کی رگوں میں خون کے بجائے گرم سندور دوڑ رہا ہے، میں ہم وطنوں سے کہتا ہوں کہ جو لوگ سندور اجاڑنے نکلے تھے وہ خاک میں مل گئے، جن کو اپنے ہتھیاروں پر نازتھا، وہ آج ملبے کے ڈھیر کے نیچے دب گئے ہیں، پاکستان کو ہر دہشت گرد حملے کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور یہ قیمت پاکستانی فوج ادا کرے گی۔
نریندر مودی کا کہنا ہے کہ پتہ نہیں پاکستان کا رحیم یار خان ایئربیس کب کھلے گا یہاں سے سرحد کے بالکل پار ہے، وہ آئی سی یو میں ہے بھارتی فوج کے درست حملے نے اس ایئربیس کو تباہ کردیا ہے، آپ کے آشیرواد اور فوج کی بہادری سے ہم نے وہ عہد پورا کر دیا ہے، ہماری حکومت اور تینوں فوجوں نے ایسا جال بچھا دیا کہ پاکستان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا، ہم نے دہشت گردوں کے سب سے بڑے ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں، دنیا اور ملک کے دشمنوں نے بھی دیکھا ہے کہ جب سندور بارود میں بدل جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے۔(جاری ہے)
انڈین وزیر اعظم نے مزید کہا کہ یہ ایک اتفاق ہے کہ پانچ سال پہلے جب بالاکوٹ میں فضائی حملہ ہوا تھا، میرا پہلا جلسہ راجستھان میں ہی بارڈر پر ہوا تھا، اب آپریشن سندور ہوا تو اس کے بعد بھی میرا پہلا جلسہ یہاں بیکانیر میں ہو رہا ہے، میں نے راجستھان کے بارڈر پر کہا تھا کہ فضائی حملے کے بعد جب میں یہاں آیا تو اس سرزمین پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس ملک کو جھکنے نہیں ہونے دوں گا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کو
پڑھیں:
تورا بورا بھیجنے کی دھمکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-03-2
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افغان طالبان کو واپس ’تورا بورا‘ بھیجنے کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے خواہاں طالبان عناصر، نے ہمارے عزم و حوصلے کا غلط اندازہ لگایا، اگر وہ لڑائی پر آمادہ ہیں تو دنیا ان کی دھمکیوں کو محض ایک تماشا سمجھے گی کسی بھی دہشت گردانہ حملے یا خود کش دھماکے کا مزہ چکھا دیں گے۔ ترکیہ کے شہر استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے بے نتیجہ ختم ہونے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں وزیر دفاع خواجہ محمدآصف کا موقف تھا کہ طالبان حکومت برادر ممالک سے مسلسل مذاکرات کے لیے درخواست کر رہی تھی چنانچہ برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے امن کی خاطر افغان طالبان سے مذاکرات کی پیشکش قبول کر لی مگر بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان حکمران انتشار اور دھوکا دہی کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان یہ واضح کرتا ہے کہ طالبان حکومت کو ختم کرنے یا انہیں غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کے لیے ہمیں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں پڑے گی۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم انہیں تورا بورا جیسے مقامات پر شکست دے کر لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا سکتے ہیں، جو اقوام عالم کے لیے دلچسپ منظر ہو گا طالبان صرف اپنی قابض حکمرانی اور جنگی معیشت کو بچانے کے لیے افغانستان کو ایک اور تنازع میں دھکیل رہے ہیں اور اپنی کمزوری اور جنگی دعوئوں کی حقیقت کو جانتے ہوئے طبل جنگ بجا کر بظاہر افغان عوام میں اپنی بگڑتی ہوئی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اگر طالبان دوبارہ افغانستان اور اس کے معصوم عوام کو تباہ کرنے پر بضد ہیں تو پھر جو بھی ہوتا ہے وہ ہو… وزیر دفاع نے اس بیان میں افغانستان کے ’سلطنتوں کے قبرستان‘ ہونے کے بیانیہ کی بھی ایک نئی تعبیر پیش کی جو ماضی میں پاکستان کا موقف کبھی نہیں رہی! قبل ازیں قطر کے دارالحکومت دوحا میں ترکی اور قطر کی مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ 19 اکتوبر کو طے پایا تھا جس کے بعد اس معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق امور کو حتمی شکل دینے کے لیے 25 سے 28 اکتوبر تک ترکیہ کے شہر استنبول میں دونوں ملکوں کے مابین چار روزہ مذاکرات کا دور ہوا پچپن گھنٹے تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں فریقین میں اتفاق رائے اور حتمی معاہدہ نہ ہو سکا چنانچہ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان سے بھارتی حمایت یافتہ فتنہ، الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی سرحد پار دہشت گردی پر بارہا احتجاج کیا اور دوحا معاہدہ میں کیے گئے تحریری وعدوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا مگر افغان طالبان کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت رکوانے کی تمام پاکستانی کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ طالبان قیادت افغان عوام کو غیر ضروری جنگ میں دھکیلنے پر بضد ہے، پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے امن و خوش حالی کے لیے قربانیاں دی ہیں مگر افغان طالبان نے پاکستان کے نقصانات سے بے نیازی دکھائی ہے۔ چار برس گزرنے کے بعد اب پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے تاہم ترکیہ اور قطر کے برادر مسلم ممالک کی درخواست پر پاکستان نے امن کو ایک اور موقع دیا۔ دوحا اور استنبول میں مذاکرات کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا مگر حیران کن طور پر طالبان اس معاملے میں ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے کبھی کہتے کہ ٹی ٹی پی اور دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور کبھی یہ مشورہ دیتے کہ پاکستان براہ راست ٹی ٹی پی سے گفت و شنید کرے مگر پاکستان نے طالبان کے اس موقف اور مشورے کو مسترد کر دیا اور مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی چونکہ نہ صرف افغان سرزمین سے اپنی سرگرمیاں منظم کر رہی ہے بلکہ اسے وہاں سے سہولت کاری بھی حاصل ہے اس لیے اس کی سرپرستی ختم کی جائے اور افغان انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کرے۔ طالبان اس بات کی ضمانت دیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ افغان حکمران ایسی کوئی تحریری ضمانت نہیں دیں گے تو پاکستان دہشت گرد عناصر کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ مذاکرات کے دوران پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس ثبوت اور ناقابل تردید شواہد بھی پیش کیے جنہیں افغان مذاکراتی وزراء نے تسلیم بھی کیا۔ مگر ضمانت دینے کا مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی کی گئی اور ایسے معاملات میں ضمانتیں مانگی گئیں جن کا پاکستان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ یوں چار روز تک جاری رہنے والا مذاکراتی عمل بے نتیجہ ختم ہو گیا۔ کوئی ذی شعور انسان اس طرز عمل کی حمایت نہیں کر سکتا جس کا مظاہرہ پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کے بقول افغان طالبان کی طرف سے کیا جا رہا ہے تاہم اس معاملہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل فریقین کو اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ حملہ جس جانب سے بھی ہو، اس کا نقصان بہرحال مسلمانوں ہی کو پہنچے گا جب کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے حکمران اپنی اپنی حدود میں قرآن و سنت کی بالادستی پر مبنی اسلامی شرعی نظام کی حکمرانی کے دعویدار ہیں اور قرآن حکیم میں تو واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘۔ شاعر نے اس حکم کو ان الفاظ میں شعر کا جامہ پہنایا ہے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
قرآن دو ٹوک الفاظ میں مسلمانوں اور رسول کریمؐ کے امتیوں کا یہ وصف بیان کرتا ہے کہ حق و باطل کا معرکہ ہو تو ان کا رویہ نہایت سخت ہوتا ہے تاہم جب معاملہ آپس کا ہو تو وہ عفو و درگزر کا رویہ ہوتا ہے تاہم جب معاملہ آپس کا ہو تو وہ عفو و در گزر کے پیکر اور ایک دوسرے پر رحم کرنے والے ہوتے ہیں مگر یہاں معاملہ عجیب ہے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں مسلمانوں کے ازلی دشمن بھارت کے بارے میں تو دوستانہ اور نرمی پر مبنی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر آپس میں سختی برتتے ہوئے مسلمان بھائیوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ بہتر ہو گا فریقین قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اپنے طرز عمل پر از سر نو غور کریں اور امت مسلمہ اور دونوں ملکوں میں آباد مسلمان بھائیوں کے مفاد میں افہام و تفہیم سے معاملات طے کریں اور خونریزی سے ہر صورت گریز کیا جائے۔ جہاں تک خواجہ آصف کا تعلق ہے وہ جارحانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنے اور غیر ذمے دارانہ بیانات دینے کے عادی ہیں انہیں افغان بھائیوں کو تورا بورا کا طعنہ اور دھمکی دینے سے قبل سو بار سوچنا چاہیے تھا۔ ان کے تحریک انصاف کی خاتون رکن اسمبلی کے بارے میں ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ والے اسمبلی میں دیے گئے بیان پر بھی پوری قوم نے شدت سے برا منایا تھا مگر وہ اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ نہیں ہیں ابھی چند روز قبل جب پاک افغان مذاکرات جاری تھے انہوں نے افغانستان کو کھلی جنگ کی دھمکی دے کر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ انہیں احساس ہونا چاہیے کہ وہ ایک اہم اسلامی مملکت، جو جوہری صلاحیت کی بھی حامل ہے، کے ایک انتہائی ذمے داریوں کے حامل منصب پر فائز ہیں۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ اپنا وزن رکھتا ہے اس لیے زبان کھولتے ہوئے انہیں کسی بھی صورت احتیاط کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے۔