امریکا میں چھوٹا طیارہ آبادی پر گر کر تباہ، ہلاکتیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
طیارے میں غیرحتمی طور پر 10 کے قریب مسافر سوار تھے جب کہ جہاں طیارہ گرا وہاں اس سے بڑھ کر نقصان کا اندیشہ ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والے افسران کو سڑک پر کھڑی گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ملی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ میں ایک مسافر بردار چھوٹا نجی طیارہ سان ڈیاگو کے رہائشی علاقے میں پر گر کر تباہ ہو گیا جس سے متعدد گھروں اور کاروں میں بھی خوفناک آگ بھڑک اُٹھی۔ عالمی خبر رساں ادارے طیارے میں غیرحتمی طور پر 10 کے قریب مسافر سوار تھے جب کہ جہاں طیارہ گرا وہاں اس سے بڑھ کر نقصان کا اندیشہ ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والے افسران کو سڑک پر کھڑی گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ملی۔ سان ڈیاگو پولیس اور فائر بریگیڈ نے موقع پر پہنچ کر آگ بجھانے اور امدادی کارروائیاں شروع کیں اور 100 سے زائد افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
پولیس افسر ایسٹر نے تصدیق کی کہ حادثے میں کم از کم دو افراد ہلاک ہوگئے جب کہ 8 زخمی ہیں۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جس آبادی پر طیارہ گرا وہاں کئی گھروں اور کاروں میں آگ لگنے کے باعث بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا ہے۔ رہائشیوں کی بروقت منتقلی سے وہاں جانی نقصان نہیں ہوا۔ حادثے کی تحقیقات جاری ہیں فی الحال حکام نے طیارے کی قسم اور اس میں موجود افراد کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
دنیا کی تاریخ اور معیشت کا مطالعہ کیا جائے تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترقی ہمیشہ رسائی (Access) سے شروع ہوتی ہے اور رسائی کی پہلی شکل سڑک ہے یہی وجہ ہے کہ قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید ریاستوں تک ہر دور میں سب سے پہلے سڑکوں کی تعمیر کو ترجیح دی گئی۔
رومی سلطنت کے روڈ نیٹ ورک کو آج بھی انجینئرنگ کا شاہکار کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی گرینڈ ٹرنک روڈ نے صدیوں تک تجارت اور سفر کو آسان بنایا۔ جدید دور میں امریکہ کا انٹر اسٹیٹ ہائی وے سسٹم اور یورپ کی موٹرویز نے معیشتوں کی ترقی کو تیز رفتار بنایا۔ جبکہ چین نے اپنے ترقیاتی سفر کا آغاز سب سے پہلے سڑکوں سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
دنیا نے ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے 2 ماڈلز اپنائے:
پہلا، شہروں کے درمیان محفوظ اور تیز رفتار رسائی کے لیے موٹرویز اور ایکسپریس ویز بنائے گئے، تاکہ تجارت اور سفر سہولت کے ساتھ ہو سکے۔
دوسرا، شہروں کے اندر سفر کے لیے جدید، صاف ستھری، وقت پر چلنے والی اور آرام دہ بسیں اور میٹرو سسٹمز متعارف کرائے گئے، اس سے نہ صرف عوام کا وقت بچا بلکہ آلودگی اور ٹریفک کے مسائل بھی کم ہوئے۔
پاکستان میں بھی تیز رفتار ترقی کا یہی ماڈل اپنایا گیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسلام آباد–لاہور موٹروے سے اس سفر کا آغاز کیا، اس کے بعد لاہور میں میٹرو بس سسٹم بنایا گیا، تاکہ شہریوں کو اندرونِ شہر آرام دہ اور وقت پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میسر ہو۔
یہ دونوں منصوبے دنیا کے تسلیم شدہ ترقیاتی ماڈل کے عین مطابق ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں عمران خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں — قومیں واقعی سڑکوں سے ہی بنتی ہیں۔
ترقی کی کہانی صرف ٹرانسپورٹ تک محدود نہیں، اگر کہیں کان کنی شروع کرنی ہو تو سب سے پہلا کام وہاں تک سڑک کی تعمیر ہی ہوتا ہے، تاکہ بھاری مشینری اور نکالی گئی معدنیات آسانی سے منتقل ہو سکیں۔ اسی طرح ڈیم، صنعتی زون یا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہو — سب کی پہلی ضرورت رسائی ہے جس کے لئے سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔
یہی اصول معاشرتی شعبوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، اگر بہترین یونیورسٹی بنا دی جائے، لیکن وہاں جانے کے لیے سڑک نہیں ہو تو طلبہ اور اساتذہ نہیں پہنچ پائیں گے اور ادارہ بیکار ہو جائے گا۔
اگر جدید ہسپتال بنا دیا جائے، لیکن وہاں جانے کے لئے سڑک نا ہو تو ساری سہولت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر شاندار صنعتی زون کھڑا کر دیا جائے لیکن وہاں ٹرک اور کنٹینر جانے کے لئے سڑک نہیں ہو تو صنعت بند ہو جائے گی۔ گویا، سڑک کے بغیر کوئی منصوبہ اپنی افادیت برقرار نہیں رکھ سکتا۔
چین نے اپنی ترقی کی بنیاد اسی فلسفے پر رکھی، انہوں نے دور دراز پہاڑی اور کم آبادی والے علاقوں تک بھی سڑکیں پہنچائیں، تاکہ ریاستی نظم، تعلیم، صحت اور تجارت ہر جگہ یکساں انداز میں دستیاب ہو۔
نتیجہ یہ نکلا کہ پسماندہ علاقے ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور پورا ملک ایک مربوط معیشت میں ڈھل گیا۔
یہ تمام مثالیں ایک ہی نکتہ واضح کرتی ہیں:
قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں، کیونکہ سڑک صرف ایک راستہ نہیں، بلکہ زندگی، معیشت، تعلیم، صحت، صنعت اور ریاستی نظم و نسق کا پہلا قدم ہے جہاں سڑک ہے وہاں ترقی ہے اور جہاں سڑک نہیں ہو وہاں ترقی اور سہولیات مفقود ہو جاتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں