تلسی، نیم، کلونجی اور سونف یہ پودے صرف دوا نہیں، دیہی خواتین کا صدیوں پرانا علم اور قدرت سے جُڑے رہنے کا طریقہ ہیں۔
کبھی دیہی علاقوں کے آنگنوں میں تلسی کی خوشبو ہوا میں بسی ہوتی تھی، نیم کی ٹھنڈی چھاؤں راحت دیتی تھی، اور ہر عورت کے ذہن میں ایک چھوٹا سا حکیم بسا ہوتا تھا۔
جنوبی پنجاب کی عورتیں نہ صرف گھریلو زندگی کی ماہر تھیں بلکہ جڑی بوٹیوں کے استعمال سے اپنے اہلِ خانہ کی شفا کا ذریعہ بھی۔ آج وہ دانش، وہ رسمیں، اور وہ قدرتی علم آہستہ آہستہ وقت کی گرد میں دب رہا ہے۔
میانوالی کے قصبہ ’کمر مشانی‘ کی 70 سالہ بزرگ رہائشی گل خاتون بتاتی ہیں، ’بخار ہو تو نیم کے پتوں سے نہلاتے تھے، تلسی اور دارچینی کا قہوہ پلاتے تھے۔ پیٹ خراب ہو تو سونف اور زیرہ کام آتا تھا۔ زچگی کے بعد السی، میتھی اور اجوائن کی مالش کی جاتی تھی، اور دردِ زہ میں کلونجی کا پانی دیا جاتا تھا‘۔
یہ علم کسی کتاب میں نہیں لکھا گیا تھا بلکہ یہ عورت سے عورت یعنی سینہ در سینہ منتقل ہونے والی زبانی دانش تھی۔
دیہی گھروں میں اگائے جانے والے پودے صرف سبزہ نہیں تھے، بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ تھے۔ کچھ اہم پودے جو ہر عورت پہچانتی تھی، مثلا
تلسی، جو نزلہ، کھانسی، بخار، اور ذہنی سکون کے لیے مفید سمجھی جاتی تھی۔
نیم، جو جلدی امراض، دانتوں کی صفائی، اور جراثیم کش خصوصیات کا حامل تھا۔
اجوائن، جو پیٹ کے درد، بدہضمی، اور گیس میں مؤثر تھی۔
کلونجی، جسے قوتِ مدافعت بڑھانے، دردِ زہ اور بخار میں استعمال کیا جاتا تھا۔
سونف، جو معدے کی بہتری، ہاضمے اور نظر کی تیزی کے لیے فائدہ مند تھی۔
دارچینی، جو خون کی روانی بہتر بنانے، نزلے اور ذیابطیس میں کام آتی تھی۔
السی، جو جوڑوں کے درد اور زچگی کے بعد کی کمزوری میں کارآمد تھی۔
میتھی، جو بالوں کی صحت اور دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
اس کے علاوہ کچنار، دھماسہ، ست گلو، کریلا اور چرائیتہ جیسے پودے بھی موسمی یا دائمی بیماریوں کے علاج میں شامل تھے۔ یہ صرف پودے نہیں تھے، بلکہ زندگی کے وہ اسباق تھے جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔
تلسی کا پانی صبح پلانا، نیم کے پتے بستر کے نیچے رکھنا یا کلونجی تکیے کے نیچے رکھ کر دعا پڑھنا، ان سب میں شفا کے ساتھ ساتھ روحانی پہلو بھی شامل ہوتا تھا۔ ہر پودے کی اپنی ایک کہانی اور ایک مقصد تھا۔
دورِ حاضر کی زندگی میں ان جڑی بوٹیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور کئی مرتبہ ان کی اہمیت کو ہم جدید طریقہ علاج کے مقابلے میں کم سمجھتے ہیں۔
تاہم، حالیہ برسوں میں ایک نئی لہر اٹھی ہے، جہاں دیہی خواتین اور نوجوان لڑکیاں اپنے اجداد کے طریقوں کو دوبارہ اپنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز نے دیہی خواتین کو یہ سکھایا کہ وہ کس طرح قدرتی علاج کے طریقوں کو دوبارہ استعمال میں لائیں۔
دیہی علاقوں میں ایک نیا رجحان پیدا ہو رہا ہے، جس میں خواتین اپنے آنگن میں تلسی اور نیم کے پودے لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے دیگر حصوں میں بھی قدرتی جڑی بوٹیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
چھوٹے سے چھوٹے گھریلو مسائل جیسے کھانسی، بخار یا ہاضمہ کی خرابی کا علاج بھی قدرتی طریقوں سے کرنے کی کوششیں بڑھ رہی ہیں۔
یہی نہیں، دیہی علاقوں میں خواتین اپنے بزرگوں سے سیکھ کر ان طریقوں کو نئی نسل تک پہنچا رہی ہیں، تاکہ یہ قدرتی علم اور جڑت نسلوں تک منتقل ہو۔
جڑی بوٹیوں کی کہانیاں ثقافت کا حصہ بھی تھیں، یہ بہت سے غمی خوشی اور مختلف تہواروں میں بھی شامل حال رہتی تھیں۔ قدیم آزمودہ نسخے تہذیبی ورثے، محبت اور روحانیت کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمارے اندر موجود ہے۔
قدرت سے جُڑنے کا ایک راستہ ہماری جڑی بوٹیوں کی دانش میں چھپا ہے۔ یہ خواتین کا محفوظ، آزمودہ ورثہ ہے۔ دورِ حاضر میں جب کوئی عورت دوبارہ تلسی اُگاتی ہے، نیم کی پتی چباتی ہے، یا کلونجی کا تیل بناتی ہے، تو وہ صرف جسم کو نہیں بلکہ اپنی ثقافت کو بھی شفا اورجِلا بخشتی ہے۔
قدرت کے پودے صرف جڑی بوٹیاں نہیں، بلکہ ہماری ثقافت، ہماری تاریخ اور ہماری شناخت ہیں۔ یہ وہ علم ہے جو صدیوں سے ہمارے بزرگوں نے ہمیں دیا، اوریہ وہ علم ہے جو ہم اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔
یہ پودے ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ قدرتی وسائل کا استعمال صرف بیماریوں کا علاج نہیں ہے، بلکہ یہ ہمارے تعلقات، ہماری روایات اور ہماری روحانیت کا حصہ بھی ہیں۔
ہم جب دوبارہ تلسی کے پودے اُگاتے ہیں، نیم کے درختوں کا خیال رکھتے ہیں، یا کلونجی کی تیز خوشبو سے اپنے ماحول کو خوشبو کرتے ہیں، تو ہم دراصل قدرتی دنیا کے ساتھ اپنے تعلق کو دوبارہ مستحکم کرتے ہیں۔
یہ صرف قدرتی علاج نہیں، بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے کہ ہم قدرت سے جڑے رہ کر ہی اپنے جسم، دماغ اور دل کو سکون اور صحت دے سکتے ہیں۔
قدرت کا ہر پودا ایک کہانی سناتا ہے، ایک یاد دلاتا ہے، اور ایک نئے سفر کا آغاز کرتا ہے جو ہمیں اپنی روایات اور شناخت کی طرف لے جاتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جڑی بوٹیوں کے ساتھ نیم کے کے لیے
پڑھیں:
فلسفۂ قربانی اور عصرِ جدید
مفہوم: ’’بے شک! ( اے حبیبؐ) ہم نے آپؐ کو خیر کثیر عطا فرمایا۔ پس اپنے رب کے لیے نماز ادا کیجیے اور قربانی دیجیے۔ بے شک! آپؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہے۔‘‘
ذی الحج کا مہینہ آنے سے قبل ہی عید قرباں اور قربانی کا غلغلہ مچ جا تا ہے۔ لاکھوں خوش نصیب بارگاہ ایزدی میں فریضۂ حج کی ادائی کے لیے اطراف و اکناف عالم سے کشاں کشاں مکہ مکرمہ کھنچے چلے جاتے ہیں، تاہم کروڑوں مسلمان جو بہ وجوہ وہاں نہیں پہنچ پاتے، وہ اپنی ایمانی و روحانی تسکین کے حصول کے لیے سنّت مصطفوی ﷺ کی پیروی کر تے ہوئے اس عظیم واقعے کی یاد تازہ رکھتے اور انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ ہر سال جانوروں کی قربانی کر تے ہیں، تاکہ سیدنا ابراہیم اور ان کے عظیم فرزند سیدنا اسمٰعیل علیہم السلام اور آپؑ کے خانوادے کی رضائے الٰہی کے لیے کی گئی عظیم قربانی کی یاد گار ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے۔
امام کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل بھی یہ عمل ادا کیا جاتا رہا، بل کہ قرآن مجید کے مطابق ابتدائے انسانیت سے ہی یہ پاکیزہ جذبہ موجود ہے۔ البتہ اس جذبۂ قربانی کو اگر جِلا ملی تو محبوب رب العالمین ﷺ کے ورود مسعود اور امت مسلمہ کے برپا کیے جانے کے بعد ملی اور قیامت تک یہ سنت ابراہیمی اہل ایمان ادا کر تے رہیں گے۔
ہم اور ہمارے اسلاف صدیوں سے یہ عمل دہراتے آرہے ہیں تاہم آج جب کہ امت مسلمہ بے شمار مسائل کی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، ایسے ماحول میں شدید ضرورت ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں کہ آیا اس عظیم عمل کی ادائی محض رسمی عبادت ہے اور اس کا مقصد صرف جانور ذبح کرنا اور گوشت کا حصول ہے یا اس عمل کے پس پردہ کار فرما رب تعالیٰ کو مطلوب مقاصد و حکمتیں ہیں۔
ذرا مشاہدہ کیجیے اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ جن پر ہم نے جزدان سجا کر گرد و غبار کی موٹی تہیں جما رکھی ہیں، وہ کیا کہتی ہیں اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ﷺ اور ان کی امت کو جو مقام شرف و عظمت عطا فرما یا ہے اس کے تقاضوں کے تحت شکر ربانی کے طور پر نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے، اﷲ تعالیٰ نے امام کائنات ﷺ کو جن بلندیوں و رفعتوں سے سر فراز فرمایا، انہیں امام الانبیاء، شفیع المذنبین اور رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مناصب جلیلہ عطا فرمائے بل کہ ’’ وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَکَ‘‘ کہہ کر شان مصطفی ﷺ پر مہر تصدیق ثبت فرما دی کہ جب جب اور جہاں جہاں رب کی کبریائی ہے، وہاں وہاں میرے مصطفی ﷺ کی مصطفائی ہے۔
سبحان اﷲ! یہ مقام عظمت و بزرگی کسی پیغمبر کو حاصل نہ ہوسکا جب خالق کائنات نے اپنی نعمتوں کو اپنے محبوب پر اکمال و اتمام فرمایا تو شرط بھی عاید کردی کہ دنیا و آخرت میں ہم نے آپ ﷺ اور آپؐ کی امت کو سب سے بلندی عطا فرمائی تو شکر نعمت کا تقاضا ہے کہ اب آپ ﷺ اور آپؐ کی امت بھی اپنے رب کا حق ادا کریں اور اس کے لیے دو عمل بیان فرما دیے کہ ایک تو نماز قائم کریں اور دوسرے قربانی دیں۔
ہمارے معاشرے میں فریضۂ نماز کی ادائی کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے البتہ قربانی کے فریضے کا جائزہ لیں تو عجیب منظر دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں افراد مرد، خواتین یہاں تک کہ معصوم بچے اور بچیاں تک جانور کی تلاش میں دن بھر بل کہ رات رات بھر منڈیوں میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور نمازیں ضایع کر تے ہوئے ایک ایسے عمل میں منہمک رہتے ہیں جو یقیناً انتہائی محبوب و مستحسن ہے تاہم ایک ایسے فرض سے بے پرواہی جو کفر اسلام کا خط امتیاز ہے واجب یا مسنون عمل کی ادائی ہرگز اس کے مقابل نہیں ہو سکتا۔
قربانی نام ہے اپنی جان و مال سمیت فکر و نظریات، خواہشات، ضروریات، پسند ناپسند، خوشی غمی، حتیٰ کہ اہل و عیال اور عزیز ترین شے کو اپنے رب کی مرضیات کے مطابق ڈھال لینا اور ہر طرح کے ایثار کے لیے ذہنی، فکری، مالی، جسمانی رحجانات و میلانات کو سیرت مصطفی ﷺ کے مطابق ڈھال لینا۔ آئیے! بہ نظر عمیق خود احتسابی کی چھلنی سے اپنے آپ کو گزاریں۔ یقین جانیے صحیح تصویر سامنے آجائے گی کہ آیا ہم زبانی کلامی یا بعض نمائشی اقدامات کے ذریعے بہ زعم خود کسی پندار میں الجھے ہوئے ہیں یا واقعی ہم قربانی کی روح اور فلسفے سے آشنا ہوکر اپنے رب کے محبوب بندوں میں شمار ہو تے ہیں۔ اصولی بات ہے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
عید الاضحیٰ اور قربانی کا سبق اہل ایمان کے لیے تو یہ ہے کہ ہر طرح کی عبادت و ریاضت کا مقصود و مطلوب خالق کائنات کی خالص بندگی اور رضا مندی حاصل ہوجائے۔ یقیناً قربانی بھی انھی اعمال میں سے ایک ہے، اگر یہ عمل خالصتاً اﷲ کے لیے ہے اور اس میں کسی قسم کی ریا کاری دکھا وا یا آج کل جیسا کہ رجحان بن چکا ہے، خاندان، برادری، محلے یا معاشرے میں مسابقت اور نمود و نمائش ہے تو پھر جان لیجیے کہ رب تعالیٰ کو ایسی قربانیوں کی ضرورت نہیں۔
ارشاد الٰہی کا مفہوم ہے: ’’اﷲ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اور نہ ہی ان کے خون، بل کہ اسے (یعنی اﷲ تعالیٰ کو) تو تمہارے دلوں کی پرہیزگاری (یعنی تقویٰ) پہنچتا ہے۔ اسی طرح اﷲ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع کردیا ہے کہ تم اس کو (یعنی اﷲ تعالیٰ کی عطا کر دہ) ہدایت کے شکریے میں اس کی کبریائی بیان کر و اور (اے میرے حبیب ﷺ) نیک لوگوں کو (جنت و رضائے الٰہی) کی خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ (سورۃ الحج)
اب پتا چلا کہ ہمارا رب ہم سے کیا چاہتا ہے۔ آج امت مسلمہ کی زبوں حالی، بالخصوص ہماری قومی، معاشی، اقتصادی، دفاعی، تعلیمی پس ماندگی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق جذبۂ قربانی کو بیدار کر ے اگر آپ کے مالی وسائل نہیں اور قرض کی ادائی بھی ممکن نہیں تو آپ قربانی کے مکلف نہیں ہیں، البتہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دیگر نعمتوں آپ مثلاً علم و ہنر، معاملہ فہمی، شعور و ادراک یا جسمانی، ذہنی اور فکری صلاحیتوں سے سر فراز فرمایا ہے تو اب آپ کی قربانی و ایثار یہ ہے کہ دین متین اور امت مسلمہ کی سربلندی و ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں سے ایثار و قربانی کے جذبے کے تحت جو نمایاں خدمات سر انجام دے سکتے ہوں، تو ضرور دیجیے۔
یہی قربانی کا فلسفہ ہے کہ جہاں ایک طرف اہل اسلام اپنے اندر انقلابی تبدیلیاں لاتے ہوئے منکرات سے بچ کر معروفات پر کماحقہ عمل پیرا ہوں، وہیں سنت ابراہیمی کی روشنی میں نفس امارہ کے منہ زور گھوڑے کو اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی، خود غرضی، بے حسی، کفار کی نقالی، تہذیبی اقدار کی پامالی، معاشرتی بے اعتدالی، ملی و ملکی عزت و حرمت کے منافی امور سے اجتناب، جھوٹ، ملاوٹ، خیانت، بددیانتی، نسلی، لسانی، علاقائی تفاخر کے بہ جائے اسلام کو وجۂ افتخار بنانے اور ظلم، زیادتی، کرپشن، رشوت لوٹ کھسوٹ اور تمام تر انفرادی و اجتماعی گناہوں سے استغفار و اصلاح نفس کے ساتھ پوری امت کی اصلاح و خیر خواہی کے جذبے کو بیدار کیا جائے اور اس کے عملی اظہار کی خاطر مضبوط جماعتی زندگی کی استواری ہو تو یقیناً ہم قربانی کے فلسفے کو سمجھ پائیں اور دنیا و آخرت کی کام رانیوں سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
آئیے! اس موقع پر ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے کتاب و سنّت سے راہ نمائی حاصل کریں اور قربانی کا درس دیں۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم: (اے میرے حبیب ﷺ) ’’آپ فرما دیجیے کہ بے شک! میری نماز میری قربانی (ساری عبادتیں) اور میرا جینا اور میرا مرنا سب خالصتاً اﷲ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں (نہ ذات میں نہ صفات میں) اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والوں میں سے ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام)
اﷲ تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر ﷺ کی زبانی فلسفۂ قربانی بل کہ تمام تر عبادات نماز، روزہ، حج، قربانی، زکوٰۃ و صدقات وغیرہ کی غرض و غایت اور روح یہ ہے کہ ہر عمل خالص رضائے الٰہی کے حصول اور تطہیر نفس کے ساتھ اعتقادی، انفرادی و اجتماعی زندگی میں انقلاب برپا ہو اور مسلم معاشرہ باہمی رواداری، خیر خواہی اور انسانی ہم دردی پر مبنی ہو، جس میں ہر خاص و عام کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔ ایسا مثالی معاشرہ ضبط نفس اور ایثار و قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔