فیلڈ مارشل عاصم منیر سے سی ای او پاکستان کرپٹوکونسل کی ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
فلیڈ مارشل عاصم منیر سے سی ای او پاکستان کرپٹو کونسل بلال بن ثاقب نے جی ایچ کیو میں ملاقات کی ۔پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو مضبوط بنانے، نوجوان نسل کو بلاک چین، کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے بااختیار بنانے کے سلسلے میں جنرل ہیڈکوارٹر میں ایک اجلاس ہوا۔اس موقع پرفیلڈ مارشل عاصم منیرنے پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب کے ساتھ ملاقات کی۔ جس میں ملکی معیشت کوجدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مستحکم بنانے پر بات چیت کی گئی۔ملاقات میں نوجوانوں کو ڈیجیٹل اور باک چین ٹیکنالوجی میں مہارت دلانے کی ضرورت پرزور دیاگیا۔سی ای او پاکستان کرپٹوکونسل نے ادارے کی کامیابیوں اور مستقبل کے منصوبوں سے متعلق فیلڈ مارشل کو تفصیلات پیش کیں۔ملاقات میں پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان صرف مستقبل کے لیڈر نہیں بلکہ آج کی تبدیلی کے علمبردار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم انہیں عالمی سطح پر کامیاب ہونے کے لیے درکار وسائل فراہم کریں گے۔انہوں نے فیلڈ مارشل کو بتایا کہ پاکستان میں 5 کروڑ سے زائد کرپٹو صارفین ہیں، جن کا سالانہ ٹریڈنگ حجم 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ان کا مزید کہناتھاکہ دنیا بھر میں کرپٹو اپنانے والے ممالک میں پاکستان ٹاپ 5 ممالک میں شامل ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاکستان کرپٹو سی ای او
پڑھیں:
فیلڈ مارشل کا بحث و مباحثہ
ان دنوں وفاقی کابینہ کی طرف سے جنرل عاصم منیر کو فیڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی بحث زور شور سے جاری ہے۔ وہ خود ساختہ دانشوران بھی اس موضوع پر خامہ فرسائی کر رہے ہیں، جنہوں نے یہ دو الفاظ پہلی بار سنیں ہیں۔ حافظ جنرل عاصم منیر کو ملنے والے اس اعزاز کے حق اور مخالفت میں آپ جو مرضی رائے قائم کر لیں، لیکن اس فیصلے کی تہہ میں کارفرما سچائی یہی ہے کہ جس کے حق میں وفاقی کابینہ نے فیصلہ صادر کیا ہے۔اس سے قبل صدر جنرل ایوب بھی فیلڈ مارشل رہے جنہوں نے پاکستان کو بھارت کے خلاف 1965 ء کی جنگ میں سرخرو کیا تھا۔ لیکن یہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ صدر ایوب خان نے یہ عہدہ اپنے لئے خود منتخب کیا تھا، جنہوں نے 1958ء میں مارشل لا لگا کر اقتدار سنبھالا اور 1959ء میں کوئی جنگ لڑے بغیر ہی خود کو ’’فیلڈ مارشل‘‘کے عہدے سے نواز لیا، کیونکہ بھارت کے خلاف جو جنگ پاکستان نے جیتی تھی وہ 6 سال بعد 1965ء میں لڑی گئی تھی۔ صدر جنرل ایوب خان خطے کے پہلے 5ستاروں والے فیلڈ مارشل جنرل تھے۔ ہمارے خطے کے دوسرے فیلڈ مارشل جنرل بھارت سے تعلق رکھنے والے جنرل سیم مانک شا تھے ۔ انہوں نے 1971ء کی جنگ میں بھارتی افواج کی قیادت کی اور بنگلہ دیش میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔ اس آپریشن کے بعد 1973ء میں انہیں یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ اب چار ستاروں والے جنرل عاصم منیر تیسرے جنرل ہیں جنہیں 5ستاروں کے رینک میں ترقی دے کر فیلڈ مارشل کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے۔
جنرل عاصم منیر کا منفرد اعزاز و مقام یہ ہے کہ انہوں نے کوئی مارشل لا ء نہیں لگایا، وہ حاضر سروس چیف آف آرمی سٹاف ہیں اور ان کی قیادت میں افواج پاکستان نے انڈیا کو جنگ میں چاروں شانوں چت کیا ہے جس کو نہ صرف انڈیا، بلکہ پوری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ہمارا ایک مخصوص سیاسی طبقہ، کچھ فوجی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کار جنرل عاصم منیر کی ترقی پر درپردہ اور دامے خرمے سیخ پا نظر آ رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ جنرل عاصم منیر اس عہدہ کے حق دار نہیں تھے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس سے ان کی ذاتی سیاسی وابستگی اور مفادات پر زد پڑتی ہے۔ اس طبقے کو جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر اپنی سیاسی موت واضح نظر آ رہی ہے۔ خاص طور پر تحریک انصاف کو جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر بہت تکلیف ہے۔ اس کی وجہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے جنرل عاصم منیر سے اختلافات بھی روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ اب عمران خان جیل میں ہیں تو یہ امکانات محدود ہو گئے ہیں کہ انہیں جلد رہائی ملے گی۔ جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے کا دوسرا مطلب تاحیات چیف آف آرمی سٹاف رہنا ہے یا اس وقت تک اس عہدے پر قانونا فائز رہنا ہے جب تک کہ وہ خود اس عہدے سے مستعفیٰ نہ ہو جائیں۔ حافظ صاحب کے فیلڈ مارشل بننے کی خبرانڈیا اور اس کے پاکستانی ہمنواں کے لئے موت کا پیغام بن کر اتری ہے۔ لہٰذا جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر پی ٹی آئی کا دکھ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ ان کی ترقی پر کیوں تلملا رہے ہیں؟ حالانکہ صرف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا اعزاز نہیں دیا گیا بلکہ حکومت پاکستان نے بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کے علاوہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کو مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بطور پاکستان ایئرفورس کے سربراہ اپنی خدمات جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق ان اہم فیصلوں کی منظوری منگل کے دن وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران دی گئی ہے۔یہ پیشرفت پاکستان اور انڈیا کی درمیان چار روزہ جنگ کے بعد سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت پاکستان کی جانب سے معرکہ حق، آپریشن بنیان مرصوص کی اعلیٰ حکمتِ عملی اور دلیرانہ قیادت کی بنیاد پر ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے اور دشمن کو شِکست دینے پر جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی گئی ہے۔‘‘
فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے برعکس سید جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے آرمی چیف ہیں کہ جنہیں وزیر اعظم اور صدر کی مشاورت کے بعد وفاقی کابینہ نے فیلڈ مارشل کا عہدہ دیا ہے۔ اس سے قبل گو کہ جنرل ایوب خاں پاکستان کے فیلڈ مارشل رہ چکے ہیں مگر انہوں نے یہ عہدہ خود اپنے لئے زبردستی منتخب کیا تھا۔ جبکہ جنرل عاصم منیر کو یہ غیرمعمولی فوجی رینک میرٹ پر اور ان کی فوجی اور دفاعی خدمات کے عوض دیا گیا ہے۔اس موضوع پر ایک فضول اور لایعنی بحث یہ کی جاری ہے کہ دو عہدے ایک ساتھ رکھنا غیر آئینی ہے یعنی کچھ حاسد دفاعی تجزیہ کار جنرل عاصم منیر کے فیلڈ مارشل بننے پر یہ رائے دے رہے ہیں کہ انہیں فیلڈ مارشل یا آرمی چیف میں سے ایک عہدہ چھوڑنا ہو گا، حالانکہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں فیلڈ مارشل کے عہدے کو اس کی خدمات کے بدلے صرف ایک ’’اعزازی عہدہ‘‘سمجھا جاتا ہے جو 4 سٹار جنرل کو ایک اضافی سٹار کا بیج لگا کر 5 سٹار جنرل والا فیلڈ مارشل بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی خدمات کا قومی اعتراف کیا جا سکے۔ اگر ضرورت پڑے تو آئین میں ترمیم کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہ کوئی اتنی بڑے مسئلے والی بات نہیں ہے کہ جس کو اتنی شدت سے زیر بحث لایا جائے۔یہ عہدہ جنرل عاصم منیر کو ہندوستان کو جنگ میں شکست دینے پر دیا گیا ہے جو 24 کروڑ پاکستانی عوام کی دلی خواہش کا نتیجہ ہے، جس سے دنیا بھر میں’’مسئلہ کشمیر‘‘دوبارہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ خضدار میں دہشت گردی کے المناک واقعہ ہی کو دیکھ لیں کہ اندرون اور بیرون ملک پاکستان کے آرمی چیف کن گوناگوں مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ ان حقائق کے درمیان ایک اعزازی عہدے کو متنازعہ بنانا بذات خود مشکوک ہے اور دشمنوں کی صف میں کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔