اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 مئی 2025ء) اطالوی مصنف اور مفکر نیکولو ماکیاولی فلورنس کا رہنے والا تھا، یہ شہر ریناساں کے عہد میں ثقافتی مرکز تھا۔ رپبلک کی حیثیت سے اس کا اقتدار تاجروں کے پاس تھا۔ اُنہوں نے اَدب و آرٹ کی سرپرستی کی جس کی وجہ سے فلورنس میں تخلیقی اَدب و آرٹ پیدا ہوا۔ ماکیاولی کو سیاسی وجوہات کی وجہ سے فلورنس سے جِلاوطن کر کے اُس کے گاؤں میں بھیج دیا گیا۔
بقایا زندگی اُس نے مطالعہ کرنے اور کتابیں لکھنے میں گزاری۔ 1527ء میں اُس کی وفات ہوئی اور اُس کی دو اہم کتابیں اُس کی وفات کے بعد شائع ہوئیں اور روشن خیالی کے دور میں اُسے ایک اعلیٰ مورخ اور فلسفی تسلیم کیا گیا۔لیوی کی تاریخ پر تبصرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے وہ ریپبلیکن نظام کی حمایت کرتا ہے اور بادشاہت کا سخت مخالف ہے۔
(جاری ہے)
اُس کے عہد کا اٹلی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھا۔
یہ آپس میں جنگیں بھی کرتے تھے اور مُتحد نہ ہونے کی وجہ سے فرانس اور آسٹریا نے اِن کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ کیونکہ حکمراں کو مکمل اختیارات ہوتے تھے، اس لیے عام لوگ ہر بحران کو تسلیم کر لیتے تھے اور ان کی جانب سے کوئی مزاحمتی تحریک نہیں اُبھرتی تھی۔ اس لیے ماکیاولی ریپبلک کا حامی تھا جس میں لوگوں کو آزادی ہوتی تھی اور وہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے چُنتے تھے۔ ریپبلک میں عوام نہ صرف سیاست میں حصہ لیتے تھے۔ بلکہ ریاست کے معاملات میں اپنے فیصلے بھی کرتے تھے۔ماکیاولی یونان کے مقابلے میں رومی سلطنت کے کلچر کا حامی تھا۔ اُس کے نزدیک قدیم دانشمندی حال کے مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی تھی۔ اُس کے لیے کسی بھی نظام میں نیکی (Virtue) کا ہونا ضروری تھا۔ وہ رومی سلطنت کی عظمت کا قائل ضرور تھا مگر اُس نے اس سلطنت کے ذوال کے بارے میں بھی تبصرہ کیا ہے۔
اُس کی دلیل کے مطابق جب رومی سلطنت فتوحات کی وجہ سے وسیع ہوتی چلی گئی تو اسی وسعت نے اُسے ذوال پزیر کرنا شروع کیا۔اگرچہ ماکیاولی نظامِ حکومت میں کسی ایک فرد کو مکمل بااختیار دیکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ جب کوئی ایک فرد اقتدار پر تسلط حاصل کر لیتا ہے تو بقیہ لوگوں پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ مایوس اور بے حس ہو جاتے ہیں لیکن وہ رومی روایت کا اس حد تک حامی تھا کہ اگر حالات بہت خراب ہو جائیں اور حکمراں اُن پر قابو نہ پا سکے تو اس صورت میں کچھ مدت کے لیے کسی ڈکٹیٹر کو حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری دے دی جائے لیکن جب حالات ٹھیک ہو جائیں تو ڈکٹیٹر شِپ کو ختم کر دیا جائے۔
ماکیاولی نے جولیس سیزر پر سخت تنقید کی ہے کیونکہ اُس نے ڈکٹیٹر بن کر طاقت کے ذریعے اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ اُس کا نتیجہ یہ تھا کہ سینٹ اور دوسرے ریاستی ادارے بے کار ہو کر رہ گئے تھے۔ اُس نے رومی ریپبلِک کو ختم کر کے اپنے مکمل اقتدار کے لیے راہیں ہموار کر لیں تھیں۔ اِس نقطہ نظر سے سیزر کا قتل ریپبلِک کو بچانے کی ایک کوشش تھی۔
ماکیاولی کی اپنے عہد کی سیاست پر گہری نظر تھی۔ سیاست میں وہ سازشوں اور جعلسازیوں کو مُتحرک پاتا تھا۔ رشوت بھی سیاست کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ لیکن وہ ان ساری خرابیوں کو اخلاقیات کی روشنی میں نہیں دیکھتا تھا۔ بلکہ اس کا جائزہ لیتا تھا کہ اِن کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی کس حد تک متاثر ہوئی ہے۔
ماکیاولی کے نظریات مسیحیت کے بارے میں بھی مختلف ہیں کیونکہ 313 عیسوی میں رومن سلطنت مسیحی ہو گئی تھی۔
جب چرچ کا غلبہ ہوا تو اس نے قدیم پیگن مذاہب کو سختی سے کُچل دیا۔ لیکن ماکیاولی کی دلیل کے مطابق مسیحیت نے رومیوں کی جنگی روح کو ختم کر دیا تھا اور اُن میں نرمی کے وہ احساسات پیدا ہوئے، جو اس کے ذوال کا باعث بنے۔ وہ اس بات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ رومی ریاست نے مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور لوگوں میں انتہاپسندی کو پیدا کر کے پیگن دور کی رواداری اور فلسفیانہ آزادی کو ختم کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرہ پسماندہ ہوتا چلا گیا۔ابتداء میں جب معاشرے میں سادگی تھی تو انسانی کردار بھی اُس کی نسبت سے سادہ تھا لیکن جیسے جیسے تہذیب کا ارتقاء ہوا ویسے ویسے معاشرہ آلودہ ہوتا چلا گیا۔ یہی صورتحال مسیحی مذہب کی بھی ہوئی۔ اس لیے وہ یہ سوال کرتا ہے کہ کیا مذہب کی سادگی کو واپس لایا جا سکتا ہے؟
بنیادی طور پر ماکیاولی سیکولر ذہن کا مالک تھا۔
وہ قوم پرست تھا اور اٹلی کو مُتحد دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مذہب کا سیاسی استعمال نہیں چاہتا تھا۔ اُس کے نزدیک عوام کی حیثیت جمہوری طاقت کی تھی جو ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کے خلاف تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ ریپبلِک کے نظامِ حکومت ہی میں عوامی مسائل کا حل ہے۔ تاریخی بیانیہ اس سلسلے میں ہماری مدد کرتا ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی وجہ سے کرتا ہے کے لیے تھا کہ کو ختم
پڑھیں:
غلط زمین، غلط موسم اورغلط کاشت (دوسرا اور آخری حصہ)
پیشے کی ایک نشانی اور پہچان یہ بھی ہے کہ انسان جو پیشہ بچپن سے سیکھتا ہے وہ اس میں تو ماہرہوجاتا ہے لیکن دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتا اوراگر کرناچاہے تو اس کے لیے اسے نئے پیشے کو نئے سرے سے سیکھنا ہوگا چنانچہ آج بے تحاشا درسگاہوں سے جو بے تحاشا تعلیم یافتہ ہرسال نکلتے ہیں انھیں صرف سرکاری ملازمت کرنا آتا ہے۔
کوئی اورکام نہ وہ کرسکتے ہیں نہ کرنا چاہتے ہیں اورسرکاری نوکریاں اس تعداد میں کہاں سے لائی جائیں گی جو اس بے تحاشا تعلیم یافتہ گان کو دی جا سکیں۔ اور یہاں تو سیاسی گینگوں کی برکت سے اورجرائم پیشہ داداؤں اورڈانوں کی دعا سے کرپشن بھی شیر مادر ہوچکی ہے جو صرف سرکاری نوکریوں ہی میں دستیاب ہے، تو بیروزگاری کی جوحالت اس وقت ہے وہ ہرکسی کو معلوم ہے کہ ’’تعلیم‘‘ والے ڈگریاں لیے ہوئے پھرتے ہیں اور… پھرتے ہیں میرخوارکوئی پوچھتا نہیں ۔یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ میں نے سیاسی پارٹیوں کو گینگ اورلیڈروں کو دادا اورڈان یعنی گینگسٹر کہا اوراصل حقیقت یہی ہے کیوں کہ سیاسی پارٹیوں میں انتخابات ہوتے ہیں۔
ان کا کوئی نظریہ اور پروگرام ہوتا ہے جب کہ یہاں سارا نظریہ ’’کرسی‘‘میں سمٹ چکا ہے اورپارٹیوں میں خاندانی وراثت چل رہی ہے، ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں اورگھر میں بادشاہت بلکہ شہنشاہیت …چنانچہ جب گینگ وار میں کامیاب ہوکر آتے ہیں تو سب کچھ ہوتے ہیں لیکن حکومت نہیں ہوتی کیوں کہ حکومت کے لیے ملک مقدم ہوتا ہے جب کہ یہاں لوٹ مارمقدم ہوتی ہے ، ڈاکوؤں کو لٹنے والے گھر سے کیاہمدردی ہوسکتی ہے جب کہ وقت کم اورکام زیادہ ہوتا ہے سب کچھ سامنے ہے اس لیے بس اتنا ہی کافی ہے اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں ۔
ہمارے دینیات کے استاذ دیوبند کے فاضل تھے، انھوں نے ایک مرتبہ کہا کہ دیوبند میں دینی علم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائے جاتے تھے ، لوہاری، ترکھانی، موچی گیری، درزی گیری اورراج معماری اورمستری وغیرہ ۔ انھوں نے کہا تھا کہ میں نے بھی درزی کاکام سیکھا ہے وہ تو مجھے نوکری آسانی سے مل گئی ورنہ میرا ارادہ درزی کی دکان کھولنے کاتھا ۔
پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ہنرسیکھ لو اوراسے اونچے طاق میں رکھ لو ، جب بھی ضرورت پڑے اٹھا کر شروع کرلینا۔پچھلے دنوں تعلیم کے عالمی ایام منائے گئے ، عورتوں کی تعلیم کادن بھی منایا گیا اورتقریبات میں ’’تعلیم‘‘ پر دانا دانشوروں نے زبردست قسم کے بھاشن بھی دیے ۔ سرکار دولت مدار کے کل پرزوں نے بھی تعلیم تعلیم تعلیم کے آموختے دہرائے ،گن گائے اور فلسفے بگھارے لیکن یہ کسی نے بھی نہیں بتایا کہ کونسی تعلیم کس غرض کے لیے تعلیم اورکیا تعلیم …یہی صرف سرکاری نوکری سکھانے کی تعلیم اورایسی نوکری جس میں کام نہ ہو۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے ساتھ پڑھنے والے کئی لڑکے اسکول چھوڑ گئے تھے اورجب ہم تعلیم سے فارغ ہوکر نوکری کے لیے جوتے چٹخانے نکلے تو وہ چائلڈ لیبر سے ہوکر کوئی دکاندار سیٹھ بنا تھا، کوئی کلینر سے ٹرانسپورٹر بنا ، کوئی شاگرد سے مستری بن کر لاکھوں میں کھیل رہا تھا ، سب سے نالائق ایک لڑکا مزدورسے راج اورراج سے ٹھیکیداربن کر کروڑپتی بن گیا تھا ۔دراصل پاکستانی قوم اورحکومت بھی اس مرض کاشکار ہیں جس مرض کا میں نے ابتدامیں ذکر کیا ہے ، غلط زمین غلط وقت پر غلط فصل کاشت کرنا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جب بھی کوئی فیشن ایبل نعرہ اٹھتا ہے یاکوئی تحریک کوئی ترقی کا غلغلہ اٹھتا ہے۔
پاکستانی اسے فوراً گلے لگا لیتے ہیں ، این جی اوز سرگرم ہوجاتی ہیں، تقریبات میں تقریریں ، اخبارات میں بیانات مضامین اورکالم برسنے لگتے ہیں۔کوئی یہ نہیں دیکھتا نہ سوچتا ہے کہ ہماری زمین ہمارا کھیت ہمارا موسم اس کے لیے سازگار ہے یا نہیں ، اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو اس جمہوریت کو دیکھئے جو ہمارے ملک میں رائج ہے، اس سیاست کو دیکھئے جو ہورہی ہے اوران حکومتوں کو دیکھئے جو پون صدی سے چل رہی ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی آپ حکومت کہہ سکتے ہیں گینگوں کے سوا۔سب کے سب کو ملک سے کوئی سروکار نہیں ہوتا صرف اپنے لوگوں کو اس کھیت میں چروانا ہوتا ہے۔
نہ کوئی دور رس پالیسی نہ پلان صرف عارضی دسترخوان۔ چنانچہ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہرحکومتی محکمہ اورادارہ نااہل اورنکمے نکھٹو لوگوں بلکہ کرپٹ اورجرائم پیشہ لوگوں سے بھر کر خسارے میں جارہا ہے کیوں کہ میرٹ کو مینڈیٹ میں دفن کیاجاچکا ہے جب یہ صورت حال ہوکہ جو سرکاری پوسٹوں پر نااہل نالائق اورغیر مستحق لوگوں کو بٹھایاجارہا ہو کام نہ کرنے اورکرپشن کو فروغ دینے کے لیے ۔۔۔تو آپ لوگوں کو ’’تعلیم‘‘ دے بھی دیں لائق لوگ پیدا بھی ہوں تو کیافائدہ؟اس وقت ہمارے ہاں تین اقسام کی تعلیم مروج ہے ، انگریزی پرائیویٹ تعلیم ، سرکاری تعلیم اوردینی تعلیم۔۔ اوریہ ایک نہایت ہی نفع آورتجارت ہے۔
اس تجارت سے کمانے والوں کو صرف کمائی سے غرض ہے ، اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ جو ’’مال‘‘ دھڑادھڑ بنارہے ہیں اورمارکیٹ میں پھیلا رہے ہیں اس کی کھپت ہوگی یانہیں چنانچہ سرکاری تعلیم سرکاری نوکر تیار کررہی ہے ، انگلش درسگاہوں والے سرکاری افسر تیار کررہے ہیں اوردینی مدارس علمائے دین تیار کررہے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اتنی سرکاری نوکریاں کہاں سے لائی جائیں گی اتنے سرکاری افسر کہاں بٹھائے جائیں گے اوراتنی مساجد کہاں بنائی جائیں گی۔ اب ہم بتاتے ہیں کہ ہرسال لاکھوں کی تعداد میں تیارکیاجانے والا مال کہاںجائے گا ، کسی نہ کسی شارٹ کٹ پر ہی جائے گاکیوں کہ پیٹ تو مانگتا ہے اورجب پیٹ خالی ہوتو جائز ناجائز کون دیکھتا ہے۔
یہ لوگ مزدوری نہیں کرسکتے ، ہاتھوںپیروں کی مشقت کے نہ عادی ہوتے ہیں اورنہ ہی تعلیم یافتگی ان کو کرنے دیتی ہے ، پھر ہم روتے ہیں کہ جرائم بڑھ رہے ہیں ، دہشت گردی ہورہی ہے ، بے راہ رویاں بڑھ رہی ہیں، تشدد میں اضافہ ہورہا ہے یہ ہورہا ہے وہ ہورہا ہے۔ آپ برا مان جائیں گے اگر میں یہ کہوں کہ یہ جرائم کرنے والے تشدد پر اتر آنے والے ، بے راہروی اختیارکرنے والے سارے قطعی ’’بے قصور‘‘ہیں، کہ ان کے لیے کوئی اورراستہ ہی نہیں ، کیوں کہ انسان جو کچھ بنتا ہے ، بچپن سے بلوغت تک بنتا ہے کہ یہی عمر سیکھنے کی ہوتی ہے ، اب یہ لوگ اپنی سیکھنے کی عمر تو ’’تعلیم ‘‘ میں ضایع کرچکے ہوتے ہیں اوراگر اب انھیں کچھ اور کرناپڑے تو کیسے کریں گے ،سرکاری نوکری سرکاری افسری اورمسجد کے لیے تیار کیے جانے والے نہ تو کھیت میں کام کرسکتے ہیں نہ اینٹ گارا ڈھو سکتے ہیں نہ جانور چراسکتے ہیں تو پھر کریں گے کیا؟بات ایک مرتبہ پھر تعلیم کی کرتے ہیں، اس فیشن ایبل تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس نے انسان سے اس کی ’’ماں‘‘ چھین لی ہے ، آزادی نسواں اورتعلیم نسواں کی بانسری بجا کر عورت کو مرد بنا لیاگیا ہے ۔
کیوں کہ بچے کی جسمانی مادی اورظاہری ذمے داری مرد کی ہوتی ہے دوسرے الفاظ میں کمانا ، بچے اوراس کی ماں کی ضروریات پوری کرنا مرد کی ذمے داری ہے جب کہ ماں کی ذمے داری اس بچے کی اندرونی اورباطنی تعمیر ہوتی ہے ، حیوان سے انسان بنانا ماں کاکام ہے اوراگر عورت کو آپ نے خوش نما بانسریوں سے مسحور کر کے باہرنکال دیا یا اپنی ذمے داری بھی اس پر ڈال دی ہے تو بوتل کادودھ پینے والا نوکروں کے ہاتھوں الگ بیڈروم میں پلنے والا اورپھر تجارتی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے میں ’’انسان‘‘کہاں سے آئے گا ، وہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر یہاں تک کہ موجد اورسائنس دان بھی بن جائے گا لیکن اس کے اندر انسان نہیں ہوگا وہ صرف کماؤ مشین ہوگا ۔انسان نہیں کہ انسان بنانا ماں کاکام ہے اوراسے آپ نے مرد بنا دیا ہے ۔