ناموس رسالت کا تحفظ ، صرف نعرے نہیں عمل چاہیئے
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کے درمیان ایک ایسا مسئلہ مسلسل سر اٹھا رہا ہے جس نے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کو بے چین کر رکھا ہے اور وہ ہے توہینِ رسالت اور دیگر گستاخانہ مواد کا پھیلاؤ۔ مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے اور جب اس بنیاد کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ پوری امت مسلمہ کے دل میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہوتا ہے۔ توہین آمیز خاکے، کتب، ویڈیوز، فلمیں اور آن لائن پوسٹس کسی ایک فرد یا گروہ کی ذہنی خباثت نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے ردِ عمل کو بنیاد بنا کر انہیں دنیا کے سامنے شدت پسند کے طور پر پیش کیا جا سکے۔یہ صورتحال اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتی ہے جب بین الاقوامی میڈیا ایسے گستاخانہ مواد کی اشاعت یا رپورٹنگ کو آزادی ٔ اظہار کا نام دے کر جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ آزادی نہیں بلکہ کھلی منافقت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو صرف معاشی منافع یا ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک مقدس امانت جانا جائے جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ اگر میڈیا ادارے اپنے ایڈیٹوریل پالیسیز میں مذہبی حساسیت کو شامل کریں، اگر سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے مواد کو سنسر کرنے کے لیے مؤثر طریقے متعارف کروائیں، اگر صحافیوں کو مذہبی احترام اور بین الاقوامی اخلاقیات کی تربیت دی جائے تو یہ ممکن ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔مسلم دنیا کے میڈیا اداروں کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ صرف مغربی میڈیا کی تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک ہم خود اپنا مؤثر اور مثبت بیانیہ دنیا کے سامنے نہیں رکھیں گے۔ ہمیں اپنی تحریروں، رپورٹنگ، ڈاکیومنٹریز اور آن لائن مہمات کے ذریعے دنیا کو یہ سمجھانا ہوگا کہ نبی کریمﷺ کی شخصیت امن، محبت، رحم، رواداری اور عدل کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ اسلام وہ دین ہے جو صرف مسلمانوں ہی نہیں، پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام لے کر آیا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھائے۔ توہین رسالت کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم قرار دیا جائے، جس طرح نسل پرستی، یہود دشمنی اور خواتین کی توہین پر قوانین موجود ہیں۔ اگر عالمی ضمیر آج بھی بیدار نہ ہوا تو دنیا شدید مذہبی تصادم کی طرف بڑھتی جائے گی۔سوال یہ بھی ہے کہ عام آدمی، ایک مسلمان، کیا کر سکتا ہے؟ پہلا قدم یہ ہے کہ ہم خود دین کو سمجھیں، اس پر عمل کریں اور دوسروں کو حسن اخلاق سے دعوت دیں۔ جذباتی نعرے، توڑ پھوڑاور خود ساختہ فتوے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ایک محتاط، مدلل اور بااخلاق مؤقف اختیار کر کے ہم نہ صرف اپنے دین کا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کے دل جیت سکتے ہیں۔
ہمیں اپنے تعلیمی نصاب، میڈیا اداروں اور معاشرتی ڈھانچے کو اس نہج پر لانا ہوگا جہاں عقیدہ، برداشت اور رواداری ساتھ ساتھ چلیں۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہ نہ سمجھا سکے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت صرف جذباتی ردِ عمل کا نام نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی کا انتخاب ہے تو یہ خلا ہمارے کل کو برباد کر دے گا۔موجودہ دور میں میڈیا نہ صرف معاشرتی رویوں کو تشکیل دیتا ہے بلکہ رائے عامہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں اگر میڈیا اپنا رخ حق و صداقت، عدل و انصاف اور دینی احترام کی طرف موڑ لے تو نہ صرف گستاخانہ مواد کا سلسلہ رک سکتا ہے بلکہ دنیا کے اندر ایک بہتر مکالمے کا آغاز بھی ممکن ہے۔گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے ہمیں بیداری، حکمت عملی، میڈیا ریفارمز، قانونی اقدامات اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم ﷺکی سیرت کے عالمی تعارف کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اس فتنے کا مؤثر مقابلہ کر سکیں گے۔
آئیے! عہد کریں کہ ہم صرف وقتی احتجاج نہیں کریں گے بلکہ ایسے مؤثر اقدامات اٹھائیں گے جن سے آئندہ کوئی بھی ہماری مقدس شخصیات کے خلاف زبان درازی سے پہلے ہزار بار سوچے۔ ہماری خاموشی دشمن کی جرأت کو بڑھاتی ہے۔ اب وقت ہے کہ امتِ مسلمہ متحد ہو کر، پرامن لیکن پرعزم انداز میں اس گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرے۔یہ وقت ہے کہ ہم میڈیا کو محض تفریح یا تجارت کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک تربیتی پلیٹ فارم میں تبدیل کریں۔اس پوری صورتحال میں علماء کرام، اساتذہ، والدین اور تمام باشعور طبقوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی اولاد کو بتانا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺکی ذات سے محبت کیا ہے اور اس محبت کا تقاضا کیا ہے۔ صرف نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے لئے دین اور ایمان سب کچھ ہے۔ میڈیا پر اسلامی اقدار کی نمائندگی، دینی معلومات کے فروغ اور اخلاقی پیغامات کی ترویج ہی وہ واحد راستہ ہے جو نہ صرف گستاخانہ مواد کا مؤثر جواب دے سکتا ہے بلکہ دنیا کے سامنے اسلام کا اصل چہرہ بھی پیش کر سکتا ہے۔گستاخی کا جواب دلیل، شعور، اتحاد، قانون اور اخلاق کے ہتھیاروں سے دینا ہوگا۔ اگر ہم میڈیا کو صحیح رخ پر استعمال کرنا سیکھ جائیں، تو یہ وہی طاقت بن سکتی ہے جو آج ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوابوں سے بیدار ہو کر عملی اقدامات کی طرف بڑھیں، کیونکہ دین، ایمان اور عقیدت کا تحفظ صرف جذبات سے نہیں بلکہ حکمت، حکمت عملی اور اجتماعی شعور سے ممکن ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گستاخانہ مواد نہیں بلکہ ہیں بلکہ ہوگا کہ سکتا ہے دنیا کے
پڑھیں:
ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔
ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔
عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔
تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔
اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔
آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟
پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟
اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔
آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔
خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔
ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔
دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔
اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔
آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔