Daily Ausaf:
2025-05-30@18:42:29 GMT

ناموس رسالت کا تحفظ ، صرف نعرے نہیں عمل چاہیئے

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کے درمیان ایک ایسا مسئلہ مسلسل سر اٹھا رہا ہے جس نے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کو بے چین کر رکھا ہے اور وہ ہے توہینِ رسالت اور دیگر گستاخانہ مواد کا پھیلاؤ۔ مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے اور جب اس بنیاد کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ پوری امت مسلمہ کے دل میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہوتا ہے۔ توہین آمیز خاکے، کتب، ویڈیوز، فلمیں اور آن لائن پوسٹس کسی ایک فرد یا گروہ کی ذہنی خباثت نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے ردِ عمل کو بنیاد بنا کر انہیں دنیا کے سامنے شدت پسند کے طور پر پیش کیا جا سکے۔یہ صورتحال اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتی ہے جب بین الاقوامی میڈیا ایسے گستاخانہ مواد کی اشاعت یا رپورٹنگ کو آزادی ٔ اظہار کا نام دے کر جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ آزادی نہیں بلکہ کھلی منافقت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو صرف معاشی منافع یا ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک مقدس امانت جانا جائے جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ اگر میڈیا ادارے اپنے ایڈیٹوریل پالیسیز میں مذہبی حساسیت کو شامل کریں، اگر سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے مواد کو سنسر کرنے کے لیے مؤثر طریقے متعارف کروائیں، اگر صحافیوں کو مذہبی احترام اور بین الاقوامی اخلاقیات کی تربیت دی جائے تو یہ ممکن ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔مسلم دنیا کے میڈیا اداروں کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ صرف مغربی میڈیا کی تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک ہم خود اپنا مؤثر اور مثبت بیانیہ دنیا کے سامنے نہیں رکھیں گے۔ ہمیں اپنی تحریروں، رپورٹنگ، ڈاکیومنٹریز اور آن لائن مہمات کے ذریعے دنیا کو یہ سمجھانا ہوگا کہ نبی کریمﷺ کی شخصیت امن، محبت، رحم، رواداری اور عدل کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ اسلام وہ دین ہے جو صرف مسلمانوں ہی نہیں، پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام لے کر آیا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھائے۔ توہین رسالت کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم قرار دیا جائے، جس طرح نسل پرستی، یہود دشمنی اور خواتین کی توہین پر قوانین موجود ہیں۔ اگر عالمی ضمیر آج بھی بیدار نہ ہوا تو دنیا شدید مذہبی تصادم کی طرف بڑھتی جائے گی۔سوال یہ بھی ہے کہ عام آدمی، ایک مسلمان، کیا کر سکتا ہے؟ پہلا قدم یہ ہے کہ ہم خود دین کو سمجھیں، اس پر عمل کریں اور دوسروں کو حسن اخلاق سے دعوت دیں۔ جذباتی نعرے، توڑ پھوڑاور خود ساختہ فتوے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ایک محتاط، مدلل اور بااخلاق مؤقف اختیار کر کے ہم نہ صرف اپنے دین کا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کے دل جیت سکتے ہیں۔
ہمیں اپنے تعلیمی نصاب، میڈیا اداروں اور معاشرتی ڈھانچے کو اس نہج پر لانا ہوگا جہاں عقیدہ، برداشت اور رواداری ساتھ ساتھ چلیں۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہ نہ سمجھا سکے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت صرف جذباتی ردِ عمل کا نام نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی کا انتخاب ہے تو یہ خلا ہمارے کل کو برباد کر دے گا۔موجودہ دور میں میڈیا نہ صرف معاشرتی رویوں کو تشکیل دیتا ہے بلکہ رائے عامہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں اگر میڈیا اپنا رخ حق و صداقت، عدل و انصاف اور دینی احترام کی طرف موڑ لے تو نہ صرف گستاخانہ مواد کا سلسلہ رک سکتا ہے بلکہ دنیا کے اندر ایک بہتر مکالمے کا آغاز بھی ممکن ہے۔گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے ہمیں بیداری، حکمت عملی، میڈیا ریفارمز، قانونی اقدامات اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم ﷺکی سیرت کے عالمی تعارف کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اس فتنے کا مؤثر مقابلہ کر سکیں گے۔
آئیے! عہد کریں کہ ہم صرف وقتی احتجاج نہیں کریں گے بلکہ ایسے مؤثر اقدامات اٹھائیں گے جن سے آئندہ کوئی بھی ہماری مقدس شخصیات کے خلاف زبان درازی سے پہلے ہزار بار سوچے۔ ہماری خاموشی دشمن کی جرأت کو بڑھاتی ہے۔ اب وقت ہے کہ امتِ مسلمہ متحد ہو کر، پرامن لیکن پرعزم انداز میں اس گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرے۔یہ وقت ہے کہ ہم میڈیا کو محض تفریح یا تجارت کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک تربیتی پلیٹ فارم میں تبدیل کریں۔اس پوری صورتحال میں علماء کرام، اساتذہ، والدین اور تمام باشعور طبقوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی اولاد کو بتانا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺکی ذات سے محبت کیا ہے اور اس محبت کا تقاضا کیا ہے۔ صرف نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے لئے دین اور ایمان سب کچھ ہے۔ میڈیا پر اسلامی اقدار کی نمائندگی، دینی معلومات کے فروغ اور اخلاقی پیغامات کی ترویج ہی وہ واحد راستہ ہے جو نہ صرف گستاخانہ مواد کا مؤثر جواب دے سکتا ہے بلکہ دنیا کے سامنے اسلام کا اصل چہرہ بھی پیش کر سکتا ہے۔گستاخی کا جواب دلیل، شعور، اتحاد، قانون اور اخلاق کے ہتھیاروں سے دینا ہوگا۔ اگر ہم میڈیا کو صحیح رخ پر استعمال کرنا سیکھ جائیں، تو یہ وہی طاقت بن سکتی ہے جو آج ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوابوں سے بیدار ہو کر عملی اقدامات کی طرف بڑھیں، کیونکہ دین، ایمان اور عقیدت کا تحفظ صرف جذبات سے نہیں بلکہ حکمت، حکمت عملی اور اجتماعی شعور سے ممکن ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گستاخانہ مواد نہیں بلکہ ہیں بلکہ ہوگا کہ سکتا ہے دنیا کے

پڑھیں:

7 مئی، جنوبی ایشیا ء کے لئے سچائی کی گھڑی

7 مئی 2025 ء کی علی الصبح، دنیا نے ایک غیر معمولی مظاہرہ دیکھا،قوم کی مضبوط قوتِ ارادی، عسکری نظم و ضبط، تکنیکی برتری اور خدائی تائید کا،جب پاکستان نے بھارتی جارحیت کو فیصلہ کن انداز میں پسپا کرتے ہوئے ایک ایسے تنازعے میں فتح حاصل کی جو چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت میں ختم ہوا لیکن جنوبی ایشیا کی تزویراتی سوچ کو ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ یہ صرف ایک فوجی جھڑپ نہ تھی بلکہ ایک تاریخی لمحہ تھا، جہاں سچ نے فریب کو، تیاری نے غرور کو، اور عزم نے لاپرواہی کو شکست دی۔ یہ مختصر جنگ پاکستان کی برتری کی علامت بن گئی، نہ صرف روایتی دفاع میں بلکہ سائبر میدان میں بھی۔
یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب بھارتی افواج نے اپنی سیاسی قیادت کے اکسانے اور عددی طاقت کے زعم میں، لائن آف کنٹرول کے پار، خاص طور پر آزاد جموں و کشمیر کے شہری علاقوں کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کیے۔ مگر بھارت یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ وہ اب ایک ایسے پاکستان سے نبرد آزما ہے جسے بے خوفی سے آزمانا ممکن نہیں رہا۔ حملے کے چند لمحوں بعد ہی پاک افواج نے اپنے دفاعی نظام کو فعال کرتے ہوئے فوری، مؤثر اور مکمل ہم آہنگ ردِ عمل کا مظاہرہ کیا۔ فضائی، زمینی اور بحری افواج نے یکجہتی سے کارروائی کی، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ پاکستان کا دفاعی نظریہ محض ردِ عمل پر نہیں بلکہ تیاری، درستگی اور مؤثر روک تھام پر مبنی ہے۔
تاہم جو چیز عالمی مبصرین کے لئے حیرت کا باعث بنی اور بھارتی کمانڈ کے لیے پریشانی کا سبب، وہ پاکستان کی بے مثال سائبر برتری تھی۔ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور سائبر کمانڈ نے گزشتہ مہینوں میں ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی تھیں کہ وہ بھارت کے حساس ترین نظاموں میں داخل ہو سکیں۔ جیسے ہی بھارتی طیارے فضا میں بلند ہوئے، ان کے مواصلاتی نظام فیل ہو گئے۔ ریڈار سسٹمز اندھے ہو گئے۔ بھارتی بحریہ کے جہازوں نے نیوی گیشن کھو دی، اور ان کے میزائل سسٹم یا تو ناکارہ ہو گئے یا غلط سمت میں فائر ہوئے۔ دہلی، ممبئی اور فوجی مراکز جیسے پٹھان کوٹ اور امبالہ میں بجلی کے بڑے گرڈز سائبر حملوں کی زد میں آ کر بیٹھ گئے۔ حتیٰ کہ بھارت کے میڈیا سسٹمز ہیک ہو گئے، جن پر پاکستان کے جانب سے امن کے پیغامات نشر ہونے لگے۔ اس کے اس عزم کا اظہار کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن دفاع کے لیے مکمل تیار ہے۔
بھارتی جنگی مشین کی اس جراحی انداز میں ناکامی، بغیر کسی زمینی تجاوز کے، جدید ہائبرڈ جنگ کے ارتقاء میں ایک تاریخی سنگِ میل بن گئی۔ 8 مئی کو بھارتی پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس میں اس نقصان کا اعتراف کیا گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کو، عالمی دباؤ اور ملکی تنقید کے پیش نظر، تسلیم کرنا پڑا کہ ان کا حملہ پاکستان کی طاقت کو کم سمجھنے کا نتیجہ تھا۔ بین الاقوامی میڈیا۔ واشنگٹن پوسٹ سے الجزیرہ تک، بی بی سی سے ٹوکیو کے این ایچ کے تک،نے پاکستان کی کارکردگی کو نہ صرف فوجی کامیابی قرار دیا بلکہ قومی اتحاد اور ٹیکنالوجی میں پختگی کی علامت کہا۔ عالمی تھنک ٹینکس نے فوری تجزیے شائع کیے کہ پاکستان ایک ’’علاقائی سائبر سپر پاور‘‘ کے طور پر ابھرا ہے اور اس کی جنگی حکمت عملی کو فوجی اداروں میں بطور نصاب پڑھایا جا سکتا ہے۔یہ صرف طاقت یا ذہانت نہیں تھی جس نے پاکستان کو فتح دلائی، بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی قوت بھی کارفرما تھی، جو اس قوم اور قیادت کے عقیدے میں پیوست ہے۔ پوری قوم دعا گو رہی، بغیر خوف کے، اس وعدے پر ایمان رکھتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا’’ اور کتنی ہی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آ گئیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورہ البقرہ، 2:249)یہی آیت ہر پاکستانی سپاہی اور شہری کے دل کی دھڑکن بن گئی۔ یاد دہانی کہ فتح محض تعداد یا طاقت سے نہیں، بلکہ ایمان، اتحاد اور عدل سے حاصل ہوتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو، لیکن جب آمنا سامنا ہو جائے تو ثابت قدم رہو۔‘‘ (صحیح بخاری) پاکستان نے جنگ کی خواہش نہیں کی، نہ ہی پہل کی۔ اس کا نظریہ ہمیشہ ایک رہا،عزت کے ساتھ امن، اور قوت کے ساتھ دفاع۔ لیکن جب دشمن نے جارحیت کی، تو اس کا جواب جذبات سے نہیں بلکہ حکمت اور حکمت عملی سے دیا گیا۔چین، روس، ترکی، سعودی عرب، ایران حتیٰ کہ مغربی ممالک نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان نے نہ صرف صلاحیت کے ساتھ بلکہ احتیاط کے ساتھ کام لیا، شہری نقصان سے بچا، اور علاقائی استحکام کو ترجیح دی۔ کئی تجزیہ نگاروں نے پاکستان کی اس جنگی حکمت عملی کو جدید عسکری اتحادوں کے انداز سے تشبیہ دی، لیکن اس میں وہ اخلاقی وضاحت شامل تھی جو صرف ایک حق پر مبنی موقف سے جنم لیتی ہے۔
سب سے بڑھ کر، پاکستانی قوم کا اتحاد قابلِ فخر تھا۔ گلگت کی پہاڑیوں سے گوادر کے ساحلوں تک، ہر مسجد، گرجا، مندر اور گھر میں لوگ اکٹھے دعا گو تھے۔ سول اور عسکری ادارے ہم آہنگ تھے۔ میڈیا نے ذمہ داری سے کام لیا۔ پارلیمنٹ متحد رہی۔ سیاسی اختلافات ایک طرف رکھ دیے گئے۔ یہی اصل فتح تھی۔ ایسی فتح جو کسی میزائل یا مالویئر سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔بھارت کی شکست صرف تباہ شدہ نظام یا ناکام مشنز تک محدود نہ تھی؛ یہ اس کی تزویراتی ساکھ پر کاری ضرب تھی۔ اربوں ڈالر کی وہ دفاعی ٹیکنالوجی جو ناکام ثابت ہوئی، عالمی اسلحہ فروشوں کو سوچنے پر مجبور کر گئی۔ اسلحہ ساز کمپنیاں اور سرمایہ کار ایک ایسے ملک کی کمزوری دیکھ چکے تھے جو اپنے کمانڈ سسٹمز کا تحفظ نہ کر سکا۔ دوسری جانب، پاکستان کے دفاعی برآمدات، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سیکٹر اور عالمی ساکھ میں اضافہ ہوا۔
بے شک، 7 مئی 2025 صرف ایک عسکری فتح کی تاریخ نہیں بلکہ وہ دن ہے جب پاکستان کی روح، سائنس اور اخلاص اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے یکجا ہوئے۔ وہ لمحہ جب شہیدوں کے لہو، قوم کی دعاؤں اور بانیانِ پاکستان کے وژن نے مل کر ایک ابدی سچ کو روشن کیا۔’’ یقینا اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہوگی۔‘‘ (سورہ المجادلہ، 58:22)

متعلقہ مضامین

  • ٹیکنالوجی کا فتنہ اور روحانی نجات کا سفر
  • یومِ تکبیر  –  دفاعِ کی ناقابلِ تسخیر ضمانت
  • 7 مئی، جنوبی ایشیا ء کے لئے سچائی کی گھڑی
  • لقمے ، لقمان اوردسترخوان
  • یو این سمندروں پر تیسری عالمی کانفرنس میں ٹھوس اقدامات کے لیے پرعزم
  • یومِ تکبیر صرف فخر کا دن نہیں بلکہ قوم کے غیر متزلزل عزم کی علامت ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • یومِ تکبیر صرف فخر کا دن نہیں بلکہ قوم کے غیر متزلزل عزم کی علامت ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • امیر مقام کا میرپور میں یومِ تکبیر پر جلسے کا اعلان، ہزاروں افراد کی شرکت متوقع
  • خلائی مخلوق کی اڑن طشتری کا ٹکڑا؟ پراسرار دھاتی گولے نے سائنسدانوں کو چکرا دیا