Daily Ausaf:
2025-09-18@13:57:03 GMT

ناموس رسالت کا تحفظ ، صرف نعرے نہیں عمل چاہیئے

اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT

دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کے درمیان ایک ایسا مسئلہ مسلسل سر اٹھا رہا ہے جس نے نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کو بے چین کر رکھا ہے اور وہ ہے توہینِ رسالت اور دیگر گستاخانہ مواد کا پھیلاؤ۔ مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے اور جب اس بنیاد کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ پوری امت مسلمہ کے دل میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہوتا ہے۔ توہین آمیز خاکے، کتب، ویڈیوز، فلمیں اور آن لائن پوسٹس کسی ایک فرد یا گروہ کی ذہنی خباثت نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں جس کے تحت مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے ردِ عمل کو بنیاد بنا کر انہیں دنیا کے سامنے شدت پسند کے طور پر پیش کیا جا سکے۔یہ صورتحال اس وقت مزید گھمبیر ہو جاتی ہے جب بین الاقوامی میڈیا ایسے گستاخانہ مواد کی اشاعت یا رپورٹنگ کو آزادی ٔ اظہار کا نام دے کر جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ آزادی نہیں بلکہ کھلی منافقت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا کو صرف معاشی منافع یا ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک مقدس امانت جانا جائے جو انسانیت کی رہنمائی کے لیے استعمال ہونی چاہیے۔ اگر میڈیا ادارے اپنے ایڈیٹوریل پالیسیز میں مذہبی حساسیت کو شامل کریں، اگر سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے مواد کو سنسر کرنے کے لیے مؤثر طریقے متعارف کروائیں، اگر صحافیوں کو مذہبی احترام اور بین الاقوامی اخلاقیات کی تربیت دی جائے تو یہ ممکن ہے کہ ایسے افسوسناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔مسلم دنیا کے میڈیا اداروں کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ صرف مغربی میڈیا کی تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک ہم خود اپنا مؤثر اور مثبت بیانیہ دنیا کے سامنے نہیں رکھیں گے۔ ہمیں اپنی تحریروں، رپورٹنگ، ڈاکیومنٹریز اور آن لائن مہمات کے ذریعے دنیا کو یہ سمجھانا ہوگا کہ نبی کریمﷺ کی شخصیت امن، محبت، رحم، رواداری اور عدل کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ ہمیں بتانا ہوگا کہ اسلام وہ دین ہے جو صرف مسلمانوں ہی نہیں، پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام لے کر آیا ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھائے۔ توہین رسالت کو بین الاقوامی قانون کے تحت جرم قرار دیا جائے، جس طرح نسل پرستی، یہود دشمنی اور خواتین کی توہین پر قوانین موجود ہیں۔ اگر عالمی ضمیر آج بھی بیدار نہ ہوا تو دنیا شدید مذہبی تصادم کی طرف بڑھتی جائے گی۔سوال یہ بھی ہے کہ عام آدمی، ایک مسلمان، کیا کر سکتا ہے؟ پہلا قدم یہ ہے کہ ہم خود دین کو سمجھیں، اس پر عمل کریں اور دوسروں کو حسن اخلاق سے دعوت دیں۔ جذباتی نعرے، توڑ پھوڑاور خود ساختہ فتوے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے کردار کا حصہ بنانا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر ایک محتاط، مدلل اور بااخلاق مؤقف اختیار کر کے ہم نہ صرف اپنے دین کا دفاع کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کے دل جیت سکتے ہیں۔
ہمیں اپنے تعلیمی نصاب، میڈیا اداروں اور معاشرتی ڈھانچے کو اس نہج پر لانا ہوگا جہاں عقیدہ، برداشت اور رواداری ساتھ ساتھ چلیں۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کو یہ نہ سمجھا سکے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت صرف جذباتی ردِ عمل کا نام نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی کا انتخاب ہے تو یہ خلا ہمارے کل کو برباد کر دے گا۔موجودہ دور میں میڈیا نہ صرف معاشرتی رویوں کو تشکیل دیتا ہے بلکہ رائے عامہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ایسے میں اگر میڈیا اپنا رخ حق و صداقت، عدل و انصاف اور دینی احترام کی طرف موڑ لے تو نہ صرف گستاخانہ مواد کا سلسلہ رک سکتا ہے بلکہ دنیا کے اندر ایک بہتر مکالمے کا آغاز بھی ممکن ہے۔گستاخانہ مواد کو روکنے کے لیے ہمیں بیداری، حکمت عملی، میڈیا ریفارمز، قانونی اقدامات اور سب سے بڑھ کر نبی اکرم ﷺکی سیرت کے عالمی تعارف کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم اس فتنے کا مؤثر مقابلہ کر سکیں گے۔
آئیے! عہد کریں کہ ہم صرف وقتی احتجاج نہیں کریں گے بلکہ ایسے مؤثر اقدامات اٹھائیں گے جن سے آئندہ کوئی بھی ہماری مقدس شخصیات کے خلاف زبان درازی سے پہلے ہزار بار سوچے۔ ہماری خاموشی دشمن کی جرأت کو بڑھاتی ہے۔ اب وقت ہے کہ امتِ مسلمہ متحد ہو کر، پرامن لیکن پرعزم انداز میں اس گستاخی کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرے۔یہ وقت ہے کہ ہم میڈیا کو محض تفریح یا تجارت کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک تربیتی پلیٹ فارم میں تبدیل کریں۔اس پوری صورتحال میں علماء کرام، اساتذہ، والدین اور تمام باشعور طبقوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی اولاد کو بتانا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺکی ذات سے محبت کیا ہے اور اس محبت کا تقاضا کیا ہے۔ صرف نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہمارے لئے دین اور ایمان سب کچھ ہے۔ میڈیا پر اسلامی اقدار کی نمائندگی، دینی معلومات کے فروغ اور اخلاقی پیغامات کی ترویج ہی وہ واحد راستہ ہے جو نہ صرف گستاخانہ مواد کا مؤثر جواب دے سکتا ہے بلکہ دنیا کے سامنے اسلام کا اصل چہرہ بھی پیش کر سکتا ہے۔گستاخی کا جواب دلیل، شعور، اتحاد، قانون اور اخلاق کے ہتھیاروں سے دینا ہوگا۔ اگر ہم میڈیا کو صحیح رخ پر استعمال کرنا سیکھ جائیں، تو یہ وہی طاقت بن سکتی ہے جو آج ہمارے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوابوں سے بیدار ہو کر عملی اقدامات کی طرف بڑھیں، کیونکہ دین، ایمان اور عقیدت کا تحفظ صرف جذبات سے نہیں بلکہ حکمت، حکمت عملی اور اجتماعی شعور سے ممکن ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گستاخانہ مواد نہیں بلکہ ہیں بلکہ ہوگا کہ سکتا ہے دنیا کے

پڑھیں:

بدین: سیاف کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کے خلاف احتجاجی کیمپ میں شرکاء نعرے لگا رہے ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-11-21

متعلقہ مضامین

  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • بدین: سیاف کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کے خلاف احتجاجی کیمپ میں شرکاء نعرے لگا رہے ہیں
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  • جھانوی کپور کو کیسا شوہر چاہیئے؟ شیکھر پہاڑیا سے تعلقات کی چہ مگوئیاں جاری
  • انقلاب – مشن نور
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے