Express News:
2025-09-18@09:46:05 GMT

بھارت کا سپر پاور بننے کا خواب چکنا چور

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے اور 24 کروڑ پاکستانیوں کے اس بنیادی حق پر آنچ نہیں آنے دیں گے، پاکستان، ہندوستان کی اجارہ داری کبھی قبول نہیں کرے گا، کشمیرکا کوئی بھی سودا ممکن نہیں، ہم کبھی بھی کشمیر کو بھول نہیں سکتے، ہندوستان جان لے کہ پاکستان کشمیرکوکبھی نہیں چھوڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے مختلف جامعات کے وائس چانسلرز، پرنسپلز اور سینئر اساتذہ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

 بلاشبہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پوری قوم کا فخر ہیں جن کی بہترین جنگی حکمت عملی کی بدولت پاکستان سرخرو ہوا۔ ان کی قیادت میں تینوں افواج نے بھارت کے تمام عزائم خاک میں ملادیے۔ ان کی اساتذہ اور طلبہ سے مدلل گفتگوکے جو نکات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق مسئلہ کشمیر، پانی کی تقسیم اور دہشت گردی سے دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے امن اور استحکام کو ایک مستقل خطرہ لاحق ہے۔

بھارت نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ایک مشکوک واقعے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی، جس سے خطے کا امن خطرے میں پڑگیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے تحمل اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہ کرکرارا جواب دیا۔

بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی اور پاکستان نے یہ جنگ جیت لی۔ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھیں تو پاکستان جنگ جیت گیا ہے، لیکن دوسری جانب تنازعات کے پرامن حل میں شامل ہونے سے ہندوستان کا انکار یکطرفہ اور بین الاقوامی اصولوں کو نظر اندازکرنے کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی امن اور سفارت کاری پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا اور سنگین تنازع مسئلہ کشمیر ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر کے الحاق کے معاملے پر پیدا ہونے والا یہ تنازع آج تک حل طلب ہے۔

اس تنازعے کے باعث دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگیں اور بے شمار جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ 7 سے 10مئی تک جاری رہنے والے حالیہ تصادم کی وجہ بھی مسئلہ کشمیر ہی ہے،کیونکہ مقبوضہ کشمیرکے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں پر ہونے والے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کر دیا، مگر پاکستان کی جانب سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے کے باوجود بھارت اس طرف نہیں آیا اور مسلسل مبارزت طلب رہا۔اس طرح بھارتی جنگی جنون جنوبی ایشیا کی دو جوہری قوتوں کو ایک بڑی جنگی کے کنارے پر لے آیا تھا۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیرکا حل نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

یہ تنازع نہ صرف خطے کی سلامتی کو متاثرکرتا ہے بلکہ دو ایٹمی قوتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ پاکستان کا تاریخی موقف ہے کہ کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینا ہی اس مسئلے کا واحد قانونی اور اخلاقی حل ہے۔1947میں آزادی کے بعد برصغیرکی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ عوام کی منشا سے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا انتخاب کر سکتی ہیں، مگر جموں وکشمیر، جس کی اکثریت مسلمان آبادی تھی، کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی منشا کے خلاف بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔

اس فیصلے کے خلاف کشمیری عوام نے بغاوت کی جس کے نتیجے میں پہلی پاک بھارت جنگ (1947-48) چھڑگئی۔ تنازعے کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا جہاں قرارداد 47 (1948) اور بعد میں قرارداد 91 (1951) کے ذریعے استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک خصوصی کمیشن (UNCIP) تشکیل دیا گیا، لیکن بھارت کی جانب سے فوجی انخلا نہ کرنے کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

مسئلہ کشمیرکا حل نہ صرف خطے کے امن بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اورکشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق پرامن حل کی حمایت کرتا رہے گا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں ملتا جنوبی ایشیا میں حقیقی امن کا حصول ممکن نہیں۔ قائداعظم نے یونہی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار نہیں دیا تھا۔کشمیر سے نکلنے والے دریا پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے آبِ حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار نے پانی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش پہلے بھی کی اور اب کرنے جا رہا ہے۔

2019میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’’ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘مودی کی جانب سے یہ الفاظ پانی کو جنگ کے ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے کی دھمکی تھی۔ حال ہی میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرکے اور بعد ازاں دریائے چناب اور جہلم کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈال کر عملی طور پر بھی یہ ثابت کردیا ہے۔

ان واقعات سے پاکستان کے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ بھارت پانی کے بہاؤکو روک کر پاکستان کے لیے معاشی اور زرعی بحران پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے کیونکہ پاکستان کی زرعی معیشت دریاؤں کے پانی پر انحصارکرتی ہے اور سندھ طاس معاہدہ کے خلاف مغربی دریاؤں پر بھارتی کنٹرول سے متعدد خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کسی طرح ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث رہا ہے جسے موجودہ تناظر میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے مستند شواہد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بارہا بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ پاکستان بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے۔

بھارت گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران بلوچستان میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی خفیہ مہم چلا رہا ہے۔ پاکستان بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کے سالہا سال سے ناقابل تردید ثبوت پیش کررہا ہے۔ 2009 میں مصرکے شہر شرم الشیخ میں دوطرفہ بات چیت کے دوران باضابطہ طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا گیا۔ شرم الشیخ میں پاکستان نے اپنی سرزمین پر بھارتی انٹیلی جنس کارروائیوں پر پہلی مرتبہ خدشات اظہارکیا۔

وکی لیکس 2010میں اس بات کا انکشاف سامنے آیا کہ ’’امریکی سفارتی کیبلز کے مطابق بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں بھارتی خفیہ سرگرمیوں بشمول بلوچستان میں بدامنی سے منسلک کارروائیوں سے آگاہ تھے۔‘‘ 2015 میں پاکستان نے اپنی شکایات کو عالمی سطح پر لے جا کر اقوام متحدہ کو ایک تفصیلی ڈوزیئر پیش کیا، جس میں بلوچستان میں دہشت گردی کی سرپرستی میں بھارت کے کردار کا خاکہ پیش کیا گیا۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے ناقابل تردید شواہد اور بھارتی حکومت کا انھیں تسلیم نہ کرنا خطے کو جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بار بار بھارتی دہشت گردی کے شواہد دیے جا رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے۔

بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار پاکستان تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہیں۔ بھارت پاکستان میں اپنے پراکسیز کے ذریعہ دہشت گردی کرتا ہے، جب پاکستان نے دہشت گردوں کے لیے زمین تنگ کرنا شروع کی تو بھارت اپنی فوج کے ذریعے براہ راست دہشت گردی پر اتر آیا۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے اپنے پراکسی دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کس طرح ملوث ہے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسی اور طاقت کے ذریعے غلبے کی کوششیں جنوبی ایشیا کو ایک خطرناک نیوکلیئر تصادم کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کے مزید سخت ہونے کا وقت ہے۔ آخرکار ہمارے ہمسائے نے بھی اس مفروضے پر یقین کیا کہ پاکستان کے اندرونی مسائل اور تقسیم اسے ’’ مناسب جواب‘‘ دینے سے روکیں گے جوکہ غلط ثابت ہوا۔ تاہم یہ سمجھنا اب بھی ضروری ہے کہ مزید جھڑپوں کے امکان کے پیش نظر، اندرونی مسائل حل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

اس بات سے قطع نظرکہ 2019 اور 2025میں ہونے والی پاک بھارت جھڑپوں کا اختتام کیسے ہوا، پڑوسی حکومت کی مالی حیثیت اسے اس طرح کی محدود محاذ آرائی کے لیے مستقبل میں بھی متحرک کرے گی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر ہوگا کہ پاکستان بھی اپنی معیشت کو مضبوط، مستحکم بنائے اور قرضوں پر اپنا انحصارکم کرنے پر توجہ دے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریاستی دہشت گردی بین الاقوامی بلوچستان میں دہشت گردی کے جنوبی ایشیا پاکستان میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان نے پاکستان کی کی جانب سے میں بھارت کے ذریعے کے مطابق بھارت کے کہ بھارت بھارت نے بھارت کی کے خلاف رہا ہے کے لیے کو ایک

پڑھیں:

چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور

10 دن سے دہشتگردی کی کارروائیوں اور اس کے خلاف آپریشن میں تیزی آئی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 100 سے بڑھ چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہورہے ہیں۔ 3 دہشتگردوں کو مارتے ہوئے ایک سیکیورٹی اہلکار اپنی جان دے رہا ہے۔ اس سے آپ کارروائیوں کی نوعیت اور شدت کا اندازہ لگا لیں۔

پاکستان دنیا کی 5ویں بڑی آبادی ہے۔ گلوبل فائر پاور نامی ویب سائٹ کے مطابق فوجی طاقت کے حساب سے ہمارا رینک 12واں بنتا ہے۔ فوجیوں کی تعداد کے حساب سے ہمارا 7واں نمبر ہے۔ ایئر فورس چھٹے نمبر پر آتی ہے۔ ٹینکوں کے حساب سے 7ویں، ہیلی کاپٹر اور آرٹلری کے حساب سے ہم 10ویں نمبر پر ہیں۔

ہماری معیشت کا سائز 2.08 کھرب ہے اور ہم 40ویں بڑی معیشت ہیں۔ قوت خرید کے حساب سے ہم 26ویں نمبر پر آتے ہیں۔ قوت خرید میں سنگاپور، سویٹزرلینڈ ، اسرائیل اور ڈنمارک جیسے ملک پاکستان سے پیچھے ہیں۔ کریٹکل منرل کے ذخائر میں پاکستان کی رینکنگ ابھی طے نہیں کی جاسکی ہے۔ کریٹکل منرل کی مارکیٹ اور سپلائی پر چین کی اجارہ داری ہے۔

امریکا کریٹکل منرل انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اے آئی کو اپنے سیکیورٹی ڈومین میں لاتا جارہا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان کا پوٹینشل اسے امریکا کا قریبی اتحادی بنا رہا ہے۔ حالیہ پاک بھارت 4 روزہ جنگ میں پاکستان نے دنیا کا وہم دور کردیا ہے کہ یہ کوئی فیل ہوتی ریاست ہے۔ یہ اب ثابت ہوچکا کہ پاکستان کو فوجی حساب سے کوئی شکست دینا ممکن نہیں۔

اس نو دریافت اعتماد نے پاکستان کی عالمی لینڈ اسکیپ پر سفارتی، سیاسی اور علاقائی پوزیشن بالکل تبدیل کردی ہے۔ اب معیشت بہتر کرنا واحد فوکس رہ جاتا ہے۔ معاشی بہتری کے لیے امن و امان کی صورتحال، سیاسی عدم استحکام، دہشتگردی اور افغانستان کے ساتھ مسائل بڑی رکاوٹ ہیں۔ اب دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس تناسب پر غور کریں جس کے مطابق ہر 3 دہشتگردوں کے مقابل ایک سیکیورٹی اہلکار اپنی جان دے رہا ہے۔ پھر یہ دھیان میں لائیں کہ یہ نقصان جس فوج کو اٹھانا پڑ رہا اس کی طاقت اور رینکنگ کیا ہے۔

یہیں رک کر کپتان کے جیل سے دیے گئے حالیہ بیان پر غور کریں، جس میں اس نے اپنی پارٹی سے کہا ہے کہ ملک میں 71 جیسی صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ پارٹی کے منتخب ممبران دہشتگردی کے خلاف آپریشن کی مخالفت کریں۔ پاکستان اور افغانستان کے اندر ڈرون حملوں کی مخالفت کریں اور اس آپریشن کو رکوائیں۔ پھر ان معززین کی بات پر ایمان لے آئیں جو بتاتے رہتے ہیں کہ کپتان جیل میں بیٹھا بڑی گیم لگا رہا ہے۔ یہ بڑی گیم بھائی اپنے ہی خلاف لگا کر بیٹھا ہے۔

آپ دہشتگردی کو مانیٹر کرنے والی کسی بھی سائٹ کو کھولیں۔ اس پر صرف یہ سرچ کریں کہ پاک بھارت جنگ بندی سے پہلے اور بعد میں دہشتگردی کی کارروائیوں اور نوعیت میں کیا فرق آیا ہے؟ دہشتگردی کی کارروائیوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہشتگردوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال 10 گنا بڑھا دیا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے ڈرون اور کواڈ کاپٹر کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال کو اب حوالدار بشیر کی آنکھ سے دیکھیں، دوسری آنکھ سے کپتان کا بیان پڑھیں اور توبہ استغفار کرتے ہوئے اس پارٹی کی خیر مانگیں۔

بیجنگ میں 17 سے 19 جنوری تک شیانگ شانگ سیکیورٹی فورم کا اجلاس ہورہا ہے۔ اس میں روس، امریکا اور ایران سمیت 10 ملکوں کے وفود شریک ہورہے ہیں۔ اس بار اجلاس کی تھیم ہے کہ عالمی آرڈر برقرار رکھتے ہوئے ترقی کا فروغ۔ سیکیورٹی فورم کا ایجنڈا بھی امن اور ترقی ہو جس کے لیے بظاہر متحارب ملک بھی سر جوڑ کر بیٹھیں۔ تو ایسے میں دہشتگردی، عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کے مستقبل کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

افغانستان کی موجودہ حکومت کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ یو این سے لے کر ہر اہم فورم پر افغانستان میں موجود مسلح گروہوں کی بات ہوتی ہے۔ ان گروپوں سے خطے کے سارے ملک خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ یہ خطرہ حقیقی ہے۔ اس کے خلاف مکمل اتفاق رائے بنتا جارہا ہے۔ افغان طالبان کو لگتا ہے کہ پاکستان ہر عالمی فورم پر ان کی مخالفت کررہا ہے جبکہ افغانستان میں موجود مسلح گروپوں کے خلاف اتفاق رائے پیدا ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان لاکھوں افغانوں کا دوسرا گھر بنا رہا ہے۔ پاکستان میں وہ پاکستانیوں کی طرح کاروبار، روزگار اور جائیدادیں بناتے ترقی کرگئے اور تعلیم حاصل کی۔ اب اسی افغانستان سے پاکستان کے اندر مسلسل کارروائیاں ہو رہی ہیں جن میں افغان باشندے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو جانی نقصان ہورہا ہے وہ کم از کم ریاست پاکستان نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اب صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان مسلح تنظیموں کو ہر جگہ نشانہ بنائے گا۔

چھوٹی عینک لگا کر مقامی، سیاسی اور معاشی صورتحال دیکھیں یا بڑی عینک لگا کر خطے اور عالمی سیاست، معیشت اور سفارت کو دیکھ لیں۔ پاکستان اپنی نو دریافت طاقت کے مطابق ہی پوزیشن لیتا اور معاملات کو حل کرتا ہی دکھائی دے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے دہشت گردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے، عاصم افتخار
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت مقوضہ کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ، دو قومی نظریئے کی اہمیت مزید بڑھ گئی: عطا تارڑ
  • پی ٹی آئی نے ہمیشہ دہشت گردوں کے موقف کی تائید کی، وزیرمملکت قانون
  • بھارت ایک غاصب اور جارح ملک ہے جو مظلوم بننے کی کوشش کر رہا ہے: عطا تارڑ
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان