پاکستان اپنے حصے کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا( وزیراعظم )
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ قابل مذمت ہے،شہباز شریف
بھارت کو سرخ لکیر نہیں عبور کرنے دیں گے،گلیشیئرز کے تحفظ پر عالمی کانفرنس سے خطاب
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اپنے حصے کے پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا، بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ قابل مذمت ہے۔تاجکستان میں گلیشیئرز کے تحفظ پر عالمی کانفرنس سے خطاب میں شہبازشریف نے کہا کہ کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو تنگ نظر سیاسی مقاصد کے لیے یرغمال نہیں بنایا جاسکتا، پاکستان ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا، بھارت کو سرخ لکیر نہیں عبور کرنے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں جہاں غزہ میں روایتی ہتھیاروں کے استعمال نے گہرے زخم چھوڑے ہیں وہیں ہمیں پانی کے بطور ہتھیار استعمال کی صورت میں نئی تشویشناک پستی کا سامنا ہے، بھارت کی جانب سے یکطرفہ اور غیرقانونی طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی انتہائی افسوسناک ہے۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے انتہائی متاثر ملک ہے، پاکستان ان دس ملکوں میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں جبکہ پاکستان کا فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج نصف فیصد سے بھی کم ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے باعث 2022 میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا جس سے فصلیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا،، دنیا کو ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج کا سامنا ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے معاملے پر زیادہ دینے کی ضرورت ہے۔شہباز شریف نے گلیشیئرز کے تحفظ اور چیلنجز پر جامع گفتگو پر تاجک صدر کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے پاکستان کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، پاکستان میں 13 ہزار گلیشیئرز ہیں، پاکستان اپنے پانی کا نصف گلیشیئرز سے حاصل کرتا ہے، گلیشیئرز کا تحفظ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔وزیراعظم نے عالمی رہنماؤں سے کہا کہ ہمارے دریاؤں میں پانی گلیشیئرزسے آتا ہے، آئیں مل کر ان گلیشیئرز کا تحفظ کریں، ہمارے دریاؤں کا تحفظ کریں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بڑے ملک دیگرممالک میں ارلی وارننگ سسٹم میں سرمایہ کاری بڑھائیں، ترقی یافتہ ملک ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ایکو سسٹم بھی متاثرہورہا ہے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی کے کہ پاکستان نے کہا
پڑھیں:
پانی، دہشت گردی اور پاکستان
وزیراعظم شہباز شریف نے جمعہ کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں گلیشیئرز کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس (آئی جی سی پی 2025) سے خطاب کیا، اپنے خطاب میں انھوں نے گلیشیئرز کے تحفظ کو پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو اپنے تنگ نظر سیاسی مفادات کے لیے یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا فیصلہ قابل مذمت ہے۔
پانی کوہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے، پاکستان اپنے حصے کے پانی پر کوئی سمجھوتہ کرے گا نہ ہی بھارت کو ریڈ لائن کراس کرنے دے گا۔ وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ جس طرح غزہ میں مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال انسانیت پر کاری ضرب ہے، اسی طرح پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی نئی روش عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
دوشنبے میں گلیشیئرز کے تحفظ کے حوالے سے جو عالمی کانفرنس ہوئی ہے، وہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے خصوصاً پاکستان کے لیے گلیشیئرز کی اہمیت شاید دیگر تمام مالک سے زیادہ ہے کیونکہ پاکستان میں پانی کا دارومدار گلیشیئرز پر ہے اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیو ں کے اثرات کے نتیجے میں پاکستان کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
وزیراعظم نے بھی اس حوالے سے اپنے خطاب میں بڑی صراحت کے ساتھ حقائق بتائے ہیں۔ انھوں نے اس کانفرنس میں خطاب کے دوران واضح کیا کہ ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ بے موسمی بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے نتیجے میں دریاؤں اور ندی نالوں میں سیلاب آ رہے ہیں۔ پاکستان بھی گزشتہ کئی سالوں سے سیلاب اور بارشوں سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ عالمی برادری نے اس حوالے سے جو وعدے کیے ہیں وہ یقینا پورے ہونے چاہئیں۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ پاکستان پولورینجز کے بعد دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئرز والا علاقہ ہے، پاکستان میں 13ہزار گلیشیئرز ہیں،گلیشیئرز کا تحفظ ہمارے لیے بہت اہم ہے، پاکستان کے پانی کا نصف حصہ گلیشیئرز سے حاصل ہوتا ہے،انڈس ریور سسٹم ہماری لائف لائن ہے اورہماری تہذیب، ثقافت اور معیشت کا اس پر دارومدار ہے ، پاکستان کے 5 بڑے دریاؤں کا پانی گلیشیئرزکا مرہون منت ہے۔
بھارت نے پاکستان کو حال ہی میں پانی کے بحران میں مبتلا کرنے کی دھمکی دی ہے اور اس نے سندھ طاس معاہدے کو بھی یکطرفہ معطل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پاکستان میں پانی کی جو صورت حال ہے، اس کی بناء پر پاکستان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پانی پاکستان کی لائف لائن ہے۔
بھارت اگر اس معاملے میں اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے نتیجے میں پاکستان کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں ، 2022میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب اور طوفانی بارشوں کا سامنا کرنا پڑا، ملک بھرمیں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ، ہزاروں گھرملیا میٹ ہوگئے اور انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کا فضا میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ نصف فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان دنیا کے ان 10ملکوں میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ایکو سسٹم بھی متاثر ہو رہا ہے، ترقی یافتہ ملک ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے اپنی ذمے داریاں پور ی کریں، اس سلسلے میں فوری اورعملی اقدامات ناگزیر ہیں، ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیرملکوں میں ارلی وارننگ سسٹم اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں سرمایہ کاری بڑھائیں کیونکہ مستقبل میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑی تباہی کا خطرہ موجود ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف بالکل واضح اور دوٹوک رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے جو بھی عالمی سطح پر کانفرنسیں ہوتی ہیں، پاکستان نے اس میں ہمیشہ اپنا مؤقف واضح اور دوٹوک انداز میں پیش کیا ہے۔ پاک بھارت حالیہ جنگ کے بعد وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان غیرملکی دورے بھی کر رہے ہیں۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کا اپنا دورہ مکمل کرکے گزشتہ روز وطن واپس پہنچ گئے۔ بھارت نے پاکستان کے لیے خاصے سنگین حالات پیدا کر دیے ہیں۔ گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کو غیر قانونی اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ہر قسم کی جارحیت کو ناکام بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کی ہر قسم اور ہر شکل کے خلاف قومی جدوجہد منطقی انجام تک پہنچے گی۔ پاکستان کو کبھی بھی دبایا نہیں جا سکتا، دشمن کے عزائم کو مکمل طور پر شکست دی جائے گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرنے گزشتہ روز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا اور وہاں زیرِ تربیت افسران اور فیکلٹی سے خطاب کیا۔
انھوں نے ابھرتے ہوئے تنازعات کی نوعیت پر روشنی ڈالی اور خاص طور پر بھارت کی پاکستان کے خلاف بلااشتعال جارحیت کی خطرناک روش کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہا پاکستان ہر قسم کی جارحیت کو ناکام بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری کوششوں کو سبوتاژ کرنے والی دشمنانہ سازشوں کو مکمل طور پر شکست دی جائے گی۔ انھوں نے بھارت کی جانب سے آبی جارحیت ( ہائیڈرو ٹیررازم ) کو غیر قانونی اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔
پاک فوج نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کر دیا ہے۔ پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے برسرپیکار ہے۔ پاکستان کے اندر دہشت گرد اور ان کے سہولت کار وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں جب کہ پاک فوج ان کی سرکوبی کے مشن پر گامزن ہے۔
گزشتہ روز فتنۃ الہندوستان کے دہشت گردوں نے بلوچستان کے شہر سوراب میں بینک کو لوٹ لیا اور مختلف سرکاری افسران کے گھر جلادیے، دفاع کرتے ہوئے اے ڈی سی ریونیو شہید ہوگئے۔ واقعات کے مطابق گزشتہ روز شام کے وقت بیس سے تیس دہشت گرد موٹرسائیکلوں پر بازار میں داخل ہوئے، سافٹ ٹارگٹ جیسا کہ بینک اور مارکیٹوں کو نشانہ بنایا، بازار میں عام بلوچ خواتین اور بچوں پر بھی تشدد کیا، بچوں اور عورتوں کو بچانے کے دوران اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے بلیدہ سے تعلق رکھنے والے اور سوراب کے اے ڈی سی آر ہدایت اللہ بلیدی نے جام شہادت نوش کیا جب کہ ایف سی کو آتا دیکھ دہشت گرد فرار ہوگئے۔فتنۃ الہندوستان نے بلوچ علاقوں کو اور بلوچ خواتین و بچوں کو ٹارگٹ کر کے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ ان انڈین سپانسرڈ دہشت گردوں کا بلوچستان اور بلوچ روایات سے کوئی تعلق نہیں۔
دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کر رکھا ہے۔ ان دونوں صوبوں کی افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے۔ پاکستان میں جو دہشت گرد گروہ برسرپیکار ہیں، وہ مختلف ناموں اور بیانیوں کے تحت کام کر رہے ہیں۔
کچھ گروہ مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں جب کہ کچھ گروہ قوم پرستی کے لبادے میں قتل وغارت کر رہے ہیں۔ ان گروہوں کا آپس میں پورا رابطہ ہے اور ان کی ایجنڈا سیٹنگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔ پاکستان کے اندر ان گروہوں کے سہولت کار اور مخبر بھی موجود ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ گروہ پاکستان کے اندر کسی قسم کی واردات نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے سسٹم کے اندر بھی ان گروہوں نے نقب لگا رکھی ہے جب کہ سیاست، اہل علم، ذرایع ابلاغ، بزنس اور پروفیشنلز کے اندر بھی ان کے ہمدرد مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ یوں دہشت گردی ایک پیچیدہ اور تہہ در تہہ اپنی جڑیں بچھائے ہوئے ہے۔ پاکستان کے لیے یہ لڑائی بیرونی حملوں سے بھی زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے۔
پاکستان کو یہ جنگ جیتنے کے لیے گہری منصوبہ بندی، اطلاعاتی نیٹ ورک اور پروفیشنل ریاستی مشینری کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ان کے فنانسرز، ان کے نظریاتی سہولت کاروں کو مارجنلائز کرنے کے لیے ملک کی سیاسی قیادت، دینی طبقے اور اہل علم کو اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے آگے آنا ہو گا۔ پاکستان اگر دہشت گردی اور اس کو تقویت اور زندگی دینے والی قوتوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔