Express News:
2025-11-19@02:31:59 GMT

بھارت کی معاشی رینکنگ کا افسانہ

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

پاک بھارت جنگ کے پانچویں روز اچانک سیزفائر نے بھارتی میڈیا اور سیاسی منظر پر جنگ سے زیادہ نفسیاتی تباہی پھیلائی۔ اپنے تئیں لاہور کی‘‘ پورٹ‘‘، کراچی پورٹ، اسلام آباد میں فوجیں داخل ہونے کی خواہشوں کو خبریں بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منظر بدلنے والے اینکرز اور بی جے پی سرکار چکرا گئی۔ اس بدحواسی اور بھناہٹ میں میڈیا اور تجزیہ کار ’’ٹرمپ افزائی‘‘ میں جت گئے۔

اسی سینہ کوبی کے دوران کسی کایاں سپن ماسٹر Spin Master نے ہانک لگائی، بھائی لوگو، ہمیں پاکستان نے نہیں ہرایا بلکہ حقیقتاً یہ سب چین کے سبب ہوا۔ کتا کان لے گیا اور شہر کتے کے پیچھے دوڑ پڑا کا سا منظر ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، بھارتی میڈیا، ماہرین اور تجزیہ کار اسی بال کی کھال اتار رہے ہیں کہ پاکستان میں اتنا دم کہاں ! اس جنگ کے پردے کے پیچھے تو چین کا اسلحہ، دماغ اور زور لگ رہا تھا۔ یوں شکست کی سبکی کی چبھن کم کرنے کی صورت نکالی گئی۔

شکست کے زخم سہلاتے بھارتی میڈیا اور دانشوروں کو اس خبط عظمت نے بھی پریشان کر رکھا ہے کہ بھارت دنیا کی تقریبا چوتھی بڑی طاقت ہونے کو ہے ، کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑی معاشی طاقت کے سامنے پاکستان یوں خم ٹھوکر کھڑا ہو گیا۔بار بار پاکستان کے آئی ایم ایف کے مقروض ہونے کا طعنہ ہے۔

آئی ایم ایف اور اے ڈی بی کے سمیت ہر عالمی مالیاتی فورم پر پاکستان کے قرضوں/ امداد کو ’’دہشت گردی اور جنگ‘‘ سے جوڑنے کی کوشش ہے۔ دعویٰ ہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں دوبارہ شامل کرائے۔ دوسری طرف سفارتی محاذ پر بھارت کی ناکامی کا رونا اس خوش فہمی پر ختم ہوتا ہے کہ بھارت اب دنیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت ہے۔دنیا کو بھارت کا ساتھ دینا پڑے گا اور وہی راگ الاپنا پڑے گا جو بھارت الاپ رہا ہے۔

کئی عالمی ماہرین اور بھارت کے اپنے مبصرین بھارت کی چوتھی بڑی معیشت کی ممکنہ رینکنگ کے بارے میں تفصیلاً لکھ چکے ہیں۔ خلاصہ جس کا یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق بھارت چوتھی بڑی معاشی قوت ضرور بن رہا ہے لیکن بھارت کا معاشی اور سماجی نظام اس قدر منظم انداز میں ناہموار اور عدم مساوات پر مبنی ہے کہ عوام کی اکثریت کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بننے سے ان کے شب و روز پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔

اسی موضوع پر حال ہی میں بھارت کے معروف میڈیا پلیٹ فارم دی وائر پر ایک معروف مبصر اور تجزیہ کار کا ایک چشم کشا مضمون چھپا ہے جس میں اس موضوع پر شایع ہونے والے بیشتر خیالات کو سمو دیا ہے۔

آئی ایم ایف ک کی 2023-24 کی رپورٹ کے مطابق جاپان 4.

1 ٹریلین ڈالرز کی جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ بھارت 3.9 ٹریلین ڈالرز کے ساتھ پانچویں بڑی معیشت ہے۔ بھارت کی معاشی نمو کے پیش نظر یہ بات طے ہے کہ اگلے سال بھارت اس رینکنگ میں چوتھے نمبر پر آ جائے گا۔بھارت کی 3.9 ٹریلین ڈالرز کی جی ڈی پی کو اگر کل آبادی 1.4 ارب سے تقسیم کیا جائے تو فی کس اآمدنی 2,785 ڈالرز نکلتی ہے۔ تاہم اکنامکس کی زبان میں اکثر اوقات اوسط کے اعداد وشمار گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ان اعداد و شمار کو مختلف زاویوں سے مزید پرکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے۔

مثلاً ایک کمرے میں 10 لوگ موجود ہیں۔نو لوگوں کے پاس 100 روپے فی کس سرمایہ ہے جب کہ ایک شخص کے پاس 9،100 روپے ہیں۔یوں اعداد و شمار کے مطابق کمرے میں موجود لوگوں کے پاس 10 ہزار روپے موجود ہیں ، یعنی فی کس ایک ہزار روپے لیکن عملاً نو افراد کے پاس صرف ایک سو روپیہ فی کس جب کہ ایک شخص کے پاس باقی رقم۔ اسی پیمانے پر ملکی سطح پر بھارت کی قومی دولت کو مختلف زاویے سے پرکھا جائے تو عام آدمی کی حیثیت جوں کی توں ہے اور رہے گی۔

دنیا کے ایک مشہور ادارے Oxfam کی ایک رپورٹ 2023 کے مطابق بھارت کے ٹاپ 1% ملکی دولت کے %40 پر قابض ہیں۔مزید تفصیل میں جائیں تو ٹاپ ÷15 ملک کی ÷ 72 قومی دولت کے مالک ہیں۔ جب کہ نچلے ÷ 50 یعنی 70 کروڑ عوام کے پاس قومی دولت کا فقط تین فیصد ہے۔ دولت کے ارتکاز کا یہ ایک خوفناک تقابل ہے کہ دنیا کی چوتھی بڑی معاشی قوت کے باوجود عوام کی اکثریت کی اوسط جی ڈی پی غریب ممالک کے برابر ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کا ڈھنڈور اپنی جگہ لیکن عوام کی اکثریت کے شب و روز کی حقیقت یہی ہے۔

دولت کے ارتکاز کا یہ عمل کس تیزی سے جاری ہے ؟ اس کا اندازہ ایک اور رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق بھارت میں 2020 میں ارب پتی لوگوں کی تعداد یعنی Billionaires کی تعداد 102 تھی جب کہ 2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 166 ہو گئی۔ یعنی دو سالوں میں ارب پتیوں کی تعداد میں 63 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ دوسری طرف عوام کے شب و روز میں بہتری کے بجائے مزید مسائل ہی حصے میں آئے ہیں۔ایک اور تجزیہ کار کے مطابق ٹاپ 5÷ آبادی کو علیحدہ کر لیں تو بقیہ 95 فیصد بھارتی آبادی کی اوسط فقط 1?130 ڈالر فی کس رہ جاتی ہے!

دنیا اپنے مفادات اور مجموعی اثر و رسوخ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ سو ایک حقیقت یہ ہے کہ بھارت مستقبل کی چوتھی بڑی معیشت کے طور پر سامنے ہے۔ تاہم دوسری طرف یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ سیاست، سماج اور گورننس میں منظم انداز سے عدم مساوات اور معاشی ناہمواری کا مستقل بندوبست ہے۔

بھارت غالبا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ذات پات کا نظام آج بھی قائم دائم ہے۔آبادی کی اکثریت اج بھی نچلی ذات کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ 1980 کی منڈل رپورٹ کے تخمینے کے مطابق نچلی ذات کے لوگوں کی تعداد 52 فیصد تھی۔ تاہم 2011 کے شماریات کے مطابق یہ شرح 41 فیصد بتائی گئی۔ تمام حکومتوں نے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری سے گریز کیا ہے اس لیے صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں۔ تاہم نچلی ذات پر مشتمل عوام کی تعداد 41 فیصد سے 52 فیصد کے درمیان ہے یعنی ملک کی کل آبادی کا نصف۔

ذات پات کے اس منظم نظام کی وجہ سے کم و بیش ملک کی 70 فیصد آبادی معاشی مواقع، ملازمتوں اور معاشی و سماجی امکانات سے محروم ہے یا ان کے راستے مسدود ہیں۔ غربت کا براہ راست اثر ان کی تعلیم، صحت اور بود و باش پر پڑتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بھارت میں سالانہ 1.7 ملین بچے مناسب خوراک میسر نہ ہونے کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ایک طرف غربت کا یہ عالم ہے لیکن دوسری طرف بالائی طبقے کے پاس دولت کے بل بوتے پر بھارت نے دنیا بھر میں اپنی سافٹ پاوربڑھائی ہے۔ شائننگ انڈیا جیسے بیانیے سے دنیا کو یہ باور کروایا گیا کہ بھارت ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ پاکستان بھارت جنگ کے پانچ دنوں نے اس بیانئے کو بھی بھسم کر ڈالا ہے۔ ایسے میں شکست کے اعتراف کے بجائے اب اس بیانئے پر زور ہے کہ پاکستان نہیں، ہمارا اصل مقابلہ چین سے ہوا جس کا بھارت کو اندازہ نہ تھا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق بھارت اور تجزیہ کار بڑی معاشی کی اکثریت کی تعداد بھارت کی کہ بھارت عوام کی دولت کے کے پاس

پڑھیں:

یادوں کا شہر لندن

مانچسٹر کی سرد ہواؤں سے نکل کر لندن کا رخ کیا ، وہی لندن جو سیاحوں کا محبوب ترین شہر ہے۔ لندن سے جدائی کو آٹھ برس بیت چکے تھے۔ ہم بھی لندن کے رومانس میں مبتلا رہے ۔ اس مرتبہ سفر کا ارادہ پختہ تھا اور خوشی اس بات کی کہ ہم سفر بھی نہایت مہربان اور خوش مزاج تھے، عبداللہ حفیظ خان اور ذوالقرنین مہدی۔ ان دونوں کی خوش گپیوں نے مانچسٹر سے لندن کا فاصلہ پل بھر میں سمیٹ دیا۔ جونہی گاڑی ہوٹل کی پارکنگ میں رکی معلوم ہوا کہ لندن ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

صبح سویرے ناشتے کے بعد عبداللہ حفیظ خان کی معیت میں لندن کی زیرِ زمین مشہور زمانہ ٹرین ٹیوب کا رخ کیا اور پکاڈلی سرکس جا پہنچے۔ پکاڈلی سے ٹہلتے ہوئے ٹرافلگر اسکوائر کی جانب بڑھے۔ یہاں کی چہل پہل، عمارتوں کی شان اور لوگوں کا تنوع دیکھ کر احساس ہوا کہ لندن واقعی دنیا کا ایسا چوراہا ہے جہاں ہر رنگ، ہر زبان اور ہر ثقافت کی گونج سنائی دیتی ہے۔

ٹرافلگر کے بعد دریائے ٹیمز کے کنارے پہنچے تو دریا کا مدھم بہاؤ اور اس کے اردگرد ایستادہ پرشکوہ عمارتیں دیکھ کر دل مسحور ہو گیا۔ برطانوی پارلیمان کی عمارت، بگ بین اور وکٹوریہ دور کے دوسرے حیرت انگیز آثارسبھی تاریخ کا ایک زندہ عجائب گھر محسوس ہوتے ہیں۔اسی راستے پر چلتے چلتے ہم بکنگھم پیلس جا پہنچے۔ اس محل کے مقیم وہی ہیں جن کے آباؤ اجداد نے تاجِ برطانیہ کی چھتری کے سائے میں صدیوں تک مشرق و مغرب پر حکمرانی کی۔ ہندوستان، آسٹریلیا، کینیڈا دنیا کے وہ علاقے جہاں کبھی نہ کبھی سورج ضرور چمکتا تھا اور اسی لیے کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ آج بھی اس محل کے مکیں ماضی کی انھی خوشگوار یادوں کے سہارے زندگی گزر رہے ہیں۔

مرکزی لندن میں قدم قدم پر سیاح دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی فون تھامے تاریخی عمارتوں کی تصویریں اتار رہا ہوتا ہے تو کوئی آکسفورڈ اسٹریٹ کے مصروف بازاروں میں کھویا ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے برانڈ کا اسٹور یہاں موجود ہے اور اگر جیب اجازت دے تو خریداری کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ آکسفورڈ اسٹریٹ سے ذرا آگے بڑھیں تو مشہور ہیروڈز اسٹور بھی واقع ہے جو امراء کی دنیا ہے۔ البتہ ہم جیسے مڈل کلاسیئے یہاں ایک اچھی کافی پی کر دل خوش کر لیتے ہیں۔اس کے قریب ہی ہمارا سفارت خانہ ہے جہاں ایک تقریب میں ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل سے ملاقات ہوئی۔

انھیں پی آئی اے کی جانب سے اعزازی شیلڈ پیش کی گئی کیونکہ برطانیہ کے لیے پروازوں کی بحالی میں ان کا کردار لائقِ تحسین ہے۔ وہیں علی اعوان سے بھی ملاقات ہوئی جنھیں لندن میں مقیم ہمارے صحافی دوست ایک نہایت فعال پریس منسٹر کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ان کی خوش اخلاقی اورخوش مزاجی کے متعلق جیسا سن رکھا تھا ویسا ہی پایا۔

لندن ایک عجیب سا شہر ہے۔ یہاں انسان کو اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ چاہے دس برس بعد آئیں یا دس بار آئیں لندن آپ کا استقبال کھلے بازوؤں سے کرتا ہے۔ اس کے در و دیوار آج بھی ویسے ہی دکھتے ہیں جیسے برسوں پہلے تھے۔ نہ بدانتظامی، نہ بے ہنگم تعمیر ، یہ شہر جدید بھی ہے اور پرانے حسن کا امین بھی ہے۔ انھی دنوں لندن میں ورلڈ ٹریول مارکیٹ ایکسپو جاری تھی ، دنیا میں سیاحت سے متعلق سب سے بڑا میلہ یہی ہے۔

دنیا بھر کے ممالک نے اپنے اپنے اسٹال سجائے ہوئے تھے۔ رنگ، روشنی، آڈیو ویژول ڈسپلے، روایتی ملبوسات، دستکاری ہر چیز اس بات کی دلیل تھی کہ دنیا اپنی سیاحت پر کس قدر توجہ دے رہی ہے۔ انھی چھوٹے بڑے اسٹالوں کے درمیان پاکستان کا ایک سادہ سا اسٹال بھی موجود تھا جہاں ہمارے سیاحت کے نمایندے پاکستان کے خوبصورت مقامات وادی ہنزہ، سوات، شنگریلا، قراقرم ہائی وے کی تشہیر کرتے دکھائی دیے۔ مگر سچ یہ ہے کہ عالمی میلوں میں پاکستان کی موجودگی اس شان و شوکت کی حامل نہیں، جو ہونی چاہیے تھی۔ پڑوسی ملک کے بڑے اور جدید اسٹال کو دیکھ کر دل میں کسک پیدا ہوئی کہ اگر ہمارے اداروں کی سرپرستی مضبوط ہو تو پاکستان کی سیاحت دنیا کو خیرہ کر سکتی ہے۔

لندن آ کر صحافتی دوستوں سے ملے بغیر واپسی ممکن ہی نہیں۔ غلام حسین، شوکت ڈار اور آصف سلیم مٹھا۔سبھی نے محبت بھرے انداز میں دعوتیں دیں۔ مٹھا صاحب کا والد محترم سے پرانا تعلق تھا جو وہ آج تک نبھا رہے ہیں۔ غلام حسین نے اپنے لندنی ڈیرے پر ایسی پرتکلف محفل سجائی کہ رات ڈھلتے دیر نہ لگی۔

لیکن یہاں دفتر کی غیر حاضری بڑی مشکل سے معاف ہوتی ہے، اس لیے بادل نخواستہ محفل برخاست کرنا پڑی۔لندن میں ہر شہر، ہر ضلع اور ہر علاقے کا کوئی نہ کوئی پاکستانی ضرور ملتا ہے۔ برسوں بعد اپنے دیرینہ دوست ساجد تارڑ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تو ہمیں اسٹیشن سے پک کیا اور واپس اسی اسٹیشن تک چھوڑنے آئے۔ یہی اصل پاکستانی محبت ہے جو پردیس میں مزید گہری ہو جاتی ہے۔ اسی طرح وادی سون کے ہمارے دوست نصیر ملک سے بھی ملاقات ہوئی جنھوں نے علاقہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے قدم قدم پر ساتھ رکھا، لندن گھمایا اور ذائقے دار کھانے کھلائے۔

مدعا یہ ہے کہ لندن کی ہوا میں ایک سکون ضرور ہے لیکن یہاں مقیم پاکستانی دل سے اپنے وطن سے جڑے رہتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی حالات پر فکر مندی ضرور ہے مگر ناامیدی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالات ضرور بدلیں گے بس ہمارے اربابِ اختیار کو دل تھوڑا وسیع کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو سب 7 جہاز گرنے کا یاد دلاتے رہیں گے‘ بلاول
  • یادوں کا شہر لندن
  • خطے کی خوشحالی ہم سب کا مشترکہ ہدف ہے: وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب
  • کنگ سلمان ریلیف سینٹر کا معاشی بااختیاری منصوبہ: پہلے مرحلے میں 1,000 گھرانوں کو مویشی فراہم
  • حسینہ واجد کی سزائے موت دنیا کیلئے عبرت ناک سبق ،حافظ نعیم
  • بڑھتی ہوئی معاشی بے یقینی حکومتی ناکامی کا واضح ثبوت ہے، علامہ باقر زیدی
  • بلوچستان میں کوئلے کے کان کنوں کا معاشی استحصال: ایک تحقیقی جائزہ
  • عہد ِرسالتؐ میں صحابیاتؓ کا معاشی کردار
  • تاریک غارمیں دنیا کا سب سے بڑامکڑی کا جال دریافت
  • طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں سیاسی بازیگروں نے جمہوریت کو کمزور کیا ہے، شاداب نقشبندی