Express News:
2025-06-02@07:38:11 GMT

’’انصاف‘‘

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

نور مقدم کا مقدمہ ایک ایسی کہانی ہے جو صرف ایک لڑکی کی زندگی کے چراغ گل ہونے کی کہانی نہیں بلکہ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی اس سماجی عدالتی اور اخلاقی بربادی کو دیکھ سکتے ہیں جس پر صدیوں سے گرد جمی ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انصاف ہوگیا۔ ہمیں کہا گیا کہ قاتل کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی ہے، لیکن اس فیصلے میں وہ ریمارکس بھی ثبت ہو چکے ہیں جو مظلوم کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتے ہیں اور مجرم کو بالواسطہ ہی سہی ایک بگاڑ کا شکار نوجوان کہہ کرگویا معذور قرار دیتے ہیں؟

جب اس طرح کی رائے سامنے آئے کہ ’’ لڑکی کو بچنے کا موقع ملا، اسے بھاگ جانا چاہیے تھا‘‘ تو یہ کسی مجرم کو فائدہ دینے والی دلیل ہے حالانکہ ایک نہتی لڑکی، ایک نہتی عورت جب کسی جگہ قید ہوتی ہے، جب اس کے پاس بھاگنے کی راہیں مسدود کردی جاتی ہیں، جب اسے جسمانی ذہنی اور نفسیاتی اذیت دی جاتی ہے تب وہ کیسے فرار ہو سکتی ہے؟

ہم ایک ایسے سماج میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت کا جسم اس کی آواز اس کی مرضی اور اس کی موت تک کو مشکوک سمجھا جاتا ہے، وہ اگر چُپ رہتی ہے تو اس پر الزام ہے۔ وہ بولتی ہے تو گستاخ ٹھہرتی ہے۔ وہ عدالت جاتی ہے تو کٹہرے میں خود ہی کھڑی ہوتی ہے اور جب وہ قتل ہو جاتی ہے تو اس کے بھاگ نہ سکنے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔

یہ ہماری ہر اس بیٹی کی پکار ہے جو اس سماج میں سانس لیتی ہے، جسے کبھی غیرت کے نام پر مارا جاتا ہے کبھی ونی کردیا جاتا ہے، کبھی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جب وہ انصاف مانگتی ہے تو اسے کردارکے آئینے میں پرکھا جاتا ہے۔ جس نظامِ عدل کو مظلوم کا سہارا ہونا چاہیے وہ اکثر و بیشتر طاقتورکا ہتھیار بن کر سامنے آتا ہے۔

ہم نے مختاراں مائی کو دیکھا، ہم نے قندیل بلوچ کی موت کو دیکھا اور ہم نے نور مقدم کا لہو بھی زمین پر بہتا دیکھا، لیکن کیا ہم نے ریاست، عدلیہ اور سماج کی جانب سے کسی اجتماعی توبہ ،کسی سچے خراج عقیدت یا کسی سنجیدہ اصلاحی قدم کو دیکھا؟ نہیں۔ کیونکہ اس نظام کی جڑوں میں وہ زہر موجود ہے جو عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ قانون جو طاقتور مرد کے سامنے جھکتا ہے، وہ ضابطے جو بااثر خاندانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتے ہیں اور وہ فیصلے جو ظالم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، اس سماج کی عورت کوکبھی انصاف نہیں دے سکتے۔

پاکستان کی اشرافیہ اور خاص طور پر مرد اشرافیہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ تصاویر تو بناتی ہے، انھیں سوشل میڈیا پر فخر سے ظاہرکرتی ہے لیکن جب کسی مجرم کا تعلق اس اشرافیہ سے ہوتا ہے تو پھر یہ پورا طبقہ انصاف کی راہوں میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بااثر امیر ملزمان کے گھر پر پولیس نہیں پہنچتی، ان کے خلاف بیانات بدل دیے جاتے ہیں اور ذہنی مریض ہونے کی جعلی گواہیاں عدالتوں میں پیش کی جاتی ہیں۔ پھر بھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ انصاف اندھا ہے، سب برابر ہیں۔

کاش کہ یہ اندھا انصاف ایک لمحے کو وہ آنکھ کھولتا جو صرف عورتوں کے دکھ دیکھ سکے۔ ان کے زخموں کو محسوس کرسکے، ان کی چیخوں کو سن سکے۔ لیکن یہاں تو نظام انصاف بھی پدر سری نظام کے پروردہ ہے۔ وہ بھی وہی زبان بولتا ہے جو اس سماج کی گلی کوچوں میں عورت کے خلاف بولی جاتی ہے۔
انصاف صرف سزا دینے کا نام نہیں۔ انصاف سماجی سوچ بدلنے مظلوم کو سینے سے لگانے اور طاقتور کو کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا نام ہے۔

ہم کب سمجھیں گے کہ عورت کے خلاف یہ جنگ صرف کسی ایک مجرم یا ایک کیس کی بات نہیں بلکہ پورے نظامِ ظلم کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے؟ یہ بغاوت ہم تبھی کامیابی سے کر سکیں گے جب ہم اپنی عدلیہ اپنے نظامِ تعلیم اپنے میڈیا اپنے گھروں اور مساجد میں عورت کو برابری کا درجہ دیں گے۔ جب ہم اس پدرسری ذہنیت کے خلاف علم بلند کریں گے جو عورت کو یا تو چادر میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہتی ہے یا بازار میں نیلام کرنا چاہتی ہے۔

عورت کی آزادی اس کے تحفظ اور اس کی عزت کا سوال صرف انسانی حقوق کا سوال نہیں بلکہ ایک سیاسی طبقاتی اور معاشی سوال بھی ہے۔ جب تک اس ملک کی اکثریتی غریب عورتیں، غربت، جہالت اور پدرسری کی تکون میں پھنسی رہیں گی، تب تک نور مقدم جیسے کیسز آتے رہیں گے اور عدلیہ انھیں صرف سزا دے کر بری الذمہ ہو جائے گی، ان زخموں کو بھرنے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا۔

ہمیں انصاف چاہیے لیکن وہ انصاف جو عورت کی خاموشی کو آواز دے اس کے آنسوؤں کو عدالتی تحریروں میں شامل کرے اور ججوں کو یہ سکھائے کہ آپ کی کرسی پر بیٹھ کر آپ کے الفاظ بھی انصاف کے ترازو میں تولے جاتے ہیں، اگر آپ کا ایک ریمارک مجرم کو تقویت دے یا مظلوم کو مزید مجرم بنا دے تو وہ ریمارک صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک سند بن جاتا ہے۔

ہمیں آپ کو اور اس پورے سماج کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا ظالم کی زبان بولنے والوں کے ساتھ۔ کیونکہ تاریخ خاموش نہیں رہتی وہ ہر لفظ کو محفوظ کرتی ہے۔
ہم تمہیں یاد رکھیں گے، ہر اُس بیٹی کو جس کے خواب اس سماج نے تاریک راہوں میں دفن کیے اور ہم لڑیں گے اس دن تک جب تک انصاف واقعی انصاف بن کر عورت کے قدم چومے گا نہ کہ اس کے زخموں پر سوالیہ نشان بنے گا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ جاتا ہے کے خلاف عورت کو جاتی ہے

پڑھیں:

شرمیلا فاروقی کا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ردِعمل

شرمیلا فاروقی—فائل فوٹو

پاکستان پیپلز پارٹی کی رکنِ قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔

ایک بیان میں شرمیلا فاروقی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن شادی کو بلوغت سے جوڑتے ہيں جبکہ اسلام اور آئینِ پاکستان انصاف، تحفظ اور انسانی وقار پر زور دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 25 ۔1 واضح کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی حق دار ہیں جبکہ آرٹیکل 25-2 کہتاہے کہ جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہو گی۔

شرمیلا فاروقی نے کہا کہ ہم ایسے طریقوں کا جواز پیش نہیں کر سکتے جو بنیادی انسانی حقوق اور آئینی ضمانتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی کی کم از کم عمر بڑھانا انصاف کی طرف ایک قدم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شرمیلا فاروقی کا مولانا فضل الرحمٰن کے بیان پر ردِعمل
  • تحریک انصاف نے تحریک چلائی تو کیا ہو گا ۔۔۔؟ رانا ثناء اللہ کھل کر بول پڑے
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج والدین کا دن منایا جا رہا ہے
  • چاول، آلو، نوڈلز، پاستا کو ٹھنڈا کر کے کھانا فائدہ مند
  • معیشت اور انصاف
  • خبردار! پراٹھا پکاتے ہوئے یہ غلطی نہ کریں، صحت کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے
  • عورت کی کمائی میں برکت نہ ہونے کی باتیں بکواس ہیں: ثمینہ پیرزادہ
  • تحریک انصاف نے وزیراعظم شہباز شریف سے مذکرات کیلئے مشروط آمادگی ظاہر کردی
  • تحریک انصاف نے وزیراعظم شہباز شریف سے مذکرات کیلئےمشروط آمادگی ظاہر کردی