پاک ایران تعلقات، امریکی دباؤ مسترد؟ پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا خصوصی انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ ایران، امریکی مخالفت کے باوجود ایران کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کیوں؟ پاکستان کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام کی حمایت کی وجہ وقت کی ضرورت اور بدلتا ہوا ورلڈ آرڈر ہے؟ پاکستان اور ایران کا ایک دوسرے کی قریب آنا خوش آئند کیوں؟ سارک ناکام ہوگیا، اب پاکستان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیئے؟ کیا ایران سے اچھے تعلقات میں پاکستان کی راہ میں امریکی ڈکٹیشن رکاوٹ ہے؟ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی شخصیت عالم اسلام کی سربراہی کیلئے موزوں کیوں؟ کیا اب بھی پاکستان کے فیصلے امریکا کرتا ہے؟ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کیلئے کون مجبور کرتا ہے؟ پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے اپنے حصے کا کام مکمل کرنا کیوں ضروری ہے؟ پاکستان اپنے معاشی فیصلے خود کرے، امریکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، وجہ؟ و دیگر سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا خصوصی ویڈیو انٹرویو ضرور سنیئے اور احباب و اقارب کیساتھ بھی شیئر کیجیئے۔ متعلقہ فائیلیںپروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت پاکستان کی معروف ماہر معاشیات اور تجزیہ کار ہیں، وہ انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کے کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈیویلپمنٹ کی ڈین کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں، رواں سال انکی کتاب “Alternative to the IMF And Other Out of the Box Solutions” کو بہت پزیرائی ملی۔ وہ اکثر و بیشتر ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز، فورمز اور ٹاک شوز میں بحیثیت تجزیہ کار ملکی و عالمی معاشی امور پر اپنی ماہرانہ رائے پیش کرتی ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ ایران،پاکستان کیجانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کی حمایت کا اعلان، پاک ایران تجارتی و اقتصادی تعلقات، اسکی اہمیت، بہتری و فروغ میں رکاوٹ سمیت دیگر متعلقہ موضوعات کی مناسبت سے کراچی میں پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت کی رہائش گاہ پر ان کے ساتھ خصوصی انٹرویو کیا، جو قارئین اور ناظرین کی خدمت میں پیش ہے۔ قارئین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ (ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈاکٹر شاہدہ وزارت پاکستان کی
پڑھیں:
خام خیالی
اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے ایک اجلاس میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا: "میں ایسا معاہدہ چاہتا ہوں جس کے تحت ایران کی جوہری تنصیبات کی نظارت، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر انہدام کا امکان پایا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی چاہیں تباہ کر دیں۔" یہ وہ موقف ہے جسے بلوم برگ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ میں مغربی تجزیہ کاروں نے حد سے زیادہ طلب اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ ایسے مطالبات تہران کی جانب سے مسترد کر دیے جائیں گے۔ امریکی چینل این پی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے عجیب موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "ٹرمپ سمجھتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار جیسے ہیں۔ وہ ایران سے مذاکرات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔" تحریر: علی احمدی
ان دنوں ایران سے جوہری مذاکرات کے بارے میں جو موقف واشنگٹن کی جانب سے سامنے آ رہا ہے وہ حقیقت سے تناسب رکھنے کی بجائے امریکہ کے جواری صدر کی خام خیالی سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ ایسے وقت جب امریکی ذرائع ابلاغ عنقریب معاہدہ طے پا جانے کے امکان کا دعوی کر کے ایرانی مذاکراتی ٹیم پر دباو بڑھا رہے ہیں، دونوں ممالک کے حکام کے بیانات اور مغربی ذرائع ابلاغ کے تجزیات سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے اس حساس ایشو کے بارے میں اتفاق رائے بہت دور ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا پر تازہ ترین بیان میں یہ دعوی کیا ہے کہ معاہدہ بہت قریب ہے۔ البتہ اس نے مطلوبہ معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسا معاہدہ جس کے تحت امریکی انسپکٹرز جس چیز کو چاہیں ضبط کر لیں اور امریکہ جس مرکز کو چاہے تباہ کر دے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مذاکرات ناکام ہونے کی صورت میں رائے عامہ کنٹرول کرنے کے مقدمات طے پا رہے ہیں۔
مذاکرات کے بارے میں امریکی خواب
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بار پھر واشنگٹن کا روایتی موقف دہراتے ہوئے کہا: "ایران مذاکرات کی میز پر ہے اور مذاکرات آگے بڑھے ہیں، ہم ہر نشست میں آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔" امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات آگے بڑھنے کی باتیں ایسے وقت کی جا رہی ہیں جب امریکہ اب بھی ممکنہ معاہدے میں مزید مراعات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جیسا کہ وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ "یورینیم افزودگی کا مکمل تعطل" اور بلوم برگ کی رپورٹ میں حتی "انسپکشن، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر جوہری تنصیبات کا انہدام" ایسے ناجائز مطالبات اور توقعات ہیں جن کا خواب امریکی حکمران دیکھ رہے ہیں۔ امریکی صدر نے حال ہی میں اپنی تقریر میں کہا: "میرا خیال ہے کہ ایران کے بارے میں اچھی خبریں ملیں گی، حقیقی اور سنجیدہ پیش رفت ہوئی ہے۔"
دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے ایک اجلاس میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا: "میں ایسا معاہدہ چاہتا ہوں جس کے تحت ایران کی جوہری تنصیبات کی نظارت، مکمل رسائی اور ضرورت پڑنے پر انہدام کا امکان پایا جاتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی چاہیں تباہ کر دیں۔" یہ وہ موقف ہے جسے بلوم برگ سمیت مختلف ذرائع ابلاغ میں مغربی تجزیہ کاروں نے حد سے زیادہ طلب اور حقیقت پسندی سے دور ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ ان میڈیا ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ ایسے مطالبات تہران کی جانب سے مسترد کر دیے جائیں گے۔ امریکی چینل این پی آر نے بھی اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے عجیب موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "ٹرمپ سمجھتا ہے کہ ایران سے جوہری مذاکرات بھی رئیل اسٹیٹ کاروبار جیسے ہیں۔ وہ ایران سے مذاکرات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔"
امریکہ کے ناجائز مطالبات پر ایران کا ردعمل
عنقریب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ طے پانے پر مبنی قیاس آرائیوں کے بارے میں ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا: "مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم واقعی ایسی پوزیشن پر ہیں جن کے بارے میں کچھ میڈیا ذرائع اظہار خیال کر رہے ہیں۔ ایران پوری سچائی سے ایسے سفارتی راہ حل کی تلاش میں ہے جو دونوں فریقین کے مفادات یقینی بنا سکے لیکن اس کے لیے ایسے معاہدے کی ضرورت ہے جس میں ایران پر عائد تمام پابندیاں ختم ہو جائیں اور ایران کے جوہری حقوق، جن میں یورینیم افزودگی بھی شامل ہے، اسے مل سکیں۔" انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ "معاہدے کا راستہ مذاکرات کی میز سے گزرتا ہے نہ میڈیا ذرائع سے۔" رہبر معظم انقلاب کے مشیر علی شمخانی نے بھی ٹرمپ کی دھمکیوں پر کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کا انہدام وہ خواب ہے جو گذشتہ امریکی صدور بھی دیکھتے رہے ہیں۔
بلیم گیم، مستقبل کے لیے امریکی منصوبہ؟
امریکی حکام کی جانب سے بڑے پیمانے پر متضاد موقف سامنے آنے کے بعد سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی معاہدے کی جانب گامزن ہونے کی بجائے ایک ایسا منصوبہ ہے جو بلیم گیم پر مشتمل ہے۔ یعنی اگر تو کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دے گا لیکن اگر مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں اور کوئی معاہدہ طے نہیں پاتا تو امریکی حکام اس کی تمام تر ذمہ داری ایران پر ڈال دیں گے اور ایران کو قصور وار ٹھہرانے لگیں گے۔ ان کا بہانہ یہ ہو گا کہ ایران نے یورینیم افزودگی کا مکمل خاتمہ یا امریکی انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات تک مکمل رسائی جیسے مطالبات نہ مان کر مذاکرات ناکام بنا دیے ہیں۔ اگرچہ مسقط اور روم میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی پانچ نشستیں منعقد ہوئی ہیں لیکن ان کا نتیجہ خیز ثابت ہونا یقینی نہیں ہے۔
بالواسطہ مذاکرات کے انعقاد سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق باہمی گفتگو میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن امریکہ کی جانب سے ناقابل قبول مطالبات اور شرائط ٹھونسنے کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذاکرات کی بجائے دھمکی آمیز سفارتکاری میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بارہا اعلان کر چکا ہے کہ معاہدے کا حصول ممکن ہے لیکن ہر قیمت پر نہیں، بلکہ صرف اس صورت میں جب "تمام پابندیاں ختم ہوں گی اور ایران کے جوہری حقوق کا احترام کیا جائے گا"۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی بات کرنا اور تہران کے مطالبات کو یکسر طور پر نظرانداز کر دینا مذاکرات کو ڈیڈ لاک کی جانب لے جائے گا۔ اسی طرح بہت سے ماہرین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ کیا امریکی حکمران میڈیا ذرائع پر دھمکی آمیز بیانات دینا بند کر سکتے ہیں یا ہمیشہ کی طرح منفی رویہ جاری رکھیں گے؟