ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں "آئی اے ای اے" کی رپورٹ کا جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یاد رہے کہ آئی اے ای اے کی یہ تازہ ترین اور متنازعہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب تہران اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ آئی اے ای اے کی یہ رپورٹ ادارے کی ساکھ کے لئے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں، کیونکہ اس سے جوہری توانائی کے اس عالمی ادارے سے دنیا کا اعتماد اٹھ جائیگا اور دنیا پر ثابت ہو جائیگا کہ اس ادارے پر بعض ممالک کے مذموم عزائم کی گہری چھاپ ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
ایک ایسے وقت جب ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا عمل جاری ہے اور یورینیم کی افزودگی کا موضوع سب سے اہم حیثیت اختیار کرچکا ہے، جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی ایک خفیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران نے حالیہ مہینوں میں افزودہ یورینیم کی پیداوار اور سطح میں اضافہ کیا ہے۔ آئی ای اے نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ باعث تشویش ہے کہ ایران نے 17 مئی تک 408.
ایک علیحدہ تفصیلی رپورٹ میں آئی اے ای اے نے ایران کے جوہری پروگرام کی جانچ پڑتال پر تہران کی طرف سے تعاون کو "تسلی بخش سے کم" قرار دیا اور اس پر تنقید کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ایران معمول کے حفاظتی اقدامات کے نفاذ کے معاملات میں ایجنسی کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن کئی معاملات میں ایجنسی کے ساتھ اس کا تعاون غیر تسلی بخش رہا۔ اس میں خاص طور پر غیر اعلانیہ مقامات پر پائے جانے والے جوہری مواد کی وضاحت میں تہران کی پیش رفت کی کمی کو نوٹ کیا گیا۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق "خاص طور پر ایران نے بار بار ایجنسی کے سوالات کا جواب نہیں دیا اور اس رپورٹ میں حساس مقامات کو صاف کیا ہے، جس سے ایجنسی کی تصدیق کی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔"
ایران نے اس رپورٹ پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز رافائل گروسی کی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ اور ایٹمی توانائی کے قومی ادارے نے مشترکہ بیانیہ جاری کیا ہے، جس میں آئی اے ای اے، یورپی ٹرائیکا اور امریکی حکومت کو ہر طرح کے حماقت آمیز اقدام کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے۔ اس بیان میں 31 مئی کو ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ کی جانب سے اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کو دی جانے والی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکہ کی حکومت نے ایٹمی معاہدے کی بارہا اور کھلے عام خلاف ورزی کی ہے، لیکن ہر بار صرف اسلامی جمہوریہ ایران پر غیر قانونی طریقے سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
اس بیانیے میں آیا ہے کہ دوسری جانب ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کے سربراہ کے تہران کے دورے اور ان دوروں کو ان کی جانب سے مثبت قرار دیئے جانے کے باوجود، انہوں نے یورپی ممالک کے ساتھ یکصدا ہوکر انہی بے بنیاد دعووں کو دوہرایا ہے، جن کا جواب بارہا دیا جا چکا ہے۔ وزارت خارجہ اور ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے بیان میں درج ہے کہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ معاہدے کے حصول میں سچائی سے کام نہیں لے رہے اور موقع ملتے ہی آئی اے ای اے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس بیان میں آیا ہے کہ ایران کے وسیع تعاون کے باوجود، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو رپورٹ گروسی نے تیار کی ہے، اس میں اس تعاون کی حقیقی سطح کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ان جھوٹے دستاویزات کو بنیاد بنایا گیا ہے، جسے صیہونی حکومت نے تیار کیا تھا اور ایران اس سلسلے میں وضاحت دینے کے لیے آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دسترسی بھی دے چکا ہے۔
وزارت خارجہ اور اے ای او آئی کے مشترکہ بیانیے میں اس بات پر بھی سخت تنقید کی گئی ہے کہ ایٹمی توانائی کا عالمی ادارہ کوئی ثبوت پیش کیے بغیر اور فنی اور تکنیکی موضوعات کو پس پشت ڈالتے ہوئے، ایران میں یورینیم کی افزودگی کے بارے میں تہران کی نیت کا اندازہ لگا رہا ہے، جبکہ رہبر انقلاب اسلامی کے فتوے کے مطابق، ایران کی ڈاکٹرائن میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس بیان میں آیا ہے کہ وہ اقدامات جو ایران نے رضاکارانہ طور پر سیف گارڈ پروٹوکول سے بڑھ کر انجام دیئے، اسے ایران کے فرائض میں شامل کر دیا گیا ہے، حالانکہ قانونی لحاظ سے بھی یہ اقدامات ایران کی جانب سے خیرسگالی پر مبنی قرار دیئے جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ اور ایران کے ایٹمی توانائی کے قومی ادارے کے اس مشترکہ بیان میں آیا ہے کہ صیہونی حکومت نے این پی ٹی معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں اور بارہا نسل کشی کا ارتکاب بھی کیا ہے، لیکن اس کی جھوٹی رپورٹوں اور دستاویزات کی بنیاد پر ایران پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جو کہ آئی اے ای اے کی ذمہ داریوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اس بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر بعض ممالک نے آئی اے ای اے کے ساتھ ایران کے شفاف اور مثبت تعاون کا بورڈ آف گورنرز کے درپیش اجلاس میں غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو اسلامی جمہوریہ ایران خاطرخواہ جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا اور ایران کے جوابی اقدام اور اس کے نتائج کے ذمہ دار مکمل طور پر وہی چند مغربی ممالک ہوں گے، جنہوں نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایران کے سیاسی ذرائع نے المیادین ٹی وی چینل کو بتایا ہے کہ تین یورپی ممالک فرانس، جرمنی اور برطانیہ، تہران کے جوہری پروگرام پر منفی رپورٹ جاری کرنے کے لیے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ دباؤ کی یہ مہم تہران اور واشنگٹن کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے تازہ ترین دور سے پہلے ہی شروع ہوئی تھی اور یہ مسلسل جاری ہے، جس سے بات چیت کے تعمیری امکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ ایران کے خیر سگالی کے پیغامات کے باوجود یورپی ٹرائیکا کا ایجنسی پر دباؤ ڈالنا جوہری معاملے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کا واضح ثبوت ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان 12 اپریل سے اب تک جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہوچکے ہیں اور توقع ہے کہ ایک نئے معاہدے تک پہنچنے کے مقصد سے مذاکرات کے لیے دوبارہ ملاقات ہوگی۔ دونوں ممالک یورینیم کی افزودگی کی سطح پر اختلافات کا شکار رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو متنبہ کیا ہے کہ وہ مذاکرات میں خلل نہ ڈالیں۔ یاد رہے کہ اس رپورٹ کے سامنے آنے سے پہلے آسٹریا کی خفیہ ایجنسیوں نے عالمی ادارے کی رپورٹ کو لیکر ایران کے خلاف عالمی سطح پر فضا بنانے کی کوشش کی تھی۔
ایران نے اس اقدام پر سخت ردعمل دیتے ہوئے آسٹریا کے سفیر کو وزارت خارجہ طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے آسٹریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کی جانب سے ایران کے پرامن جوہری پروگرام سے متعلق منفی اور جھوٹی رپورٹ پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ویانا سے سرکاری وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے آسٹریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کی رپورٹ میں ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت پر سوال اٹھانے کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کی رپورٹ محض اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف فضا سازی کے لیے گھڑی گئی ہے اور اس کی کوئی دستاویزی حیثیت نہیں ہے۔
اسماعیل بقائی نے اس جانب اشارہ کیا کہ ایران، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا رکن ملک ہے اور اس کا جوہری پروگرام بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی سخت ترین نگرانی کے تحت ہے۔ آسٹریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کی اس قسم کی کارروائیاں نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ آئی اے ای اے جیسے معتبر ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے آسٹریا اور بعض دیگر یورپی ممالک پر دوہرا معیار اپنانے کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ ممالک صیہونی حکومت کو تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کرنے پر خاموشی اختیار کرنے کے علاوہ تل ابیب کی ہمہ جہتی حمایت کے ذریعے جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کے قیام میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اسماعیل بقائی نے ایران کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمیشہ سے جوہری اور دیگر تباہ کن ہتھیاروں کی مخالفت کرتا آیا ہے اور مغربی ایشیا کو ان ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کے اصولی مؤقف پر قائم ہے۔ انھوں نے آسٹریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کی جھوٹ پر مبنی بیان بازی کی شدید مذمت کرتے ہوئے آسٹریا کی حکومت سے اس غیر ذمہ دارانہ، اشتعال انگیز اور نقصان دہ اقدام پر باضابطہ وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ آئی اے ای اے کی یہ تازہ ترین اور متنازعہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب تہران اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔ آئی اے ای اے کی یہ رپورٹ ادارے کی ساکھ کے لئے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں، کیونکہ اس سے جوہری توانائی کے اس عالمی ادارے سے دنیا کا اعتماد اٹھ جائیگا اور دنیا پر ثابت ہو جائیگا کہ اس ادارے پر بعض ممالک کے مذموم عزائم کی گہری چھاپ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آسٹریا کی انٹیلیجنس ایجنسی کی اسلامی جمہوریہ ایران آئی اے ای اے کی یہ اسماعیل بقائی نے وزارت خارجہ اور کہ آئی اے ای اے آئی اے ای اے کے جوہری پروگرام جوہری توانائی میں آیا ہے کہ اور ایران کے عالمی ادارے اس بیان میں یورینیم کی کی جانب سے کیا گیا ہے کرتے ہوئے رپورٹ میں ایجنسی کے نے آسٹریا ادارے کے ایران کی ایران نے کے مطابق کی رپورٹ رپورٹ پر ادارے کی کہ ایران کے ساتھ اور اس کے لیے کیا ہے ہے اور رہا ہے کہا کہ
پڑھیں:
واشنگٹن ایرانی جوہری منصوبے کو مکمل تباہ کرنے سے قاصر ہے، سابق امریکی وزیر دفاع
صحافیوں سے اپنی ایک گفتگو میں رابرٹ گیٹس کا کہنا تھا کہ پہلی بار ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا خیال "جارج بُش" کے دور صدارت میں پیش ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ سابق امریکی وزیر دفاع "رابرٹ گیٹس" نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پہلی بار ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کا خیال "جارج بُش" کے دور صدارت میں پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں سال 2007-2008 میں وزیر دفاع تھا۔ میں نے اس وقت کے صدر سے کہا کہ ہم ایرانی ایٹمی پلانٹ کو شدید نقصان تو پہنچا سکتے ہیں مگر اسے مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتے۔ واضح رہے کہ رابرٹ گیٹس کا موقف آج بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی حملے ایران کے جوہری پروگرام کو پیچھے تو لے جا سکتے ہیں مگر اسے ختم نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ایرانی جو کچھ سیکھ چکے ہیں اسے محو کرنا ممکن نہیں۔ یاد رہے کہ قبل ازیں ایران کے وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" نے کہا تھا کہ ہمارا جوہری پروگرام درآمد شدہ نہیں کہ جو بمباری سے ختم ہو جائے۔ یہ پروگرام ایرانی سائنسدانوں کے مقامی علم اور ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ سائنس کو بمباری سے ختم نہیں کیا جا سکتا یا پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔ عمارتیں اور سامان تباہ ہو سکتے ہیں، لیکن ان سب کو دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ امریکہ نے 21 جون 2025ء کی صبح ایران کے تین جوہری مقامات فردو، نطنز اور اصفہان پر حملہ کر کے برملا طور پر "بنیامین نیتن یاہو" کی مسلط کردہ جنگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اسرائیل نے پہلی بار 13 جون کی صبح، ایران کے دارالحکومت اور کئی دیگر شہروں پر دہشت گردانہ حملے شروع کئے جو 24 جون تک جاری رہے۔ ان حملوں میں کئی فوجی کمانڈرز، سائنسدان اور عام شہری شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اور امریکی و صیہونی جارحیت کے جواب میں ایران کی مسلح افواج نے آپریشن "وعده صادق 3" اور "بشارت فتح" شروع کیا۔ جس میں اسرائیل کے خلاف وسیع پیمانے پر میزائل و ڈرون حملے کئے گئے۔