لاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کیلیے جانوروں کی درآمد تاخیر کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
لاہور:
لاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کے لیے جنوبی افریقا سے زرافے، گینڈا اور دریائی گھوڑے کی درآمد کو اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کلیئرنس نہ ملنے کے باعث پنجاب وائلڈ لائف کو ایک بار پھر مشکلات کا سامنا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ہاتھیوں کی درآمد کا منصوبہ بھی پہلے ہی تعطل کا شکار ہے اور اب دیگر بڑے جانوروں کی آمد بھی غیر یقینی ہوچکی ہے۔ دوسری طرف پنجاب وائلڈ لائف حکام پرامید ہیں کہ یہ جانور جلد پاکستان لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
لاہور چڑیا گھر اور سفاری زو کےلیے اندرون اور بیرون ملک سے کئی جانور اور پرندے خریدے جاچکے ہیں تاہم ابھی تک کئی بڑے جانوروں کی درآمد تاخیر کا شکار ہے۔ جن میں 12 زرافے، جن میں سے 9 لاہور سفاری زو اور تین لاہور چڑیا گھر کےلیے، تین گینڈے ایک لاہور چڑیا گھر اور ایک جوڑا لاہور سفاری زو کےلیے جبکہ ایک نر دریائی گھوڑا لاہور چڑیاگھر کے لیے اہم ہیں۔
ری ویپنگ پروجیکٹ کے ڈائریکٹر مدثر حسن نے بتایا کہ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی طرف سے ہاتھیوں کے علاوہ دیگر جانوروں جن میں گینڈے، دریائی گھوڑے، زرافے، نیالا ہرن اور زیبرے درآمد کرنے کےلیے این او سی مل چکا ہے لیکن اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے ان جانوروں کو جنوبی افریقا سے درآمد کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے حکام نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ’’جنوبی افریقا سے جو جانور درآمد کیے جا رہے ہیں، اُن کے ہیلتھ سرٹیفکیٹس کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا وہ پاکستان کی امپورٹ ریگولیشنز پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ حکام کے مطابق اگر موجودہ سرٹیفکیٹس پاکستان کی ضروریات کے مطابق نہ ہوئے، تو درآمد کنندگان سے اضافی تصدیق طلب کی جائے گی۔‘‘ ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی بیماری پاکستان میں داخل نہ ہو۔ یہ مکمل طور پر ایک پروسیجرل عمل ہے۔
حکام کے مطابق جنوبی افریقا سمیت بعض دیگر افریقی ممالک میں فٹ اینڈ ماؤتھ ڈزیز (ایف ایم ڈی) کا ایسا وائرس پایا جاتا ہے جو ابھی تک پاکستان میں نہیں ہے، حکام کو خدشہ ہے کہ اگر وہ وائرس پاکستان پہنچ گیا تو ہمارے یہاں لائیو اسٹاک کو متاثر کرسکتا ہے، اس لیے کوئی رسک نہیں لیا جاسکتا۔
ذرائع کے مطابق، فی الوقت دریائی گھوڑا، گینڈا اور زرافہ سمیت دیگر جانوروں کی درآمد پر عارضی پابندی عائد ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف فٹ اینڈ ماؤتھ بیماری کے پیشِ نظر احتیاطی تدبیر کے طور پر لیا گیا ہے۔
کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے حکام نے پنجاب وائلڈ لائف کو مشورہ دیا ہے کہ یہ جانور کسی دوسرے ملک سے درآمد کرلیں۔جہاں ایف ایم ڈی کی وبا نہیں ہے تاہم مدثر حسن کہتے ہیں کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی تجویز پرعمل درآمد اتنا آسان نہیں کیونکہ دوسرے ممالک میں اول تو یہ جانور موجود نہیں ہیں، اور جن ممالک میں ہیں وہاں یہ سرپلس نہیں ہیں۔ دوسرا مسئلہ ان جانوروں کی ٹرانسپوٹیشن کا ہے۔ ساؤتھ افریقا کے علاوہ دیگر ممالک میں ان جانوروں کےلیے کارگو جہاز میسر نہیں۔
انہوں نے کہا کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جانور پاکستان لائے جانے سے پہلے ساؤتھ افریقا میں کورنٹائن کے مرحلے سے گزریں گے اور پھر پاکستان درآمد کے بعد ان کو 15 دن سے ایک ماہ تک کےلیے کورنٹائن میں رکھ کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ایف ایم ڈی کے جس وائرس کی بات کی جارہی ہے وہ ابھی تک گینڈے اور دریائی گھوڑے میں رپورٹ ہی نہیں ہوا ہے۔ پھر سب سے اہم یہ کہ ان جانوروں کو ہم نے چڑیاگھر اور سفاری پارک میں رکھنا ہے جہاں لائیو اسٹاک کے ساتھ ان جانوروں کے ملاپ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
پنجاب وائلڈ لائف اور اینیمل کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کے موقف اپنی جگہ ہیں لیکن اس بارے میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی نمائندہ ڈاکٹر عظمیٰ خان کہتی ہیں چڑیا گھر اور سفاری پارک کےلیے جانور کسی چڑیا گھر سے امپورٹ کرنا چاہیں۔ جنوبی افریقہ کے جن ممالک سے جانور درآمد کیے جاتے ہیں وہاں سے زیادہ تر وائلڈ جانور فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ پہچان مشکل ہوتی ہے کہ درآمد کیے گئے جانور وائلڈ ہیں یا کیپٹو ہیں۔
ڈاکٹر عظمیٰ خان کہتی ہیں وہ اس حق میں ہیں کہ ہمیں قوانین کا احترام اور ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔ کورنٹائن ڈپارٹمنٹ کی تجویز کے مطابق اگر کسی دوسرے ملک سے جانور لائے جاسکتے ہیں وہاں کے کسی چڑیا گھر، سفاری یا پھر وائلڈ بریڈنگ فارم سے جانور منگوانا زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایسے جانوروں کو یہاں اسیری میں رکھنا آسان ہوتا ہے۔ جبکہ وائلڈ اینیملز کو جب اسیری میں رکھا جاتا ہے تو وہ اسٹریس میں چلے جاتے ہیں اور بیمار ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر موجودہ مالی سال کے اندر یہ جانور درآمد نہیں کیے جاتے تو ان کےلیے مختص فنڈز قانون کے مطابق واپس ہوجائیں گے لیکن ڈائریکٹر پروجیکٹ مدثر حسن پُرامید ہیں کہ وہ یہ جانور پاکستان لانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور فنڈز واپس نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا جانوروں کی درآمد کے منصوبے میں توسیع پر مشاورت ہورہی ہے۔ وہ اس بارے میں کچھ واضح طور پر تو نہیں کہہ سکتے لیکن بہت جلد عوام کو خوشخبری دیں گے۔
واضح رہے کہ لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک کی ری ویپنگ کا منصوبہ 2023 میں نگران حکومت نے شروع کیا تھا، اس منصوبے کےلیے تقریباً 5 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پنجاب وائلڈ لائف جنوبی افریقا جانوروں کی ممالک میں سفاری زو یہ جانور جاتے ہیں کے مطابق کی درآمد ہیں کہ ہیں وہ
پڑھیں:
قرض ادائیگی کا دباؤ، زرمبادلہ ذخائر محدود، بینک درآمدی بلوں کی ادائیگی میں تاخیر کرنے لگے
اسلام آباد:کمرشل بینکوں نے غیر ملکی کرنسی کی محدود دستیابی کی وجہ سے درآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں ایک بار پھر تاخیر شروع کر دی ہے۔ جون کے آخر سے قبل بڑے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی زر مبادلہ ذخائر کو ڈبل ڈیجیٹ میں رکھنے کی شرط پر عمل بھی جاری رکھنا ہے۔
متعدد بینکرز کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت کے مطابق یہ صورتحال مرکزی بینک کو ضمانت دیتی ہے کہ وہ یا تو مارکیٹوں سے غیر ملکی کرنسی کی خریداری کو مکمل طور پر روک دے یا ڈالر کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے اس میں زبردست کمی کرے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہفتے کے روز اس معاملے پر کوئی سرکاری موقف نہیں دیا۔ بینکنگ اور مارکیٹ کے ذرائع نے ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کو بتایا کہ کچھ بڑے اور چھوٹے بینک درآمدات سے متعلق ادائیگیوں میں دو سے تین ہفتوں تک تاخیر کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پیٹرولیم سیکٹر کا درآمدی بل 1750 ارب ہے جسے کم کرنا بڑا چیلنج ہے وزارت توانائی
بینک کچھ بڑے درآمد کنندگان کو لیٹر آف کریڈٹس کی کلیئرنس کے لیے انٹربینک سے زیادہ شرحوں پر ڈالر بھی فراہم کر رہے تھے۔ اس صورتحال کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قیمت کا فرق وسیع ہونا شروع ہوگیا۔
بینکنگ اور کرنسی مارکیٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ انٹربینک ریٹ 282 روپے فی ڈالر سے زائد تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 285 روپے کے قریب مل رہا تھا۔ ایک نجی بینک کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے کہا ہے کہ 2022 کے بحران کے مقابلے میں صورتحال زیادہ خراب نہیں ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ مارکیٹ میں قیاس ارائیوں سے بچنے کے لیے مرکزی بینک نوٹس لے۔
متعلقہ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقامی کرنسی اوپن اور انٹربینک دونوں بازاروں میں دباؤ میں آئی۔ لیکن یہ ایک عارضی رجحان ہے اور جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ پاکستان سٹیٹ آئل اور پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ کو بھی اپنی درآمدات کی ادائیگی کے لیے ڈالر کی صحیح قیمت حاصل کرنے میں مسائل کا سامنا ہے۔
ذرائع نے بتایا پی ایس او نے پچھلے معاہدے کے مقابلے میں اپنی تازہ ترین درآمدی ادائیگی کے لیے تقریباً 3 روپے زیادہ قیمت ادا کی۔ اس سے صارفین کے لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ واضح رہے پاکستان اگلے ماہ چین کو 2.4 بلین ڈالر کے غیر ملکی تجارتی قرضوں کی ادائیگی کرنے والا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان پٹرولیم گروپ کا درآمدی بل نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا
اس کے علاوہ کچھ دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کو بھی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس وقت زرمبادلہ ذخائر 11.5 بلین ڈالر ہیں۔ زر مبادلہ ذخائر کو ڈبل ڈیجیٹ میں رکھتے ہوئے یہ ذخائر ادائیگیوں کے لیے ناکافی ہیں۔ آئی ایم ایف نے جون کے آخر تک کے نیٹ انٹرنیشنل ریزرو (این آئی آر) کے ہدف کو مزید سخت کر کے منفی 7.5 بلین ڈالر کر دیا جو گزشتہ سال ستمبر میں طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 1.1 بلین ڈالر کی مزید سختی ہے۔
ایک اور بینک کے سینئر ایگزیکٹو نے بتایا کہ برآمدات اور ترسیلات زر درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن چیلنج مالیاتی اکاؤنٹ تھا جو شرح مبادلہ پر دباؤ ڈال رہا تھا۔ مرکزی بینک کو مارکیٹ کے حالات کو آسان بنانے کے لیے چند ہفتوں تک ڈالر نہیں خریدنا چاہیے۔
مرکزی بینک کے گورنر علی جمیل نے چند ماہ قبل کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے ذخائر کی تعمیر کے لیے 2024 میں مقامی مارکیٹ سے 9 بلین ڈالر سے زیادہ خریدے تھے۔ سٹیٹ بینک کے ترجمان نے روپے اور ڈالر کی برابری پر حالیہ دباؤ کی وجوہات اور اسی طرح درآمدات سے متعلق موخر ادائیگیوں کی وجہ سے ایک ارب ڈالر کے التوا ہونے کی بابت سوال کا جواب دینے سے بھی گریز کیا۔