پاکستان بھارت کشیدگی: دونوں ملکوں کے جرنیلوں کی ایک دوسرے کو تنبیہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2025ء) پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ فوجی حکام، جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا اور بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے سنگاپور میں ہونے والے شانگری لا ڈائیلاگ میں دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان انتباہات کا تبادلہ کیا۔
جس طرح دونوں ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ملحق ہیں، اسی طرح ان کے یہ اعلیٰ فوجی جنرل سنگاپور میں کانفرنس کے دوران ایک دوسرے کے پاس بیٹھے اور دفاعی اختراع کے حل سے لے کر علاقائی بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار تک کے موضوعات پر ہونے والے اجلاسوں میں حصہ لیا۔
پاک، بھارت کشیدگی: پاکستانی اعلیٰ اختیاراتی وفد غیرملکی دورے پر
بھارتی جنرل نے کیا کہا؟تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے جنرل انیل چوہان نے پاکستان کے خلاف اپنے حالیہ 'آپریشن سندور' کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "بھارت نے جو کچھ کیا، سیاسی طور پر، اس نے دہشت گردی کے خلاف عدم برداشت کی ایک نئی سرخ لکیر کھینچ دی ہے۔
(جاری ہے)
"بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی نے انیل چوہان کے حوالے سے لکھا، "مجھے امید ہے کہ یہ خاص آپریشن، بنیادی طور پر یہ فوجی ڈومین میں ہے، جس سے ہمارے مخالف کو بھی کچھ سبق ملنا چاہیے اور امید ہے کہ وہ سیکھیں گے کہ یہ بھارت کی برداشت کی حد ہے۔"
ان کا مزید کہنا تھا، "ہم تقریباً دو دہائیوں اور اس سے بھی زیادہ عرصے سے دہشت گردی کی اس پراکسی جنگ کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
ہم نے بہت سے لوگوں کو کھو دیا ہے۔۔۔۔ ہم اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔"جمعہ سے اتوار تک چلنے والے اس اعلیٰ عالمی دفاعی فورم کے اجلاس کے دوران دونوں پڑوسیوں کے درمیان جاری حالیہ کشیدگی بھی توجہ کا مرکز رہی۔
پاکستان اور بھارت میں ڈرونز کی جنگ، ایشیا میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ
پاکستانی فوجی جنرل نے کیا کہا؟اپنے خطاب میں پاکستان کے جنرل ساحر شمشاد مرزا نے عارضی انتظام کرنے کے بجائے تنازعات کے حل کی طرف بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس کی عدم موجودگی تباہ کن کشیدگی کے اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔'علاقائی بحران کے انتظام کے طریقہ کار' کے عنوان سے ایک پینل میں بحث کے دوران، مرزا نے کہا، "تنازعات کا انتظام کرنے سے آگے بڑھ کر تنازعات کے حل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ پائیدار امن اور بحران کے حتمی انتظام کو بھی یقینی بنائے گا۔
"اس کے بعد انہوں نے زور دے کر کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق اور عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا جلد از جلد حل بہت ضروری ہے۔
پاکستان کی طرف سے سفارتی تعلقات بہتر کرنے پر کابل کا خیرمقدم
ان کا کہنا تھا، "بھارتی پالیسیوں کے مد نظر۔۔۔ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کے سبب عالمی طاقتوں کو دشمنی کو موثر طور پر ختم کرانے کے لیے مداخلت کرنے کا کافی وقت بھی نہیں دے سکیں گی۔
نقصان اور تباہی سے بچانے کے لیے شاید ان کوششوں کو بہت دیر ہو چکی ہو گی۔" مسئلہ کشمیر تنازعے کا مرکزی موضوعمرزا نے کہا کہ "جب کوئی بحران نہیں ہوتا ہے، تو کشمیر پر کبھی بات تک نہیں کی جاتی ہے اور جیسا کہ ہم ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ یہ کشمیر کے لوگوں کی امنگوں کے مطابق اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ کشمیر کا حل ہے، جو بہت سے مسائل کو حل کر دے گا۔
"انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور بھارت کے درمیان رہ جانے والا مرکزی مسئلہ کشمیر ہے۔"
مرزا نے کہا کہ جب تک دونوں ممالک "تنازعات کے حل میں داخل نہیں ہوتے"، مسائل یونہی "ہمیشہ پھوٹتے رہیں گے۔"
مستقبل کی کسی بھی پاکستانی جارحیت کا جواب بھارتی بحریہ دے گی، راج ناتھ سنگھ
پاکستان کے اعلیٰ فوجی جنرل نے مزید کہا کہ فوجی تنازعے کے بعد، "جنگ کے دہانے تک پہنچے کی حد خطرناک حد تک زیادہ ہو گئی ہے، جس سے اب صرف متنازعہ علاقوں تک ہی نہیں بلکہ پورے بھارت اور پاکستان کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے۔
"مرزا نے زور دے کر کہا، "مغرب کی طرف سے بھارت کو خالص سکیورٹی فراہم کنندہ کے طور پر دیکھنے کی وجہ سے، بھارت کو جہاں تقویت ملتی ہے، وہیں علاقائی بالادستی بننے کی اس کی خواہش بھی اسے تنازعات کے انتظام کے اختیارات میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہی ہے۔"
مرزا نے یہ بھی کہا کہ حالیہ پاک بھارت فوجی تصادم کے بعد اسٹریٹجک استحکام کی دہلیز کو "خطرناک سطح" تک کم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا، "ہم جو روایتی جنگ کی بات کرتے ہیں، اس کے تھیرشولڈ میں نمایاں طور کمی آ گئی ہے۔"پاکستانی وفد تجارتی مذاکرات کے لیے امریکہ آئے گا، ٹرمپ
واضح رہے کہ بھارت کے زیر انتظام متنازعہ خطے کشمیر کے پہلگام میں 22 اپریل کو حملہ ہوا تھا، جس میں 26 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جبکہ اسلام آباد اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے اور اس نے اس کی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم بھارت نے اس الزام کے تحت ہی پاکستان کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے، جس کا پاکستان نے بھی جواب دیا اور دونوں میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی تھی۔ پھر امریکہ کی ثالثی کے بعد دونوں نے دس مئی کو جنگ بندی کا اعلان کیا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مسئلہ کشمیر پاکستان کے تنازعات کے اور بھارت کے درمیان بھارت کے انہوں نے کے مطابق کے بعد کے لیے نے کہا کی طرف کہا کہ
پڑھیں:
مرزا رسول جوہؔر کی یاد میں
ہم سب دوست اس بات پر متفق ہیں مرزا رسول جوہؔر کم از کم 50 کے پیٹے میں ہیں مگر وہ خود کو نہ صرف سفید بالوں والا نوجوان سمجھتے ہیں بلکہ اپنی تھوڑی بہت میڈیکلی خفت کا ذمہ دار شوگر کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ انسولین کا انجیکشن انہیں رات گئے تک تو ہشاش بشاش رکھتا ہے مگر اندھیرا گہرا ہوتے ہی شوگر تمام اعضا کو معطل کرکے رکھ دیتی ہے۔
مرزا صاحب غالباً سات برس قبل میدانِ صحافت میں آئے تھے جب وہ بجلی میٹر کی ریڈنگ پیچھے کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور جبری برطرف کردیے گئے۔ ان کے معاشی حالات سے باخبر افسر تعلقات عامہ نے خاص تعلقات استعمال کرتے ہوئے انہیں اخبار میں پروف ریڈر رکھوا دیا۔ یوں چند ہی دنوں میں وہ میٹر ریڈر سے پروف ریڈر بن گئے۔
ان کا پروف شدہ مسودہ پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے دال کھاتے ہوئے اس میں بار بار کنکر آ جائیں۔ ابھی پروف ریڈنگ میں ان کی مہارت کا سکہ بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ انہیں بطور سب ایڈیٹر نیوز ڈیسک پر بیٹھنے کا موقع مل گیا۔
قصہ یوں ہے کہ ایک نیا اخبار مارکیٹ میں آنے سے سب ایڈیٹرز کا ایک باغی جتھہ وہاں چلا گیا لہٰذا چند ٹرینی بھرتی کرکے اور مرزا رسول جوہؔر کی عمر رسیدگی کے دھوکے میں انہیں تجربہ کار سمجھتے ہوئے نئے میدان میں اتار دیا گیا مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ ان کا حوصلہ اس پرچم کی طرح بلند رہا جسے ہر روز بلند کردیا جاتا اور ہر شام کو اتار لیا جاتا ہے۔
صبح سے شام تک مسلسل اتار چڑھاؤ اور دھینگا مشتی میں انہوں نے سب ایڈیٹنگ پر اپنا ہاتھ صاف کرلیا۔ ان کی بنائی ہوئی چند یادگار سرخیاں آپ سے چھپانا مرزا رسول جوہؔر کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ ان سرخیوں نے انہیں اسٹاف میں یکدم مشہور کردیا تھا۔ نمونے کی چندسرخیاں:
’شیخ رشید نے گھر گھر الیکشن مہم کا آغاز شروع کر دیا‘
’آفریدی کی فلک بوس چھکوں اور زمین بوس چوکوں کی مدد سے سینچری‘
’نرگس عمرہ سے لوٹ آئیں، آج الحمرا میں پرفارم کریں گی‘
’برڈ فلو سے 4 چینی باشندے جاں بحق‘
جس روز آخری سرخی اخبار میں شائع ہوئی تو قارئین نے فون کرکے شکایت کی کہ جاں بحق صرف مسلمانوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ایڈیٹر صاحب نے ان کی سرزنش کی تو مرزا رسول جوہؔر نے دل ہی دل میں ادارہ چھوڑ دینے کی ٹھان لی تھی اور ڈیڑھ ماہ بعد ہی بالوں میں اتری چاندی کی بدولت دوسرے روزنامے میں رپورٹر ہو گئے۔
مرزا کی بطور رپورٹر تقرری بذات خود بریکنگ نیوز تھی مگر ٹی وی چینلز بہت بعد میں آئے۔ بہر کیف یہاں بھی صورتحال حسب سابق ہی رہی انہیں ایک سیاسی شخصیت کا انٹرویو کرنے کا ٹاسک ملا تو مرزا صاحب نے سوالنامہ تیار کیا اور فوٹو گرافر کے ہمراہ انٹرویو لینے پہنچ گئے چند ابتدائی اہم سوالات یوں تھے:
سوال: موجودہ سیاسی حالات میں قائداعظم کے 14 نکات کی اہمیت و افادیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
سوال: اگر آپ اس مرتبہ بھی الیکشن ہار گئے تو اسے دھاندلی قرار دیں گے یا اپنی پرانی پارٹی میں واپس چلے جائیں گے؟
سوال: جونیجو کی نئی روشنی اسکیم کا مشرف کی روشن خیالی سے موازنہ کریں؟
اس پر وہ صاحب زچ ہو کر بولے یا تو آپ انٹرویو کی تیاری نہیں کرکے آئے یا پھر آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ مرزا رسول جوہؔر نے صورتحال کو سنبھالا دیا اور سوالات کا رخ پسند و ناپسند کی جانب موڑتے ہوئے جیب سے ’نجی سوالنامہ‘ نکالا اور بالترتیب سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
نجی سوالات میں تیسرا اور چوتھا سوال جو سوالنامے کے عین مطابق تھے کچھ یوں کیے گئے جو بمعہ جواب درج ہیں:
سوال: ٹی وی دیکھتے ہیں؟
جواب: جی نہیں، ٹی وی دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
سوال: آپ کا پسندیدہ ڈرامہ کون سا ہے؟
اس سوال کے بعد انٹرویو اختتام کو پہنچ گیا۔ مرزا رسول جوہؔر نے فوٹو گرافر سے صورتحال پر خاموشی اختیار کرنے کی درخواست کی اور دفتر میں صاحب انٹرویو سے وقت نہ ملنے کا بہانہ کردیا۔ (یاد رہے اس واقعے بشمول اگلے واقعات کے راوی فوٹو گرافر صاحب ہی ہیں۔ حالانکہ صحافت میں سورس نہیں بتایا جاتا لیکن مرزا رسول جوہؔر کے معاملے میں سورس چھپایا جائے تو واقعات من گھڑت لگتے ہیں)۔
فوٹو گرافر کے مطابق دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے’8 اکتوبر 2005کے زلزلے پر ایک ماہر ارضیات سے انٹرویو کا وقت لیا گیا۔ زلزلے کے حوالے سے کئی سوالات زیر بحث آئے۔ انٹرویو دینے والے صاحب پٹھان تھے اور مشکل سے اردو بولتے تھے۔
مرزا صاحب نے انٹرویو کا اختتام ان الفاظ سے کیا، ان تمام سوالات، ان کے جوابات اور سیرحاصل گفتگو سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ کا تعلق صوبہ سرحد (خیبرپختونخوا) سے ہے؟ بقول فوٹو گرافر وہ اس منطق پر پریشان تھے کہ خان صاحب اس اخذ شدہ نتیجے پر برہم ہی نہ ہو جائیں مگر وہ اس وقت حیران رہ گئے جب خان صاحب سیٹ سے اٹھ کر آگے بڑھے اور مرزا سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ’آفرین ہے آپ نے خوب پہچانا، میرا تعلق چارسدہ سے ہے۔‘
ایک واقعے کا میں خود عینی شاہد بلکہ کردار ہوں۔ ایک مرتبہ مرزا رسول جوہؔر نے کوئی تقریب کور کی مگر فوٹو گرافر سے ٹائمنگ سیٹ نہ ہو سکی۔ اس پر انہوں نے کسی دوسرے اخبار کے فوٹو گرافر سے تصاویر بذریعہ انٹرنیٹ ای میل کرنے کی درخواست کی۔ اس دوران مرزا نے میرے سامنے بھی اس فوٹو گرافر کو SMS بھیجے۔
کچھ دیر بعد دوران گفتگو مرزا رسول جوہؔر کو ایک میسج موصول ہوا جسے پڑھتے ہی انہوں نے بڑبڑانا شروع کردیا اور فوٹو گرافر کو سخت برا بھلا (گالیاں) کہا، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’یار اس بے وقوف نے 500 روپے نقد لیکر بھی تصاویر مجھے ای میل کرنے کے بجائے APPکو میل کردی ہیں۔
بولے اب کونAPP (ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان) جا کر تصاویر لائے۔ میں نے انہیں میسج دکھانے کے لیے کہا، فوٹو گرافر کا مسیج پڑھ کر مجھے ہنسی آئی مگر میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے مرزا رسول جوہؔر سے ان کی ای میل آئی ڈی اور پاس ورڈ (بقول ان کے کوڈ) پوچھا اور تصاویر اوپن کرکے انہیں دکھا دیں۔ اس پر مرزا بھی حیران رہ گئے۔ وہ یادگار میسج یوں تھا:
App Ko Tsaveer Mail Kar Di Hain
مرزاAPP یعنی آپ کو ’اے پی پی‘ پڑھ کر مشتعل ہو گئے تھے۔ عقدہ کھلنے پر مرزا نے کھسیانی بلی کی مانند، شوگر کو بطور کھمبا نوچتے ہوئے سارا ملبہ اسی پر گرا دیا۔
مرزا خود کو 18، 20 برس سے صحافت کی دنیا کا راہی بتاتے ہیں مگر یہ پول بھی اس وقت کھل گیا جب مرزا رسول جوہؔر صحافیوں کو پلاٹ ملنے کے لیے 10 سالہ تجربے کی شرط بھی پوری نہ کرسکے لیکن مرزا نہایت ڈھٹائی سے اسے سینیئر صحافیوں کی سازباز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ساتھی پروف ریڈر بھی موجود ہیں جن کے ساتھ انہوں نے اس وادی پرخار میں قدم رکھا مگر مرزا رسول جوہؔر بضد ہیں کہ ان کے گاؤں والے صحافتی تجربے کو ڈال کر اتنے برس بن ہی جاتے ہیں۔
مرزا رسول جوہؔر کے اور بھی کئی دلچسپ واقعات ہیں، ان شاء اللہ آئندہ کسی ملاقات پر ان کا ذکر اٹھا رکھتے ہیں۔ ویسے بھی وہ آج کل پرنٹ میڈیا سے تنگ آ کر الیکٹرانک میڈیا میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ ’یار زندہ صحبت باقی‘
پسِ تحریر: ان کا اصل نام مرزا رسول گوہر تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تو پہلی بار علامہ اقبال کے ’جوابِ شکوہ‘ کا یہ شعر سنتے ہی گوہر کو جوہؔر کرلیا تھا۔
’تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں