’جیسے کو تیسا‘ پاکستان کے ویمنز ورلڈ کپ میچز بھارت کی بجائے سری لنکا منتقل
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم رواں سال ویمنز ورلڈ کپ میں اپنے میچز بھارت کے بجائے سری لنکا میں کھیلے گی۔ یہ فیصلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ تعلقات میں جاری کشیدگی کے تناظر میں کیا گیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملک میں کھیلنے سے گریز کر رہے ہیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے رواں سال کے آغاز میں ایک ہائبرڈ ماڈل متعارف کرایا تھا، جس کے تحت چیمپیئنز ٹرافی سمیت تمام مشترکہ ٹورنامنٹس میں کسی بھی ملک کی ٹیم میزبان ملک کے بجائے کسی تیسرے نیوٹرل مقام پر میچ کھیل سکتی ہے۔
اسی ماڈل کے تحت ویمنز ورلڈ کپ 2025 میں پاکستان کے گروپ میچز سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں منعقد ہوں گے۔ ان میچز میں پاکستان کا بھارت اور انگلینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف مقابلہ بھی شامل ہے۔ اگر پاکستان سیمی فائنل یا فائنل تک رسائی حاصل کرتا ہے تو ان میچز کی میزبانی بھی کولمبو کرے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان ویمنز ٹیم نے تھائی لینڈ کوشکست دے کر آئی سی سی ورلڈ کپ 2025 کے لیے کوالیفائی کرلیا
دوسری جانب بھارتی شہر بنگلورو ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ اور ممکنہ فائنل (اگر پاکستان فائنل میں نہ پہنچا) کی میزبانی کرے گا، جبکہ گوہاٹی، اندور اور وشاکھاپٹنم دیگر میزبان شہروں میں شامل ہوں گے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نے رواں برس اپریل میں واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ قومی خواتین ٹیم بھارت کا دورہ نہیں کرے گی۔ ان کے بقول یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے میچز کہاں منعقد کرتا ہے۔
ٹورنامنٹ 30 ستمبر سے 2 نومبر تک جاری رہے گا۔ آسٹریلیا موجودہ عالمی چیمپیئن ہے، جس نے پچھلے ویمنز ورلڈ کپ کے فائنل میں انگلینڈ کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور بنگلہ دیش نے ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ 2025 کے لیے کوالیفائی کرلیا
ماہرین کے مطابق سری لنکا میں میچز کی میزبانی کا ایک ممکنہ چیلنج موسم ہو سکتا ہے، کیونکہ اکتوبر وہاں نمی کے بلند ترین مہینوں میں شمار ہوتا ہے، جو میچز میں خلل ڈال سکتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی سے قبل بھی دونوں ممالک صرف آئی سی سی یا اے سی سی ایونٹس میں ایک دوسرے کے خلاف کھیلتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت مزید کشیدہ ہو گئے جب بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آنے سے انکار کر دیا اور اپنے میچز دبئی میں کھیلے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھارت پاکستان پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم پی سی بی سری لنکا ویمنز ورلڈ کپ 2025.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل بھارت پاکستان پی سی بی سری لنکا ویمنز ورلڈ کپ 2025 ویمنز ورلڈ کپ پاکستان کے ورلڈ کپ 2025 سری لنکا کے لیے
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔