حماس کیساتھ جھڑپ میں ایک اور اسرائیلی فوجی ہلاک؛ تعداد 4 ہوگئی، 6 زخمی
اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT
غزہ میں حماس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور 4 اہلکار زخمی ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ غزہ کے شمالی علاقے میں حماس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔
پہلے واقعے میں غزہ کے شجاعیہ محلے میں گشت کے دوران اچانک گلی کے ایک کونے سے فلسطینی بندوق بردار نوجوان نے خودکار ہتھیار سے اسرائیلی فوجیوں پر گولیاں برسا دیں۔
حملہ آور فائرنگ کے بعد بآسانی فرار ہوگیا جب کہ اس حملے میں ایک فوجی اہلکار موقع پر ہی ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا۔
ہلاک ہونے والے فوجی کی شناخت ماسٹر سارجنٹ (ریزرو) 27 سالہ الون فارکاس کے نام سے ہوئی ہے۔
دوسرے واقعے میں غزہ کے قریبی علاقے جبالیہ میں حماس کے ایک ڈرون حملے میں 3 اسرائیلی فوجی زخمی ہوگئے جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز بھی جبالیہ میں ایک سڑک کنارے نصب بم پھٹنے سے تین اسرائیلی فوجی ہلاک اور 2 زخمی ہو گئے تھے۔
اس طرح صرف دو روز میں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 4 ہوگئی جب کہ 6 اہلکار زخمی ہیں۔
آج ایک اور فوجی کی ہلاکت سے غزہ میں حماس کیساتھ دو بدو جھڑپوں میں مارے گئے اسرائیلی فوجیوں کی مجموعی تعداد 425 ہوگئی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 18 مارچ 2025 کو دو ماہ کی جنگ بندی کو یک طرفہ طور پر ختم کرکے غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
تب سے لے کر اب تک غزہ میں اسرائیلی فوج کے 5 ڈویژنز تعینات کیے گئے ہیں جس کا مقصد حماس کو ختم کرکے شہر میں کسی نئی جماعت یا قیادت کو اقتدار دینا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوجی
پڑھیں:
غزہ: حصول خوراک کی کوشش میں 67 مزید فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی امدادی ٹیموں نے بتایا ہے کہ غزہ میں بھوک اور تباہی پھیلی ہے جہاں گزشتہ روز خوراک کے حصول کی کوشش میں 67 افراد اسرائیل کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔
عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق، گزشتہ روز ہلاک ہونے والے لوگ اسرائیل کے ٹینکوں، نشانہ بازوں اور دیگر کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 25 ٹرکوں پر مشتمل امدادی قافلہ زکم کے سرحدی راستے سے شمالی غزہ میں داخل ہوا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں نے ٹرکوں سے خوراک اتارنے کی کوشش کی تو ان پر فائرنگ شروع ہو گئی جس میں درجنوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ Tweet URL'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ ہلاک و زخمی ہونے والے لوگ اپنے اور بھوک سے ستائے خاندانوں کے لیے صرف خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
(جاری ہے)
یہ واقعہ اسرائیل کی اس یقین دہانی کے باوجود پیش آیا کہ غزہ میں امداد کی تقسیم کے حالات کو بہتر بنایا جائے گا اور امدادی قافلے کے ساتھ کسی بھی مرحلے پر مسلح فوج موجود نہیں ہو گی۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ اس وقت غزہ کے تمام لوگ موت کے گھیرے میں ہیں جہاں ان پر بم برس رہے ہیں جبکہ بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ادارے کے طبی مراکز پر معالجین اور طبی عملہ روزانہ اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کو بھوک سے ہلاک ہوتا دیکھتے ہیں اور ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس زندگی کو تحفظ دینے کے لیے درکار وسائل نہیں ہیں۔
دیرالبلح سے انخلا کے احکاماتوسطی غزہ کے علاقے دیرالبلح میں اسرائیل کی جانب سے دیے جانے والے انخلا کے احکامات نے 50 تا 80 ہزار لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
7 اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب اس علاقے سے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا گیا ہے۔'انروا' کے مطابق، ان احکامات کے تحت لوگوں کو دیرالبلح سے سمندر کے کنارے تک تمام خالی کرنا ہوں گے۔ اس طرح اقوام متحدہ اور امدادی شراکت داروں کے لیے غزہ میں محفوظ اور موثر طور سے اپنی سرگرمیاں انجام دینا ممکن نہیں رہےگا۔ علاقے میں اقوام متحدہ کا عملہ بہت سی جگہوں پر موجود ہے جس کے بارے میں متحارب فریقین کو مطلع کر دیا گیا ہے اور ان لوگوں کو جنگی کارروائیوں سے تحفظ ملنا چاہیے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے ٹینک شہر کے جنوبی اور مشرقی حصوں کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنائے گئے بعض یرغمالی ممکنہ طور پر موجود ہو سکتے ہیں۔
بقا کی جدوجہداس وقت غزہ کی 21 لاکھ آبادی ایسی جگہوں پر محدود ہو کر رہ گئی ہے جہاں ضروری خدمات وجود نہیں رکھتیں جبکہ اس میں بہت سے لوگ پہلے ہی کئی مرتبہ بے گھر ہو چکے ہیں۔
ہنگامی امدادی امور کے لیے 'انروا' کی اعلیٰ سطحی عہدیدار لوسی ویٹریج نے کہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس فرار کی کوئی راہ نہیں۔ نہ تو وہ غزہ کو چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ غزہ میں خوراک دستیاب نہیں ہے اور پینے کا صاف پانی بھی بہت معمولی مقدار میں میسر ہے۔ بچے غذائی قلت اور پانی کی کمی کا شکار ہیں جو اپنے والدین کی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہو رہے ہیں۔ علاقے میں بمباری مسلسل جاری ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر امداد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔