بھینس، بھینسا اور یاک جیسے جانوروں کی قربانی جائز: چیئرمین اسلامی نظریہ کونسل
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) اسلامی نظریہ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا ہے کہ قربانی محض ایک رسم یا معاشرتی روایت نہیں بلکہ قربِ الہٰی کا اہم ذریعہ ہے اور بھینس، بھینسا اور یاک جیسے جانور گائے اور بیل کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کی قربانی شرعاً بالکل جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چونکہ بھینس جزیرہ عرب میں نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے اس کا تذکرہ نہیں ملتا مگر دنیا کے دیگر حصوں میں یہ رائج ہے اور شریعت کے دائرے میں آتی ہے۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے کہا کہ اگر کوئی خاتون مال دار ہے تو وہ خود بھی قربانی دے سکتی ہے اور کسی دوسرے کی طرف سے بھی قربانی کر سکتی ہے، اسی طرح اگر کسی شخص کا انتقال ہو چکا ہو تو اس کے عزیز و اقارب اس کی طرف سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کر سکتے ہیں۔ افضل طریقہ یہی ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ غرباء و مساکین کے لیے، دوسرا عزیز و اقارب کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے لیے رکھا جائے۔ تاہم اگر کسی کا خاندان بڑا ہے تو وہ پورا گوشت اپنے گھر میں استعمال کر سکتا ہے۔ آن لائن قربانی شرعی طور پر جائز ہے بشرطیکہ ادارہ قربانی کرنے والے کا شرعی وکیل ہو اور قربانی تمام اصولوں کے مطابق کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل بیرون ملک مقیم افراد اور وہ لوگ جو منڈی جانے یا قصائی کا انتظام کرنے سے قاصر ہیں، آن لائن قربانی کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص نصاب کا مالک ہے لیکن وقتی طور پر اس کے پاس نقد رقم موجود نہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کر سکتا ہے، تاہم اس پر لازم ہوگا کہ قرض کو جلد از جلد ادا کرے۔ کھال کسی غریب، مستحق فرد، مدرسے یا فلاحی ادارے کو دی جا سکتی ہے لیکن اسے قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں۔ مدارس قربانی کی کھال کے لیے سب سے موزوں ادارے ہیں۔ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے واضح کیا کہ قربانی ہر سال صاحب نصاب پر واجب ہے اور اس کی جگہ صدقہ کرنا جائز نہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے منگل کے روز پاکستان کے زیر اہتمام اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا ہے۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت نیویارک کے دورے پر ہیں اور انہیں کے زیر صدارت اجلاس کے دوران "تنازعات کے پرامن حل کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے" والی (قرارداد 2788) پیش کی گئی اور پھر کھلی بحث کے دوران منظور کر لی گئی۔
قرارداد میں کیا ہے؟اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے وہ تنازعات سے بچنے کے لیے احتیاطی سفارت کاری، ثالثی اور بات چیت کا راستہ استعمال کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت پرامن تنازعات کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔
(جاری ہے)
قرارداد میں علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے درمیان قریبی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ تنازعات کو بات چیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے اجلاس میں کیا کہا؟جولائی کے مہینے میں سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس اجلاس کی صدارت کی اور بحث کے دوران قرار داد کی منظوری کو "تصادم پر سفارت کاری کے لیے عالمی عزم کی اجتماعی توثیق" قرار دیا۔
"کثیر جہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا" کے عنوان پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کثیرالجہتی "محض سفارتی سہولت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "تنازعات کا پرامن تصفیہ صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات، جغرافیائی سیاسی رقابتیں اور چن چن کر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ صرف بین الاقوامی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کثیر جہتی اداروں میں اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کا ان کی "تعمیری مصروفیت" کے لیے شکریہ ادا کیا اور قرار داد کی متفقہ منظوری کو "تنازعات کی روک تھام کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی ارادے کا خوش آئند اظہار" قرار دیا۔
کشمیر کا تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل ہوتنازعہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پاکستان کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ "تنازعہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانی چیزوں میں سے ایک" ہے۔
انہوں نے کہا کہ "کوئی کاسمیٹک اقدام کشمیری عوام کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن وہ نئی دہلی سے بھی "باہمی تعاون اور اخلاص" کی توقع رکھتا ہے۔
ڈار نے نئی دہلی کی جانب سے سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور اسے "غیر قانونی اور یکطرفہ" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پرانا معاہدہ "کامیاب سفارت کاری کا نمونہ" ہے اور بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 240 ملین پاکستانیوں کے لیے ضروری پانی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کئی تنازعات کی جڑ کے طور پر "کثیرالجہتی کے بحران" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ اصولوں کا نہیں بلکہ سیاسی ارادے کا ہے، اداروں کا نہیں بلکہ ہمت کا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ دوہرے معیار اور انسانی اصولوں پر سیاست کرنے سے مجروح ہوئی ہے۔"اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے بیان بازی کے بجائے ٹھوس کارروائی پر زور دیا۔ "اس بحث کو کثیرالجہتی میں ہمارے ایمان کے اثبات کے طور پر کام کرنے دیں اور ان لوگوں سے ایک پختہ وعدہ کریں جو اس کونسل کی جانب محض الفاظ کے لیے نہیں، بلکہ عمل کے لیے نظریں لگائیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر بات چیت کے پلیٹ فارم، انصاف اور پائیدار امن فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر، ہمیں اسے مزید متعلقہ بنانا چاہیے۔" بھارت کی پاکستان پر تنقیداس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے اور امن فوج میں خواتین کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔"بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
انہوں نے کہا، "بھارت برصغیر میں ترقی اور خوشحالی اور ترقی کے ماڈلز کے طور پر ایک بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے۔"
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "قوم کے خیالات اور فریقین کی رضامندی تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں"، بھارتی سفارت کار نے نتیجہ اخذ کیا کہ "بھارت کثیرالجہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔"
انہوں نے اقوام متحدہ کے کام کاج کے طور طریقوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "ہم ایک ایسے وقت میں ہیں، جہاں کثیرالجہتی نظام، خاص طور پر اقوام متحدہ کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر