ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
جدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تبدیل کر دیا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے جس طرح جسمانی طور پر لباس اور حجاب کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح ڈیجیٹل دنیا میں بھی پردے کے اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ Digital Hijab یا Virtual Hijab اسلامی سماج کا ایک ایسا اہم اشو بن چکا ہے، جس پر غور و فکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان سائنسی ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ معلومات کی دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی سی اسکرین میں قید ہو گئی ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ویڈیو چیٹ، لائیو اسٹریم اور دیگر جدید ذرائع نے فاصلے مٹا دیے ہیں، مگر ان سہولیات کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا اخلاقی و روحانی بحران بھی جنم لے چکا ہے اور وہ ہے ڈیجیٹل بے حیائی اور فحاشی کا طوفان بدتمیزی۔ ہم انسانی زندگی کے ایک ایسی تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں جس کی رفتار بہت تیز ہے، مگر آواز بہت مدھم۔ یہ وہ انقلاب ہے جس نے انسان کے طرزِ زندگی، سوچنے کے انداز، حتیٰ کہ اس کی شرم و حیا کے پیمانے تک بدل ڈالے ہیں۔ پہلے بے حیائی کی طرف جانے کے لیے قدم اٹھانا پڑتا تھا، اب صرف کلک کرنا کافی ہے۔ پہلے گناہ چھپ کر کیا جاتا تھا، اب وہی گناہ فخر کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں اور وہ بھی لائکس اور کمنٹس کی طلب کے ساتھ۔ سوشل میڈیا پر لڑکے لڑکیوں کی پروفائلز، فیشن شوٹ جیسی تصاویر، نازیبا ویڈیوز، غیر اخلاقی میمز، غیر محرموں سے دوستانہ گفتگو، لائیو سیشنز اور چیٹ رومز، یہ سب کچھ اب “نارمل” سمجھا جاتا ہے۔ اسے تفریح، آزادیٔ اظہار یا سوشل نیٹ ورکنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر درحقیقت یہ روحانی زوال اور اخلاقی انحطاط کا ایک ایسا گڑھا ہے جس میں پوری نسلِ نو دھکیلی جا رہی ہے۔ بحیثیت مسلمان قرآن و سنت کی روشنی میں ہم غور کریں تو اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے:(سورۃ النور: 30)
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یہ حکم صرف بازاروں، دفاتر یا میل جول کی مجالس تک محدود نہیں، بلکہ جدید دنیا کے ہر پلیٹ فارم، ہر اسکرین اور ہر کلک پر لاگو ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جب ہم تنہائی میں موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ (صحیح بخاری) جب ایمان کا یہ شعبہ آنکھوں، الفاظ، خیالات اور کلکس کے ذریعے پامال ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ ایمان کی بنیادوں میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ ڈیجیٹل پردے کا مفہوم یہ ہے کہ پردہ صرف جسم کو کپڑوں سے ڈھانپنے کا نام نہیں، بلکہ نگاہوں، خیالات، الفاظ اور تعلقات کی حدود کے خیال رکھنے کا نام بھی ہے۔”ڈیجیٹل پردہ” ایک جامع تصور ہے جس کے بنیادیعناصریہ ہیں:1.
مسلمانوں کے اختیار و اقتدار کا کردار بھی افسوسناک حد تک مجرمانہ ہو چکا ہے۔ نیم برہنہ فلمیں اور ڈرامے فحاشی و عریانی کو معمول کا حصہ بنا چکے ہیں۔ اشتہارات میں بے حیائی کا عنصر اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ اب شرم بھی شرما جائے۔ روز بروز ماحول اس قدر پراگندہ ہوتا جا رہا ہے کہ جس میں غیرت کا جنازہ نکل رہا ہے اور بات قتل و غارت گری تک آ پہنچی ہے۔۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر اس عریانی اور فحاشی کے خلاف ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی تشکیل دیں۔ انفرادی سطح پر ہم خود حیا و غیرت کے ضابطے اپنائیں، اپنی آن لائن شناخت کو اسلامی اقدار کے تابع بنائیں۔ اپنے گھروں میں ڈیجیٹل استعمال پر حدود و قیود مقرر کریں۔ اسی طرح علما، والدین، اساتذہ اور دانشوروں پر لازم ہے کہ وہ مسلسل اس موضوع پر قومی شعور بیدار کریں۔ مساجد کے جمعہ خطبات میں اس فتنہ کو موضوع سخن بنایا جائے۔ ریاستی و قانونی سطح پر میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر فحاشی پھیلانے والے مواد کی باضابطہ مانیٹرنگ کا اہتمام ہو۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات اور “ڈیجیٹل حیا” کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے خاموش رہے کہ طوفان خود ہی تھم جائےگا، یہی کرتے کرتے اگر ہم نے اپنی نسلوں کو اس بے حیائی کے سپرد کر دیا، تو وہ دن دور نہیں جب ہماری نوجوان نسل صرف ٹرینڈنگ ویڈیوز کی پرستار رہ جائے گی اور ایمان، شرم و حیا اور غیرت صرف کتابوں میں باقی رہ جائے گی۔ مورخ ہماری بے حسی کو یوں رقم کرے گا کہ “یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن مجید، آخرت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے باوجود لائکس، ویوز اور شہرت کے چند لمحوں کی خاطر اپنی غیرت، حیا اور ایمان کا سودا کر دیا تھا، آج کے نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے، لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈیجیٹل زندگی بھی آخرت میں جواب دہی کا حصہ ہوگی۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے بامقصد استعمال کے آداب سکھائیں اور انہیں بتائیں کہ جو کچھ آن لائن ڈالا جاتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ہر لائک، شیئر اور کمنٹ پر آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔غیر محرموں کے سامنے اپنی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنا گویا اپنی عزت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ مرد و عورت کی آزادانہ بات چیت اور تصاویر کا تبادلہ فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔ گھر کے اندرونی معاملات یا رشتوں کے جذبات کو سوشل میڈیا پر بیان کرنا شرعی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ بے مقصد چیٹنگ، ریئلز اور ویڈیوز میں وقت ضائع کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اب تو اس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر اور کبھی عشق و محبت کی آڑ میں کئی قتل ہوچکے۔ چند دن قبل ثنا یوسف نامی ایک بچی کا اسلام آباد میں افسوس ناک قتل ہوا۔ اس کی تفتیش اور قاتل تک پہنچنا اور اسے سزا دینا عدالتوں کا کام ہے۔ البتہ ہم کہیں گے کہ ثناء یوسف کا کنفرم قاتل “معاشرے کی بے راہ روی ہے اور مادر پدرآزادی ہے” یہ بھی یاد رہے کہ ڈیجیٹل پردہ کوئی نیا قانون نہیں، بلکہ اسلام کے قدیم اصولوں کا جدید اطلاق ہے۔ جس طرح بازار یا دفتر میں حجاب اور شرعی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دنیا میں بھی حیا اور تقویٰ کو اپنانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و دنیا کی بھلائی کی توفیق عطا فرمائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا ضروری ہے بے حیائی جاتا ہے کا پردہ چکا ہے
پڑھیں:
کوریئر سروس کا نمائندہ بن کر شہریوں سے دھوکا دہی، پی ٹی اے نے خبردار کر دیا
کوریئر سروس کا نمائندہ بن کر فراڈ کرنے والوں کے خلاف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کارروائی شروع کر دی۔
ترجمان پی ٹی اے کے مطابق شہری کوریئر سروسز کے نمائندے کی جانب سے موصول پیغامات سے ہوشیار رہیں، اتھارٹی کی جانب سے عوام الناس کو ایسے جعلی پیغامات سے محتاط رہنے کو کہا جاتا ہے۔
کوریئر سروسز کے نمائندے کی جانب سے صارف کو فون کال کے ذریعے ویریفکیشن کوڈ سے متعلق معلومات طلب کی جا رہی ہیں۔
ایس ایم ایس یا میسجنگ ایپس کے ذریعے موصول ہونے والا کوئی بھی کوڈ کسی کے ساتھ ہر گز شیئر نہ کریں کیونکہ یہ کوڈ آپ کے اکاؤنٹس یا ڈیجیٹل شناخت تک غیر مجاز رسائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مستند کوریئر کمپنیاں پارسل کی ترسیل کے لیے صارفین سے کسی قسم کے کوڈ سے متعلق معلومات طلب نہیں کرتیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی اے صارفین کو ڈیجیٹل فراڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہے، عوام الناس سے گزارش ہے کہ کسی بھی پیغام پر عمل کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضرور کریں۔