وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 06 جون 2025ء ) وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیاہے۔اے آروائی نیوز کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 13، 13لاکھ مقرر کردی گئی۔اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا اطلاق یکم جنوری 2025ء سے ہوگا، وزارت پارلیمانی امور نے تنخواہوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی اس سے پہلے تنخواہ 2 لاکھ 5ہزار روپے تھی۔اس سے قبل ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں بھی 5لاکھ 19ہزار روپے اضافے کی منظوری دی گئی تھی۔(جاری ہے)
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اس سال بھی تنخواہ دار طبقے نے 499 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا جبکہ جاگیردار طبقے نے چار، پانچ ارب سے زیادہ ٹیکس جمع نہیں کرایا، ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک لاکھ 25 ہزاز ماہانہ تنخواہ والے کو ٹیکس سے استشنیٰ دیا جائے، بجلی کی قیمتوں میں کمی مستقل بنیادوں پر کی جائے، بجلی کی پیداواری لاگت کے حساب سے عوام سے بل وصول کیے جائیں اور بجلی کے بنیادی ٹیرف میں کمی کی جائے۔ حکومت تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کم کرنے کے بجائے بڑھا رہی ہے، ملک میں موجود پروفیشنلز ڈاکٹر ز، انجینئرز، بزنس ایڈ منسٹریشن کے لوگوں کے لیے ملک سے باہر بھی مواقع ہوتے ہیں اگر ان کی تنخواہیں بڑھانے کے بجائے ان پر ٹیکس بڑھا یا جائے گا تو وہ ملک میں کیوں رکیں گے، پروفیشنل لوگوں کو باہر جانے پر مجبور نہ کیا جائے، تنخواہ دار لوگوں پر ٹیکس کے سارے نظام پر نظر ثانی کی جائے۔انہوں نے کہا کہ بجلی پر 7روپے 41 پیسے کمی کی گئی ہے لیکن یہ کمی ٹیرف میں کیوں نہیں کی جارہی؟ کمی مستقل بنیاد پرہونی چاہیے اور یہ 7 روپے 41پیسے کمی کچھ بھی نہیں ہے اگر ایوریج بجلی کی قیمت دیکھیں تو 13,12 روپے سے زیادہ نہیں ہوتی، اسکا مطلب ہے کہ بجلی ہمارے پاس زیادہ بھی ہے اور اس زیادہ بجلی کا ہمارے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے، جو بجلی بن نہیں رہی ہم اس کے پیسے بھی اداکررہے ہیں اور وہ ہزاروں ارب روپے اداکررہے ہیں، آئی پی پیز کو ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا ہوا ہے، بجلی کا بل ایک دن کوئی جمع نہ کرائے تو بجلی کاٹ دی جاتی ہے اب میٹروں کا ایک نیا نظام متعارف کرانا شروع کردیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ عام صارفین سے ہر صورت میں لوٹ مار کر نا چاہتے ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تنخواہوں میں اضافے
پڑھیں:
زرعی ٹیکس کی وصولی سمیت بجٹ شرائط پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے: آئی ایم ایف
اسلام آباد (آئی این پی)عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے بجٹ کے حتمی مشاورتی مراحل میں پروگرام کی شرائط پر سختی سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، جس میں زرعی آمدنی پر ٹیکس کی صوبائی بجٹ میں شمولیت بھی شامل ہے، تاکہ اس کی موثر وصولی ستمبر 2025 سے پہلے شروع کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف نے وفاقی حکومت کے اضافی بجلی کی گنجائش کو استعمال کرنے کے لیے بجلی کے استعمال میں اضافے کی حوصلہ افزائی کے منصوبے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف صوبوں سے اخراجات پر کنٹرول کے لیے مضبوط وعدہ چاہتا ہے، حالاں کہ صوبوں نے ترقیاتی منصوبوں میں توسیع کی تجاویز دی ہیں، جنہیں نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی)نے منظور بھی کر لیا ہے، چاروں صوبے اگلے سال کے لیے آئی ایم ایف کے اندازوں سے تقریبا 850 ارب روپے زیادہ ترقیاتی اخراجات مختص کر چکے ہیں۔دوسری جانب مرکز کی محصولات میں کمی کی وجہ سے صوبے اس سال بجٹ سرپلس فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے، اور آئندہ مالی سال کے لیے اپنے حصص کو زیادہ سے زیادہ مختص کر رہے ہیں، تاکہ نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے آئندہ اجلاس سے پہلے اپنے مالی حقوق سے محروم نہ ہو جائیں۔آئی ایم ایف زرعی آمدنی پر مکمل عملدرآمد اور متعلقہ خدمات کا بھی خواہاں ہے، جس پر ابھی تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اتفاق نہیں ہو سکا، کیوں کہ مرکز کا ماننا ہے کہ کارپوریٹ زراعت اس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ذرائع کے مطابق حکام نے 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی کو کم قیمت پر بیچنے کی اجازت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، جس میں کسی سبسڈی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ اس قسم کے معاشی بگاڑ، بشمول ٹیکسیشن، مراعات، اور الائونسز نے ملک کو مشکلات میں ڈالا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ اضافی بجلی کو اگر نئے صارفین اور صنعتی شعبوں کو بیچنے کی اجازت دی جائے تو یہ معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہے، چاہے منافع کے بغیر ہی کیوں نہ ہو، مگر آئی ایم ایف اسے ان صارفین کے ساتھ ناانصافی سمجھتا ہے جو پہلے ہی بھاری نرخ ادا کر رہے ہیں۔یہ بھی غیر منصفانہ تصور کیا گیا کہ پرانے صنعتی یونٹس جو زیادہ پیداواری لاگت پر چل رہے ہیں، وہ ان نئی صنعتوں سے مقابلہ کریں، جو سستی بجلی پر چل رہی ہوں، حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں استحکام کے لیے لاگت میں کمی کی کوششیں جاری رکھے اور تمام صارفین کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔اس سلسلے میں یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت کا کرپٹو مائننگ کے لیے 2 ہزار میگاواٹ بجلی 3 سے 4 سینٹ فی یونٹ (یعنی 8-9 روپے) پر دینے کا منصوبہ کامیاب ہوسکے گا یا نہیں، کیوں کہ بنیادی نرخ 24 سے 25 روپے فی یونٹ ہیں۔آئی ایم ایف نے صوبوں کی جانب سے دی گئی بجلی اور گیس پر سبسڈی کی بھی مخالفت کی ہے، جیسا کہ رواں سال پنجاب نے یہ سبسڈی دی تھی، اور آئندہ سال بھی دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی، گیس چوری اور اسمگلنگ کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کی جائے، تاکہ مالی اور ٹیکس نقصان کم کیا جا سکے، اس حوالے سے، آئندہ سال صوبوں کو بھی اپنے محکموں میں کمی کرنا ہو گی تاکہ وہ وفاق کی اس سال کی جانے والی مشق کی حمایت کر سکیں۔اگلے سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس ہدف تقریبا 14 ہزار 200 ارب روپے پر قائم رہے گا، جیسا کہ چند ماہ قبل توسیعی فنڈ پروگرام کے پہلے جائزے میں طے پایا تھا، دیگر زیادہ تر اندازے بھی وہی رہیں گے۔تنخواہ دار طبقے کے لیے معمولی ٹیکس رعایت دی جائے گی، لیکن خوردہ شعبے سے وصولیوں پر زیادہ توجہ دی جائے گی، آئندہ سال کے بجٹ کا بنیادی موضوع ڈیجیٹائزیشن ہوگا، اور نقد و ڈیجیٹل لین دین کے لیے مختلف ٹیکس اور شرحیں لاگو کی جائیں گی۔