UrduPoint:
2025-09-17@23:26:28 GMT

'او چھوٹو‘ سے اس کا مستقبل کون چھین رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

'او چھوٹو‘ سے اس کا مستقبل کون چھین رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جون 2025ء) یوں تو ہر سال چائلڈ لیبر کے خلاف سیمنارز منعقد کیے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں مگر میرے خیال میں وہ سب محض ایک کیٹ واک اور شو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں چائلڈ لیبر کی فہرست والے ممالک میں چھٹے نمبر پر آتا ہے، جہاں ایک کروڑ سے زائد بچے محنت و مشقت کی چکی میں پِس رہے ہیں۔

پاکستان کے کچھ علاقے ایسے ہیں کہ جہاں سروے کرنا لنکا ڈھانے کے مترادف ہے جیسے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بہت سے دشوار گزار، پسماندہ اور خطرناک علاقے اور ان کے مضافات میں قبائلی علاقے۔ چونکہ ان علاقوں میں مفلسی کا گراف بہت زیادہ ہے اس لیے بلاتردد ان علاقوں میں چائلڈ لیبر بہت بڑی تعداد میں پائی جاتی ہو گی۔

(جاری ہے)

گہرے پانیوں میں ماہی گیری جیسے خطرناک پیشوں کے علاوہ ایک پوری فہرست ہے جو بچوں سے مزدوری کی بدترین اقسام کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔

مثلاً زیر زمین پتھروں کی کھدائی یا کان وغیرہ جس میں سانس گھٹنے کا خدشہ ہو یا جس میں بارودی مواد کی بلاسٹنگ کا خطرہ ہو۔ دباغت کے کام۔ تیز دھار والے آلات کی مینو فیکچرنگ جہاں ہوتی ہو وغیرہ وغیرہ۔

چائلڈ لیبر کی بنیادی وجہ مہنگائی اور وسائل کی کمی ہے۔ غربت کے سبب ماں باپ اپنے آٹھ آٹھ، دس دس سال کے بچوں کو قریبی شہروں میں کمانے کے لیے بھیج دیتے ہیں اور کوئی بھی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ معصوم بچے ہوٹلوں، چائے خانوں اور دیگر چھوٹی موٹی دکانوں میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

اسی طرح بہت سے بچوں کو ماں باپ شہروں میں کوئی ہنر سیکھنے کے لیے بھیج دیتے ہیں کہ "چلو کوئی ہنر سیکھ کے اچھے پیسوں والی نوکری مل جائے گی اور مستقبل میں لڑکا خود اپنی دکان لگا لے گا۔" مگر یہ بچے جب شہروں میں پہنچتے ہیں تو آگے ان کی مجبوری اور سستی لیبر کو دیکھ کر آٹو موبائل، الیکٹریکل اور لوہے کی دکانوں وغیرہ کے مالکان کی رالیں ٹپکنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ ان معصوم بچوں کی محنت کا شدید ترین استحصال کرتے ہیں۔

ان معصوم بچوں کو وہ مالکان دن بھر کی شدید محنت اور مشقت کے بعد معمولی سی دیہاڑی دے کر ساتھ یہ احسان بھی کر دیتے ہیں کہ وہ انہیں سکھا رہے ہیں اور سارا سارا دن ان سے شدید گرمی میں نا صرف دکان کا کام لیتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بادشاہ تصور کرتے ہوئے ان معصوم بچوں سے سارا دن فالتو کام جیسے بوتلیں، جوس یا چائے وغیرہ بھی منگواتے ہیں۔

بعض فرعونیت کے مارے انہیں تھپڑ بھی رسید کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔ یہ عمل آج کے عہد میں غلامی کی منظر کشی کرتا ہے۔

تلخ حقیقت ہے کہ زیادہ تر بچے سکول جانا اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ تعلیم کے اوپر روپیہ خرچ نہیں کر سکتے جبکہ وہی بچے اگر کسی جگہ کام کرنا شروع کر دیں تو وہ نہ صرف اپنے خاندان کا سہارا بن جاتے ہیں بلکہ افرادی قوت میں بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں جبکہ ماہرین معاشیات اس نقطے پر اختلاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے بچے جو مزدوری کرتے ہیں وہ اپنے خاندان کو مکمل طور پر سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے کیونکہ ان کی محنت کا معاوضہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتا ہے۔

محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش نہیں ہوتے اور ان کے چہرے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء کے ہوتے ہیں لیکن وسائل کی قلت کے باعث وہ معاشرے میں "چھوٹے" بن کر رہ جاتے ہیں۔ بڑے بھی ہو جائیں تب بھی "او چھوٹو" کا لیبل تاحیات لگ جاتا ہے۔ ایک بزرگ دانشور کا کہنا ہے کہ غریبوں کے بچے اپنے والدین کے بھی والدین ہوتے ہیں کیونکہ والدین کا کام بچوں کے لیے روزی کمانا ہوتا ہے اور یہ کام وہ نہ صرف اپنے لیے کرتے ہیں بلکہ وہ گھر کے دوسرے افراد کے لیے بھی کرتے ہیں۔

چائلڈ لیبر کے عفریت پر قابو پانا وقت کی پکار ہے۔ پاکستان میں طرف تو اربوں روپے کے بجٹ پیش کیے جارہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں لاکھوں بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں کیا فائدہ چائلڈ لیبر کے حوالے سے پےدرپے اتنے زیادہ نوٹیفکیشن جاری کرنے کا جب ان پر عملدرآمد صفر ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دیتے ہیں کہ چائلڈ لیبر کرتے ہیں ہوتے ہیں کے لیے

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • آئی سی سی ٹی20 رینکنگ: بنگلہ دیش نے بھارت سے نویں پوزیشن چھین لی
  • ٹی ٹوئنٹی رینکنگ: بنگلہ دیش نے افغانستان سے نویں پوزیشن چھین لی
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی
  • کم عمربچوں کے فیس بک اورٹک ٹاک استعمال پرپابندی کی درخواست پر پی ٹی اے سمیت دیگرسے جواب طلب
  • کم عمر بچوں کے فیس بک اور ٹک ٹاک استعمال پر پابندی کی درخواست پر سماعت
  • کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کی درخواست پر جواب طلب
  • حیدر آباد: جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد کی ناظمہ غزالہ زاہد لیبر کالونی سائٹ زون میں سیرت النبی ﷺکانفرنس سے خطاب کر رہی ہیں
  • شنگھائی: چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا فودان یونیورسٹی کا دورہ، پاک-چین دوستی کے مستقبل پر خطاب
  • اداروں میں اصلاحات وقت کی ضرورت، پاکستان کا مستقبل مضبوط جمہوریت سے وابستہ ہے، صدر مملکت