کوئی ایسی بات نہیں کی! نعمان نیاز کے لیگل نوٹس پر شعیب کا جواب
اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT
قومی ٹیم کے سابق فاسٹ بولر شعیب اختر اور سینئیر اسپورٹس صحافی ڈاکٹر نعمان نیاز کے لیگل نوٹس کا جواب بھجوادیا۔
معروف صحافی ڈاکٹر نیاز نے 25 مئی 2025 کو تماشا پر چلنے والے کرکٹ شو دی ڈگ آؤٹ کی قسط 31 کے دوران سابق کرکٹر کی جانب سے کیے گئے ایک متنازع ریمارکس کے بعد شعیب اختر کو قانونی نوٹس بھجوایا تھا۔
شو کے دوران شعیب اختر پاکستان ٹیم کے کوچنگ کے نظام اور منیجمنٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی مثال دیتے ہیں کہ میرے ٹائم پر مجھے تو پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ کوچ کون ہے؟ دوسرا ہمیں یہ نہیں پتہ ہوتا تھا کہ مینیجر کون ہے؟۔
مزید پڑھیں: "یہ ہمارے بیگ اٹھاتا تھا" نعمان نیاز اور شعیب اختر ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے
شعیب اختر نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا تھا کہ "ہمارے وقت ہمیں یہ پتہ ہوتا تھا کہ ہمارے بیگ کمرے میں پہنچے ہیں کہ نہیں، مینیجر البتہ اس لیے رکھا ہوتا تھا، یہ ڈاکٹر نعمان ہمارے بیگ اٹھاتا تھا، یہ اسی لیے رکھا ہوا تھا نا، یہ کمپیوٹر میں کچھ لکھتا رہتا تھا اور اس کا بنیادی کام ہمارے بیگ کمروں تک پہنچانا ہوتا تھا"۔
اس تبصرے کو صحافی نعمان نیاز نے توہین آمیز اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا قرار دیتے ہوئے انہیں لیگل نوٹس بھجوایا تھا۔
جس پر شعیب اختر نے لیگل نوٹس کا جواب ایڈووکیٹ ابوزر سلمان نیازی کی وساطت سے بھیجا اور نعمان نیاز کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔
مزید پڑھیں: وسیم اکرم کا اپنے مجسمے پر ردعمل سامنے آگیا
نوٹس کے جواب میں کہا بیان لائیو شو کے دوران ایک عام سی گفتگو تھی، اسکو ہتک آمیز تصور نہ کیا جائے، یہ حقیقت ہے نعمان نیاز پاکستان کرکٹ ٹیم کے سامان کے انچارج تھے اور اکثر کھلاڑیوں کے بیگ اٹھاتے تھے اس میں کوئی توہین آمیز بات نہیں تھی۔
مزید پڑھیں: کوہلی کی ٹیسٹ ریٹائرمنٹ؛ شاستری نے اپنے ہی بورڈ کو تنقید کا نشانہ بناڈالا
قبل ازیں ڈاکٹر نعمان نیاز کے وکیل قاضی عمیر علی کی جانب سے 29 مئی کو بھیجے گئے قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ شعیب کے بیانات سے میرے موکل کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب دونوں میں جھگڑا ہوا ہو، 2021 میں لائیو پروگرام کے دوران بحث کے بعد شعیب اختر پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک (پی ٹی وی) کے اسپورٹس شو چھوڑ کر چلے گئے تھے، تاہم بعدازاں وہ دوبارہ آئے لیکن دونوں کے درمیان تلخ رشتے رہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نعمان نیاز ہمارے بیگ ہوتا تھا کے دوران تھا کہ
پڑھیں:
سوال مت پوچھیے!
پسماندہ ممالک کیوں ترقی نہیں کر پاتے؟ سوال میں کسی قسم کا الجھاؤ باقی نہیں رہا ۔ جواب سادہ سا ہے۔ ان تمام ممالک کے حکمران‘ ایک جعلی نظام کے ذریعے عام لوگوں کی گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ جذباتیت‘ مذہب پرستی اور جنونیت کی وہ فضا قائم کر دیتے ہیں جس سے عوام کے سنجیدہ مسائل پس منظر میں چھپ جاتے ہیں۔ بلکہ ایسے مسائل بیان کیے جاتے ہیں جن سے عوام کی براہ راست بھلائی کا کوئی تعلق نہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی فہرست ترتیب دیجیے ۔ ان کے معاملات مکمل طور پر یکساں بگاڑ کا شکار ہیں۔ یوں کہنا چاہیے۔ کہ یہ ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہیں۔
اگر آپ مسلمان ممالک کے الجھاؤ کو دیکھیے تو وہ جھوٹ‘ لوٹ مار اور جعلی تاویلوں کے اس گرداب میں ڈوب چکے ہیں۔ جس میں سے نکلنا قطعاً ممکن نہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں میں یہ عذاب سر چڑھ کر رقصاں ہے۔ کیونکہ یہاں تقلید اور ہمہ وقت بزرگی کا وہ سرمہ بیچا گیا ہے۔ جس نے ہمیں نابینا کر ڈالا ہے۔ پاکستان‘ جن مغربی تعلیم یافتہ لوگوں نے ترتیب دیا تھا۔ انھیں اور ان کی سوچ کو‘ ملک بننے کے تھوڑے ہی عرصہ میں‘ غتر بود کر دیاگیا۔
منظم طریقہ سے ‘ ہماری جدوجہد آزادی ‘ کی اہم سیاسی شخصیات کو متنازعہ بنایا گیا ۔ چند اداروں نے مبالغہ آرائی کی ناؤ میں سوار ہو کر ملک کی دخانی کشتی کو ڈبو کر رکھ ڈالا ۔ یہ صورت حال آج بھی موجود ہے۔ مگر ایک معاملہ تمام ’’شاہسواروں‘‘ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ ہے سوشل میڈیا کی دیو مالائی طاقت۔ اب حکومتوں کے لیے نازک معاملات پر کوئی قومی بیانیہ بنانا مشکل تر ہو چکا ہے۔
عام لوگوں کے سامنے ہر تصویر کے متعدد متضاد رخ ‘ پل بھر میں سامنے آ جاتے ہیں۔ ہر پاکستانی کے ہاتھ میں چلتا پھرتا‘ ابلاغ کا طاقتور ذریعہ ‘ فون کی صورت میں موجود ہے۔ جس کے سامنے کوئی من گھڑت دلیل‘ قائم نہیں رہ سکتی۔ حکومتوں کے لیے یہ صورت حال ایک گھمبیر رخ اختیار کر چکی ہے۔
اس کشمکش میں کیا ملک میں ترقی کے امکانات ہیں۔ جواب آپ خود بخوبی جانتے ہیں۔ پہلے یہ بھی سمجھ لیجیے۔ کہ ترقی کے معنی کیا ہیں؟۔ مطلب کیا ہے؟ طالب علم کی نظر میں اگر عام لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے مہیا ہو رہی ہیں ۔ تو جان لیجیے کہ ملک اور قوم ترقی کے زینہ پر اوپر چڑھ رہی ہے۔
اس کے برعکس اگر عوام کی اولین ضروریات صرف خواہشات کی حد تک ہی رہ جائیں۔ تو پھر گھبرانے‘ سوچنے اور شرمسار ہونے کا مرحلہ ہے۔ سوال وہی ‘کہ کیا ہم ایک مہیب جھوٹ کا شکار تو نہیں ؟
یہی وہ گورکھ دھندہ ہے ۔ جسے ہر شہری کو سوچنا چاہیے۔ تعصب سے مبرا ہو کر سچ تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہم جس بگاڑ کا شکار ہیں۔ وہ 1947 سے شروع نہیں ہوا۔ بلکہ برصغیر میں مسلمانوںکی بظاہر طاقتور حکومتوں کے دوران میں شروع ہو چکا تھا۔ چار صدیاں پہلے کے مسلمان حکمران طبقات اپنی جہالت پر نازاں تھے۔
آج کے حد درجہ تخلیقی دور میں بھی ان کے رویہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ذرا سوچیے۔ سن 1096عیسوی میں ‘ آکسفورڈ یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی۔ بارہویں صدی میں پیرس میں بھی اعلیٰ یونیورسٹی بن چکی تھی۔ اس زمانہ میں ‘ برصغیر میں ‘ دہلی سلطنت کے سلاطین کی حکومت تھی۔ تین سو برس کی ان حکومتوں کے معاملات کو تفصیل سے پرکھیے۔
قتل و غارت‘ شاہی رقابتیںاور ان گنت خواتین پر مبنی حرم سرا کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حرام ہے کہ کسی ایک سلطان نے اپنے اس زمانے کے حساب سے کسی اعلیٰ تعلیم گاہ کے قیام پر توجہ دی ہو۔ہاں۔ اپنے قد کوبڑھانے کے لیے عمارتیں بہر حال تعمیر ضرور ہوئیں۔ جن کا عوامی بہبود سے کوئی جزوی تعلق بھی نہیں تھا۔
ذرا سوچیے۔ایسا کیوں تھا۔ وجہ صرف ایک معلوم پڑتی ہے ۔ کہ ہر بادشاہ کو صرف اپنے دور کو طویل کرنے کا خبط سوار تھا۔ کہنے کو تو وہ مسلمان ہی تھے۔ مگر ہمارے عظیم مذہب کی انقلابی روح سے ناشناس تھے۔ نتیجہ یہ ہواکہ پورا برصغیر ‘ جدید علوم سے دور ہوتا چلا گیا۔ بعینہ یہی معاملہ مغلوں کے دور میں بھی روا رہا۔ مغل بادشاہ‘ ظل الٰہی کہلوانے میں مگن رہے۔
دنیا کے امیر ترین بادشاہ بن گئے۔ مگر انھوں نے جدت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی لہر برپا ہو چکی ہے۔ صنعتی انقلاب آ چکا ہے۔ تحقیق ‘ سائنس اور ایجادات زندگی کا چلن بن چکی ہیں۔ یورپ‘ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا خطہ بن گیا اور برصغیر ‘ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ قیامت یہ ہے کہ ہمارے ‘ یعنی مسلمانوں کے جوہری حالات آج بھی یہی ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہوا کہ تقلید نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح قابو کر لیا کہ سوال پوچھنے کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔ مذہبی علم کو ‘ واحد علم قرار دے دیا گیا۔ غیر ملکی زبانیں ‘ جیسے ترکی‘ فارسی اور عربی پر عبور ‘ عالم کی پہچان بن گیا۔ دھڑا دھڑ شعراء اکرام‘ داستان گو اور قصیدہ گو اہمیت اختیار کر گئے۔ جدید علوم کی ہوا تک ہمارے خطے تک نہ پہنچ پائی۔ ذہن کی سرخیزی کو جرم قرار دے دیا گیا۔
لسانیات اور جمالیات کو زندگی کا محور قرار پایا گیا۔ جدید علوم کا حصول کفر تک پہنچانا ہماری فاش غلطی تھی۔ جب ہم اکبر اعظم ‘ شاہ جہاں اور اورنگ زیب جیسے بادشاہوں کے دور کی ورق گردانی کرتے ہیں تو چند معاملات سامنے آتے ہیں۔محض اپنے دور کی تحقیقی تخلیق کاری سے نفرت‘ مبالغہ پر مبنی طرز زندگی اور جاہلیت کی ترویج سکہ رائج الوقت تھا۔
کبوتربازی ‘ بٹیروں کی جنگ اور حد درجہ احمقانہ طویل القابات پر مزین زندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ خطہ‘ جس میں ٹیکسلا کی عظیم درس گاہ ‘ ہزاروں برس پہلے قائم کی گئی تھی۔ منافرت میں غوطہ زن اورتحقیق سے گھبراہٹ‘ جیسے رویے میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیا یہ نکتہ قیامت نہیں ڈھاتا۔ کہ برصغیر میں ہمارے حکمرانوں کے پاس محیر العقول دولت تھی۔ مگر وہ اتنے کند ذہن تھے کہ مغرب کے معاملات سے بھرپور بے خبر رہے۔ ماضی کا کیا ماتم کرنا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے عمومی حالات اور پاکستان میں خصوصی حالات حد درجہ نازک اور قدامت پسند ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیے ۔ یورپ چودھویں صدی سے لے کر سترویں صدی تک‘ نشاۃ ثانیہ کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اس میں انسان کی برابری‘ روزگار کے عدم توازن اور انسانی حقوق کی مناسبت پر بات ہونی شروع ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ‘ محققین نے ‘ ریاستوں کے مذہبی جواز کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔پاپایت کے سفاکانہ دور پر‘ضرب کاری لگ چکی تھی۔ علمیت کی اس روش نے اس صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ جو 1760 سے پہلے دنیا نے قطعاً نہیں دیکھا تھا۔
1840 تک ‘ یورپ میں حقیقی انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ سائنس اور دلیل نے معاشروں کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ یورپ وہ طاقت بن کر ابھرا تھا‘ جس کے سامنے تمام دنیا سرنگوں ہو گئی۔برصغیر میں‘ برطانوی ‘ پرتگالی اور فرانسیسی طاقتیں نئی جہتیں لے کر آئے۔ ہندوستان میں مسلمان اتنے تساہل پسند اور پسماندہ تھے کہ ایک تجارتی کمپنی کی عسکری طاقت کا مقابلہ نہ کر پائے۔ ہمارے ہیرو‘ خس و خاشاک کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی سے گھائل ہوتے گئے۔ مگر بحیثیت قوم‘ مسلمانوں نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔
مغرب سے تعلیم یافتہ افراد‘ جب برصغیر میں واپس آئے۔ تو انھوںنے آزادی ‘ جدید علوم ‘ انسانی حقوق پر واشگاف بات کی۔ مگر انھیں‘ مسلمانوں کے مذہبی طبقہ نے دائرہ اسلام ہی سے خارج کر دیا۔ ان میں سرسید‘ علامہ اقبال اور محمد علی جناح ‘ سب شامل تھے۔ اگر یہ اکابرین ‘نہ ہوتے تو آج بھی ہم ‘ بادشاہوں کے درباروں میں کورنش بجا لانے کے علاوہ مزید کچھ نہیں کر سکتے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنے ملک میں وہی قدیم رویہ برپا کر رکھا ہے۔ جو ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ طاقتور آزادی سے ‘ کمزور پر حکومت کر رہے ہیں۔ نظام انصاف میں کوئی توانائی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا چلن بالکل وہی ہے۔ جو دہلی سلاطین کے زمانہ میں روا تھا۔ مذہب کے نام پر فرقہ پرستی‘ جذباتیت اور شدت پسندی کو ریاست بذات خود ‘ توانائی دے رہی ہے۔
چند مذہبی جماعتیں ‘ قبائلی عصیبت کو ہوا دے رہی ہیں۔ دہشت گرد‘ بھی مذہبی تاویلیں استعمال کر کے تسلی سے قتل عام کر رہے ہیں۔ عوام اسی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو صدیوں پہلے تھا۔ سوال اٹھانے کی اجازت آج بھی نہیں ہے۔ کفر کے فتوے‘ توانائی سے جاری و ساری ہیں۔ لگتا ہے ہم مسلمانوں نے قسم کھا رکھی ہے۔
کہ ہم ہر طریقے سے ترقی سے دور رہیں گے۔ پست معیار تعلیم‘ جعلی ریاستی بیانیہ‘ ہر دم جنگ و جدل کی باتیں ‘ عدم تحفظ‘ ہمارا قومی شعار ہیں۔ تحقیق سے آج بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔ اگر میری باتوں پر یقین نہیں آتا ۔ تو ذرا ! کوئی بھی سنجیدہ سوال پوچھ کر دیکھیے ۔لوگ خوشی سے ‘آپ کی گردن زنی کر دیں گے۔ اور وہ ایک نیکی قرار ہو گی۔ دراصل ہم سوال پوچھنے کے عمل ہی سے خوف زدہ ہیں۔ تمام معاملات ‘ پسماندگی کی شاہراہ پر بھاگ رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے ضعف سے حد درجہ خوش ہیں!