data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے، صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔ان خیالات کا اظہارجامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر اور ڈاکٹر رخشندہ منیر نے جسارت کے سوال پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟کے جواب میں کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ ایک بہت اہم اور حساس سوال ہے۔ پاکستان سرکاری سطح پر اکثر ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا رہا ہے، خصوصاً کشمیر کے حوالے سے۔ ہر سال اقوامِ متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی جانب سے بیانات دیے جاتے ہیں، اور بعض اوقات او آئی سی میں بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا جاتا ہے۔تاہم، کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی آواز اکثر کمزور یا غیر مؤثر ہوتی ہے، یا پھر صرف سیاسی مفادات کے تحت بلند کی جاتی ہے۔ اس کی چند ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں.

سفارتی دباؤ اور عالمی سیاست بھارت ایک بڑی معیشت اور بڑی آبادی والا ملک ہے، جس کے عالمی تعلقات مضبوط ہیں۔ پاکستان جب بھارت کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے، تو بین الاقوامی دباؤ اور مخالفت کا سامنا بھی کرتا ہے۔پاکستان کو خود بھی متعدد داخلی چیلنجز کا سامنا ہے، جیسے معیشت، سیاسی عدم استحکام، اور انتہا پسندی، جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ صرف بیانات دینا کافی نہیں ہوتا، عملی اقدامات جیسے کہ مسلم دنیا کو متحد کرنا، انسانی حقوق کی تنظیموں کو فعال بنانا، یا عالمی میڈیا میں مستقل لابی کرنا ضروری ہوتا ہے، جو اکثر کمزور ہوتا ہے۔جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمرکاکہنا تھا کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک یا خطے میں رہتے ہوںوہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔بھارت ہو افغانستان یا کوئی اور ملک جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے پاکستان ا س کے لیے آواز اٹھاتا ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کہتا ہے کہ ہمارا جبکہ ہم کہتے وہ مقبوضہ ہے وہاں جو بھی کچھ ہورہاہے وہ کون کررہا ہے وہ بھارتی پولیس اور انڈین آرمی کررہی ہے،پاکستا ن مستقل اس کے خلا ف آواز اٹھاتا ہے.بھارت آبادی اور وسائل کے اعتبار سے بڑا ملک ہے اور اس کے دیگر اسلامی ممالک سے بھی بڑے اچھے تعلقات ہیں،جبکہ امریکا،برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں اس کی اکانومی چھائی ہوئی ہے اسی لئے بھارت کے اکنامی ریلیشن پاکستان کے مقابلے میں زیادہ اچھے ہیں۔پاکستان میں مختلف حکومتی آتی ہیں جو اپنا اپنا ایجنڈا لے کر آتی ہیں۔اسی لیے پاکستان معاشی سطح پر دباؤ کا شکار ہے،پے در پے حکومتوں غیر ضروری طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے ہماری حکومت بہت سے چیزوں میں الجھ جاتی ہے وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ وہاںکی حکومت نہیں پاکستان بننے کے بعد انہیں وہ قوت حاصل نہیں ہوئی جو کہ ہونا چاہیے جبکہ بھارت کئی مذہبی عناصربڑی تعداد میں موجود ہیںجو پاکستا ن کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔پاکستان تو اپنے ہی مسائل میں گھرا ہواہے۔مگر پھر بھی مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔کلمہ کی بنیاد پر جہاںمسلمانو ں پر جبری تسلط قائم کیا جائے تو بحیثیت مسلمان ہم پاکستانیوں کو تکلیف تو ہوتی ہے ،شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہر تعلیم ڈاکٹر رخشندہ منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ 1971ء سے پہلے Double Country کے نام سے جانا جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں 1000 میل (1600 کلو میٹر) کا فاصلہ تھا۔ پاکستان کے دو حصوں کے بیچ میں بھارت کے کچھ علاقے موجود تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ہمیشہ تناؤ برقرار رہا۔ اگر ہم دونوں ممالک کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو ہمیں تنازعات دیکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت نے 78 سال کے عرصے میں چار بڑی جنگیں لڑیں۔1948، 1947 اور 1965 کشمیر کے معاملے پر 1947-48 میں بھارت کشمیر کا ایک حصہ پاکستان سے لینے میں کامیاب ہوا۔ 1970-71 میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل پذیر ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ 1999ء میں بھارت اور پاکستان پھر آمنے سامنے آئے۔ اس بار کارگل نشانہ بنا۔ اس جنگ کے نتیجے میں بھارت نے کارگل پر قبضہ کیا۔ جس پر پہلے ہی پاک فوج قبضہ حاصل کرچکی تھی۔اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی موقعوں پر اختلافات پیدا ہوئے۔ ان سب اختلافات کے باوجود پاکستان نے کئی بار کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اُٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری عوام کو جب سیکورٹی کونسل نے جنوری 1949ء میں حق خودارادیت دیا تو پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا۔ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور دیگر کئی حکمرانوں نے کشمیر میں ہونے والی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کوئی جارحانہ قدم اُٹھانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ سب سے پہلے تو پاکستان کے اندرون حالات بہت نازک ہیں، ہر صوبہ ایک الگ کشمکش کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ہم معاشی بحران کا شکار ہیں، پاکستان ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مسلسل قرضے لیتا آرہا ہے۔ اگر ایک لمحے کیلئے پاکستان اپنی معاشی کمزوری کو نظر انداز کرکے کوئی بڑا قدم اُٹھائے بھی تو تب اس بات کو یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ باقی مسلمان ممالک بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیں گے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مشرقی پاکستان بھارت کے خلاف بین الاقوامی پاکستان اور پاکستان کے میں بھارت پاکستان ا دباؤ اور کشمیر کے کا سامنا ہوتا ہے کے شعبہ بھارت ا کرتا ہے کی وجہ

پڑھیں:

انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں  ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے  درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے   موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے  ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن