حکومت کو گرانا ہے، آئی ایم ایف کا قرض کیسے اتارا جائے۔۔؟ محمود خان اچکزئی نے تجویز دیدی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
کوئٹہ ( ڈیلی پاکستان آن لائن )آئی ایم ایف کا قرض کیسے اتارا جا سکتا ہے۔پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے تجویز دیدی ۔
تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں پریس کانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ خطے کی صورتِ حال پاکستان، افغانستان، ایران سمیت یہاں کے حکمرانوں کے لیے امتحان ہے۔ یہ حکمرانوں کے لیے امتحان ہے کہ کس طرح حالات سے نبرد آزما ہونا ہے۔پاکستان کی حالت نازک ہے، یہاں 10 سے 12کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ملک کتنے ارب ڈالرز کا مقروض ہے، ایسے میں ایک تجویز سامنے آئی ہے کہ جو حکومتوں میں رہے ان کے وسائل سے زیادہ جائیدادیں ضبط کر کے آئی ایم ایف کا قرضہ ادا کیا جائے۔
اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے ایرانی جرنیلوں اور ایٹمی سائنسدانوں کے نام سامنے آگئے
’’جنگ ‘‘ کے مطابق محمود خان اچکزائی نے کہا کہ جنہوں نے ملک میں اپنی وفاداریاں نہیں بیچیں وہ زیرِ عتاب ہیں، جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو موجودہ حکومت سے رابطے نہیں رکھنے چاہئیں، حالات کا تقاضا ہے کہ ہم سب کو مل کر موجودہ حکومت کو گرانا ہے۔ ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہمارے ملک میں ملی یکجہتی ہو، پاکستان میں ملی اتحاد ضروری ہے، یہ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک موجودہ حکومت قائم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس ملک کو چلا سکتے ہیں، ہر صوبے کا اس کے وسائل پر حق ہوناچاہیے۔ملک میں آئین بالادست ہونا چاہیے، اگر کوئی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے۔ ہمیں جمہوریت سے پیار ہے۔
اسرائیلی فضائیہ کو ایران میں مکمل آزادی ، کسی قسم کی مزاحمت کا خوف نہیں، الجزیرہ ٹی وی کی تہلکہ خیز رپورٹ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
نظام بدلے جانے کا خواب
سابق وزیر اعظم اور اپنی نوزائیدہ عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پورا نظام بدلے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ حکومت ناکام ہو چکی، عوام تعلیم، صحت و بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، پاک پتن، سوات اور کراچی میں عمارت گرنے سے ہلاکتیں ایسے سانحات ہیں کہ جن کی ذمے دار حکومتیں ہیں جن کی غیر ذمے داری اور قوانین پر عمل نہ ہونے کا ذمے دار موجودہ نظام ہے جسے بدلنا ازحد ضروری ہے۔
شاہد خاقان عباسی جب مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزیر اعظم بنائے گئے تھے تب بھی یہی نظام موجود تھا۔ اس نظام کی موجودگی میں ملک میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ان میں کوئی بھی شفاف اور منصفانہ قرار نہیں پایا۔ سینیٹ کے انتخابات ارکان اسمبلی کی خفیہ خرید و فروخت، پارلیمنٹ میں کورم اور ہنگامہ آرائی، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں سینیٹروں کا دوغلا کردار، کھلے عام اکثریت ظاہر ہونا اور خفیہ رائے شماری میں اکثریت کا اقلیت بن جانا اور پارلیمنٹ کے اجلاسوں کی صدارت کرنے والوں کی متنازعہ رولنگ بھی اسی نظام کے تحت دی گئیں۔
اسمبلیوں میں شدید ہنگامہ آرائی، قابل اعتراض تقاریر، نعرے بازی، ایک دوسرے پر حملے، گالم گلوچ، اسمبلی کارروائی نہ چلنے دینے کے لیے اسپیکر کا گھیراؤ، چھپا کر لائے جانے والے بینرز، تصاویر، پمفلٹ لہرانا، ایک دوسرے پر حملے، شرم ناک الزامات عائد کرنا، باہم لڑنا، گالیاں سب کچھ اسی نظام میں جمہوریت کا حسن قرار دی جاتی ہیں۔
اسمبلیوں سے باہر ملک اور ملک کی حفاظت کرنے والوں پر الزامات، جھوٹا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر ان کے خلاف گمراہ کن مہم کو آزادی اظہار کا نام دینا بھی موجودہ نظام کا حصہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ حد تو اب یہ ہوگئی ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں اپنے ملک کو ناکام اور بھارت کو کامیاب قرار دینے کا ملک دشمن کردار ادا کرکے ملک دشمنی کا مظاہرہ بھی اسی نظام کی بدولت ممکن ہے ورنہ کسی اور ملک میں اپنے ہی ملک سے دشمنی پر جو سزائیں اور انجام ہوتا ہے اس سے بچت بھی موجودہ نظام کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔
پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو فوری اور سخت سزاؤں کے برعکس پاکستان میں رائج نظام ہی کی کمزوری ہے کہ دو سال گزر جانے کے بعد بھی نو کے ملزمان کا سزاؤں سے محفوظ رہنا بھی موجودہ نظام ہی کے تحت ممکن ہے۔
اپنے خلاف آئینی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کھلے عام ریاستی اداروں پر تنقید، الزامات اور عوام کو گمراہ کرنا اور انھیں بھڑکانا، لانگ مارچ، حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ملک بھر میں احتجاج اور جلسے کرنا بھی موجودہ نظام ہی میں ممکن ہوا۔ اسی نظام ہی کی وجہ سے سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونا، اپنی پارٹیوں سے غداری اور اپنی پارٹی کے فیصلوں کے برعکس ووٹ دینا، کروڑوں روپے لے کر سینیٹر منتخب کرانا، حکومت سازی یا آئینی ترمیم کے لیے حمایت خفیہ طور خریدنا بھی موجودہ نظام ہی کا کارنامہ ہے۔
اپنے ہی حلف کی خلاف ورزی، مفاد پرستانہ غیر آئینی فیصلے، عدالتی فیصلوں میں کھلی سیاسی جانب داری، حکومت کے ملزم کو عدالت بلا کر عزت و ریلیف دے کر سرکاری اہتمام سے مقدمے کے بغیر باعزت رہا کرکے ملزم کے گھر تک پہنچانے کا حکم ہو یا پھر عدالت کے حکم کو اسمبلی کے ذریعے تسلیم نہ کرنے کا حکومتی اقدام بھی موجودہ نظام کے تحت ہی ممکن بنایا گیا تھا۔
1973 کے آئین کے نفاذ سے قبل تو چلیں جو ہوا سو ہوا، مگر متفقہ آئین کی منظوری کے بعد سے جو ہوتا آ رہا ہے وہ بھی موجودہ نظام ہی کی مرہون منت ہے جس کے بعد تو پرانا نظام تبدیل ہونا چاہیے تھا مگر نہیں ہوا۔ غیر آئینی مداخلت کو آئین میں جرم قرار دیا گیا اور اس کا راستہ بھی روکنے کی کوشش ہوئی تھی مگر اس کے بعد بھی جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کی جو طویل حکومتیں قائم رہیں کیا ملک کے سیاستدان اور جمہوریت کی دعویدار پارٹیاں غیر جمہوری حکومتوں کی حامی اور سیاستدان غیر سول حکومتوں میں شامل رہ کر اقتدار کے مزے نہیں لوٹتے رہے تھے جو اسی نظام کے تحت ہوا۔ منتخب اسمبلیوں نے غیر سیاسی اقدامات کو جائز قرار نہیں دیا تھا، عدالتی فیصلے میں جنرل پرویز کو آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں دیا گیا تھا جو صرف اسمبلی کا اختیار تھا۔
ملک کو بلاامتیاز انصاف فراہم کرنے والوں نے آئین کی من پسند تشریح کرکے خود میں ہی باہمی اختلافات کا آغاز نہیں کیا تھا تو کس سے کہا جا رہا ہے کہ پورا نظام بدلو ورنہ آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ 2018 کی ریہرسل 2022 میں دہرائی گئی، دونوں کو مفاد پرستوں نے وقت کی ضرورت قرار دیا۔ جانے والے چلے گئے اور ان کے بعد آنے والے بھی وہی من مانیاں کر رہے ہیں جو جانے والوں نے کیں، بس فرق یہ ہے کہ اقتدار سے ہٹنے کے بعد یاد آتا ہے کہ نظام درست نہیں اسے بدلنا چاہیے مگر بدلے کون ،کیا وہی جنھوں نے موجودہ نظام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال ماضی میں کیا اور اب بھی کر رہے ہیں اور فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ہماری حکومت کی کارکردگی سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہے۔
پی ٹی آئی حکومت بھی فخر کرتی تھی کہ وہ اور ہم ایک پیج پر ہیں۔ جب سب ایک پیج پر تھے یا اب ہیں تو موجودہ نظام سے شکایت کیوں؟ یہ سب تو نظام کا حصہ رہے اور ہیں تو نظام بہترین مگر اقتدار کے بعد اسی نظام میں برائیاں کیوں نظر آجاتی ہیں؟