اردن اور عراق سمیت متعدد ممالک نے فضائی حدود بند کردیں
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل کی جانب سے ایران پر فضائی حملوں کے بعد ایران، عراق اور اردن سمیت متعدد ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کردی ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے بعد متعدد ائرلائنز نے اسرائیل، ایران، عراق اور اردن کی فضائی حدود سے پروازوں کا رخ موڑ دیا ہے، جیسا کہ فلائٹ ریڈار 24 کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے۔اسرائیل کی قومی ائرلائن ’ایل آل‘ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے اسرائیل سے آنے اور جانے والی تمام پروازیں تاحکمِ ثانی معطل کردی ہیں۔ایرانی سرکاری میڈیا اور پائلٹس کے لیے جاری نوٹسز کے مطابق ایران کی فضائی حدود بھی تاحکمِ ثانی بند کردی گئی ہیں۔ائر انڈیا، جو یورپ اور شمالی امریکا کی پروازوں کے لیے ایران کی فضائی حدود استعمال کرتی ہے، اس نے بتایا کہ اس کی متعدد پروازوں کا رخ موڑ دیا گیا ہے یا وہ اپنے روانگی کے مقام پر واپس لوٹ گئی ہیں جن میں نیویارک، وینکوور، شکاگو اور لندن سے آنے والی پروازیں شامل ہیں۔ عراقی سرکاری میڈیا کے مطابق جمعہ کی صبح عراق نے اپنی فضائی حدود بند کردی ہیں اور تمام ہوائی اڈوں پر فضائی آمدورفت معطل کردی گئی ہے۔مشرقی عراق، جو ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے، دنیا کے مصروف ترین فضائی راستوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں سے ہر وقت درجنوں پروازیں یورپ، خلیجی ممالک اور ایشیا کی طرف جاتی ہیں۔ فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا کے مطابق، پروازوں کا رخ آہستہ آہستہ وسطی ایشیا یا سعودی عرب کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔اردن، جو اسرائیل اور عراق کے درمیان واقع ہے، اس نے بھی اسرائیلی کارروائی کے چند گھنٹے بعد اپنی فضائی حدود بند کردی ہے۔ سیف ائر اسپیس، جو کہ او پی ایس گروپ کے زیر انتظام فضائی خطرات سے متعلق معلومات فراہم کرنے والا ویب پلیٹ فارم ہے، اس نے اپنے پیغام میں کہا کہ صورتحال تاحال غیر یقینی ہے، اس وقت خطے میں فضائی آپریشن کرنے والے اداروں کو انتہائی احتیاط برتنی چاہیے۔جمعے کی صبح دبئی پہنچنے والی کئی پروازوں کا رخ موڑ دیا گیا، ایمیریٹس کی مانچسٹر سے دبئی آنے والی پرواز کو استنبول واپس بھیج دیا گیا، جب کہ فلائی دبئی کی بیلگریڈ سے آنے والی پرواز کو یریوان، آرمینیا منتقل کردیا گیا۔فلائی دبئی کا کہنا ہے کہ اس نے عمان، بیروت، دمشق، ایران اور اسرائیل کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں، جب کہ متعدد دیگر پروازیں یا تو منسوخ کر دی گئی ہیں، دوبارہ شیڈول کی گئی ہیں یا اپنے روانگی کے ہوائی اڈوں پر واپس بھیج دی گئی ہیں۔فلائٹ ریڈار 24 کے مطابق قطر ائرویز نے جمعہ کو دمشق کے لیے اپنی دو شیڈول پروازیں منسوخ کردی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پروازوں کا رخ کردی ہیں کے مطابق نے والی گئی ہیں موڑ دیا دیا گیا کے لیے
پڑھیں:
غزہ پٹی کی صورت حال: جرمن چانسلر کی اردن کے شاہ سے ملاقات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جولائی 2025ء) اردن کے حکام کے مطابق جرمن چانسلر میرس اور اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم کی منگل کو برلن میں ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور خطے کی موجودہ سنگین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
چانسلر میرس نے پیر کے روز کہا تھا کہ ان کی حکومت اردن کے ساتھ مل کر غزہ پٹی کے انتہائی ضرورت مند عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کی خاطر کام کرے گی۔
میرس نے کہا تھا، ''ہم جانتے ہیں کہ یہ غزہ کے عوام کے لیے بہت چھوٹی سی مدد ہو سکتی ہے، لیکن یہ ایک حصہ ہے جو ہم خوشی سے ڈالنا چاہتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ اسرائیل پر بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ امداد کی فراہمی پر عائد پابندیوں میں نرمی کرے کیونکہ غزہ پٹی کے محصور علاقے میں قحط کے پھیلنے کا خطرہ شدید ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
اردن نے حالیہ دنوں میں غزہ پٹی میں خوراک کی فراہمی کے لیے امدادی سامان فضا سے گرانے کا عمل شروع کیا ہے، جو اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے خلاف جنگ میں ''تزویراتی توقف‘‘ کے اعلان کے بعد ممکن ہوا ہے۔
اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، اور دیگر امدادی تنظیموں کے مطابق غزہ پٹی میں انسانی بحران شدید تر ہو رہا ہے اور ہزارہا انسان فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
اس صورت حال کے پیش نظر عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ امداد کی ترسیل کے لیے راستے کھولے۔اگرچہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمین نیتن یاہو نے اتوار کے روز دعویٰ کیا تھا کہ ''غزہ میں قحط نہیں ہے،‘‘ تاہم ایک دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''محصور علاقے میں واقعی قحط ہے اور ہمیں بچوں کو خوراک فراہم کرنا چاہیے۔
‘‘ ہر چار میں سے تین جرمن اسرائیل پر مزید دباؤ کے حامیتقریباً 75 فیصد جرمن شہری چاہتے ہیں کہ میرس حکومت غزہ پٹی میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال کے پیش نظر اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے۔
فورسا انسٹیٹیوٹ کے ذریعے جرمن جریدے اشٹیرن کے لیے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج، جو اس جریدے میں آج منگل کو شائع ہوئے، کے مطابق 74 فیصد جرمن باشندے چاہتے ہیں کہ وفاقی جرمن حکومت اسرائیل کے حماس کے ساتھ جاری تنازعے میں اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرے۔
یہ سروے سیاسی وابستگی کی بنیاد پر رائے عامہ میں واضح فرق کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت لیفٹ پارٹی کے 94 فیصد ووٹر اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے 88 فیصد ووٹر اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالنے کے حق میں تھے۔
جرمن حکومتی اتحاد میں شامل سینٹر رائٹ یونین جماعتوں سی ڈی یو اور سی ایس یو، اور سینٹر لیفٹ پارٹی ایس پی ڈی کے حامیوں میں سے بھی 77 فیصد افراد چاہتے ہیں کہ جرمن حکومت اسرائیل کو غزہ پٹی میں جاری انسانی بحران ختم کرنے اور جنگ روکنے پر مجبور کرے۔
البتہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کے حامیوں میں سے 37 فیصد اسرائیل پر مزید دباؤ ڈالے جانے کے مخالف تھے۔ پھر بھی ان میں سے بھی 61 فیصد افراد اسرائیل کے خلاف جرمنی کے سخت موقف کے حق میں تھے۔
جرمنی اسرائیل کا ایک اہم اتحادی ملک ہے، اور اسرائیل کی سلامتی اور بقا کا دفاع جرمن ریاست کی بنیادی پالیسی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین، مقبول ملک