اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر حملوں کو پورے خطے بلکہ دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ اور شدید تشویش کا باعث قرار دیا۔

15 رکنی کونسل نے جمعے کو معمول کے ایجنڈے کو معطل کرتے ہوئے فوری اجلاس طلب کیا، جس میں اقوام متحدہ کے جوہری ادارے کے سربراہ نے بھی شرکت کی اور جوہری سلامتی کو لاحق خطرات پر سخت خبردار کیا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے اسرائیلی حملوں کو ’غیر قانونی اور بلا جواز جارحیت‘  قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی اور کہا کہ پاکستان ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

یہ اجلاس ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کی درخواست پر بلایا گیا جنہوں نے کہا کہ اسرائیل نے تمام سرخ لکیریں عبور کر لی ہیں اور عالمی برادری کو ان جرائم پر خاموش نہیں رہنا چاہیے، چین اور روس کے ساتھ پاکستان نے بھی ہنگامی اجلاس کی درخواست کی حمایت کی۔

پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتے ہوئے فوری طور پر جارحیت روکنے کے اقدامات کرے، انہوں نے بحران کے حل کے لیے بات چیت اور سفارتکاری کی راہ اپنانے پر زور دیا۔

اقوام متحدہ کی سیاسی امور کی سربراہ، روز میری ڈیکارلو نے بتایا کہ حملوں کے اثرات پہلے ہی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل اور ایران دونوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تاکہ بڑے پیمانے پر علاقائی تصادم سے بچا جا سکے۔

مزید پڑھیں:

انہوں نے کہا کہ یہ کشیدگی ایسے وقت میں بڑھی ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہونے والا تھا، تاہم تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایران نے مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، رافیل گروسی نے اجلاس کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایران کی ایٹمی ریگولیٹری اتھارٹی سے مسلسل رابطے میں ہے تاکہ حملے سے متاثرہ تنصیبات کا جائزہ لیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ جوہری تنصیبات کو کسی بھی صورت میں حملے کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

رافیل گروسی نے پیشکش کی کہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی جانب سے ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم کے طور پر کردار ادا کرنے کو تیار ہے، جہاں حقائق کو جذباتی بیانیے پر ترجیح حاصل ہو اور تکنیکی تعاون کو تصادم کی جگہ دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ صرف مذاکرات اور سفارتکاری ہی وہ پائیدار راستہ ہے جو خطے اور دنیا میں امن، سلامتی اور تعاون کو یقینی بنا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اقوام متحدہ امریکا انتباہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ایران پاکستان رافیل گروسی سفارتکاری سلامتی کونسل مستقل مندوب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا انتباہ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ایران پاکستان رافیل گروسی سفارتکاری سلامتی کونسل سلامتی کونسل اقوام متحدہ سلامتی کو نے کہا کہ انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-19
عمان/برلن( مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘غزہ پلان’ کے تحت جنگ بندی کے بعد علاقے میں عالمی استحکام فورس کی تعیناتی کی تجاویز پراردن اور جرمنی، نے واضح کیا ہے کہ اس فورس کی کامیابی اور قانونی حیثیت کے لیے اسے لازماً اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔ عالمی میڈیا کے مطابق، امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی۔ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ “ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مؤثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔تاہم، اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا۔ الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزرخارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نہ صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ ’اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے‘۔واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • الفاشر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد شہر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے، اقوام متحدہ
  • پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پر طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ نے تصدیق کردی
  • غزہ، صورتحال میں بہتری کے لیے مزید تعاون درکار ہے: اقوام متحدہ