Daily Ausaf:
2025-07-30@10:07:55 GMT

اسرائیلی حملہ اور دو ریاستی حل

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

ایک طرف فلسطینیوں پر زمین مزید تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے ایران پر ایک اور حملہ کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں ایران کی ٹاپ ملٹری قیادت، نیوکلئیر سائنس دانوں، میزائل کے اڈوں اور کم از کم ایک نیوکلئیر پلانٹ کو نشانہ بنایا گیا جس سے کچھ اہم ایرانی جنرل اور دو ٹاپ نیوکلئیر سائنس دان شہید ہوئے۔ اسرائیل نے دعوی کیا کہ ایرانی فوج کے سربراہ چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری شہید کر دئیے گئے۔ تاہم بعض ایرانی ذرائع اس کی تردید کر رہے ہیں۔
البتہ پاسداران اسلام کے چیف جنرل سلامی کی شہادت کنفرم ہو گئی ہے۔ جنرل غلام علی رشید اور نیوکلیئر سائنس دانوں ڈاکٹر تہرانچی اور فریدون عباسی کی شہادت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
ایرانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ شدید بدلہ لیں گے۔ امریکہ نے آفیشل سطح پر اس حملے کی واضح تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ شائد صدر ٹرمپ اس موقعہ پر یہ کارروائی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایرانی حملوں کو روکیں گے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ نے اپنا عملہ اور ملٹری بیسز سے پہلے ہی طیارے نکال لیئے تھے۔ اس وقت ہر طرف ہائی الرٹ چل رہا ہے اور ایران کی طرف سے شدید جوابی حملے کی توقع کی جارہی ہے۔
لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کو اپنی ’’رئیل اسٹیٹ‘‘ بنانے کا منصوبہ اپنے آغاز کے قریب آ رہا ہے۔ اس حملے سے قبل اچانک سپین، جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے اسرائیلی بربریت پر اسے پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دی تھیں۔ اس حملے سے قبل امریکہ نے بھی بظاہر اسرائیل پر دبائو بڑھایا تھا تاکہ مشرق وسطی میں فلسطین کے مسئلے پر اگلے ’’گیم پلان‘‘ کو شروع کیا جا سکے۔
دوسری طرف جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطی کے دورے پر گئے تھے تو وہ اسرائیل نہیں گئے تھے۔ ایک امریکی صدر مِڈل ایسٹ جائے اور اسرائیل نہ جائے، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس دورے کے دوران اربوں ڈالر کی آرمز ڈیلز سائن ہوئیں، حماس کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک امریکی ہاسٹیج کی رہائی یقینی بنائی گئی، شام پر لگی امریکی پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا گیا، اور یمن میں حوثیوں کے خلاف فضائی حملے ختم کر دیئے گئے۔ ادھر ایران کے ساتھ مذاکرات کی خبریں بھی آتی رہی تھیں، اور حماس نے بھی اِس بات کی تصدیق کی کہ وہ غزہ پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
عرب ممالک کی طرح اگر پاکستان بھی عقل مندی اور عالمی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرے تو فلسطین کے بارے میں اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل پاکستان فلسطینیوں کے پاکستان کے بارے نظریات اور خیالات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس معاملے میں مسلم ممالک کی بے حسی پر بات کریں تو وہ بہت حد تک علاقائی مسائل سے وابستہ ہے۔ اس کو بزدلی سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال پاک بھارت مئی 2025 ء کی جنگ ہے جس میں پاکستان نے بھارت سے کئی گنا چھوٹے اور معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود بھارت کو منہ توڑ شکست سے دوچار کیا۔
جب غزہ کی جنگ کا آغاز ہوا تھا تو اس میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کرنے میں پہل کی تھی۔ پاکستان پر حملہ کرنے میں بھی بھارت نے پہل کی جسے منہ کی کھانی پڑی۔ اب اتنا نقصان کروانے کے باوجود فلسطین کا جلد کوئی حل نہیں نکلتا ہے چاہے وہ’’دو ریاستی‘‘ حل ہی کیوں نہ ہو تو مصدقہ بات ہے کہ فلسطینیوں کی بے رحمانہ نسل کشی یونہی جاری رہے گی۔
اسرائیل کو اگر مسلم امہ کی عظیم ترین عثمانی سلطنت کا جد امجد ترکی تسلیم کر سکتا ہے، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک تسلیم کر سکتے ہیں تو فلسطین کو مکمل آزادی ملنے کی قیمت پر پاکستان اسے کیوں تسلیم نہیں کر سکتا ہے؟ اسرائیل اور ترکی کے درمیان 1949 ء میں اسرائیل کے قیام کے ایک سال کے اندر ہی سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے اور ترکی مسلم اکثریت کا وہ پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا!
حالانکہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کے عین قریب تھا اور یہ ان کی اپنی غلطی سے ہوا کہ انہیں فلسطین کا آباد علاقہ اور دیگر شہر مل رہے تھے.

لیکن انہوں نے تقسیم قبول نہیں کی اور اسرائیل پر حملہ کر دیا، جس پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ، ’’آدھی چھوڑ ساری کو جاوے ، آدھی رہے نہ ساری پاوے‘‘۔
بے شک ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور انشااللہ یہ ظلم بھی مٹ کر ہی رہے گا۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ خود مسلم دنیا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو پروموٹ کرتی ہے کہ اس سے ہمسایہ عرب ممالک بھی ایک دن لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔’’تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے، ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!‘‘مسلم دنیا کو چایئے کہ وہ اسرائیل کو آگے بڑھنے اور مزید طاقتور بنانے سے روکنے کے لیئے اس کی آزادی کو تسلیم کر لیں تاکہ خطے میں امن قائم ہو جائے اور اور غزہ میں سسکتی ہوئی انسانیت کو بھی زندہ رہنے کا حق مل سکے۔
غزہ کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا افسوسناک ہے مگر اس کے بدلے میں غزہ کے مسلمان پناہ گزینوں کو قانونی طور پر یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کنیڈا وغیرہ ایڈجسٹ کرتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ٹھیک ہے مصر اور اردن غزہ کے برباد مسلمان بھائیوں کو قبول نہیں کرتے تو نہ کریں اس سے ’’امہ‘‘ کا تصور باقی بچتا ہی کہاں ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہے۔
اس دور میں سوشل میڈیا سب سے بڑی آواز اور ایک ناگزیر طاقت ہے، اس لئے ہم سب کو مظلوم فلسطینیوں کے لئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے جتنا ہم کر سکتے ہیں اتنا ہمیں کرنا چایئے کہ جب تک اسرائیل کی طرح فلسطین کو ایک مکمل اور خود مختار ریاست کا درجہ نہیں ملتا ہے تب تک دنیا فلسطین کے مسئلے سے منہ موڑے رکھے گی۔
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی غزہ کو ایک پرامن اور پرآسائش’’سیر گاہ‘‘ بنانا چاہتے ہیں تو اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا چایئے تاکہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو سکے جو نہ صرف مشرق وسطی کے امن کے لیئے خطرہ ہے بلکہ پوری دنیا کو بھی ایک دن آگ میں جھونک سکتا ہے۔
اسرائیل کے ایران پر اس تازہ حملے کا پس منظر بھی مسئلہ فلسطین کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ ایران کے ایٹمی منصوبوں اور میزائل طاقت سے اسرائیل خوف زدہ ہے جس بنا پر وہ وقفے وقفے سے ایران پر حملے کرتا رہتا ہے۔ بلفرض، مسئلہ فلسطین دو ریاستی بنیادوں پر حل ہوتا ہے تو غزہ ایک ’’بفر سٹیٹ‘‘ کا درجہ حاصل کر لے گا، اور اس سے آئیندہ پوری دنیا کا امن بھی متاثر نہیں ہو گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے مسلم دنیا بشمول پاکستان مسئلہ فلسطین کے ’’دو ریاستی حل‘‘ کی تجویز پر آمادگی ظاہر کریں کیونکہ جب تک مشرق وسطی میں امن قائم نہیں ہوتا دنیا بھر کا امن

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کو فلسطین کا دو ریاستی امریکہ نے فلسطین کے کے ساتھ حملہ کر اس حملے سکتا ہے

پڑھیں:

نیتن یاہو نے مسئلۂ فلسطین کو دنیا بھر میں زندہ کر دیا ہے، اسرائیلی جنرل

غاصب اسرائیلی فوج کے اعلی جنرل نے غزہ کیخلاف جاری انسانیت سوز اسرائیلی جنگ کے حوالے سے نیتن یاہو کابینہ کی مجرمانہ پالیسیوں اور غزہ کے عوام کو بھوکا مار ڈالنے پر مبنی صیہونی اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ دنیا بھر میں مسئلہ فلسطین کے دوبارہ اُبھر آنیکا اصلی ذمہ دار نیتن یاہو ہے! اسلام ٹائمز۔ قابض اسرائیلی فوج کی آپریشنز برانچ کے سابق سربراہ جنرل اسرائیل زیف نے اعلان کیا ہے کہ نیتن یاہو کابینہ جنگ غزہ میں اپنی حکمت عملی مکمل طور پر کھو چکی ہے اور اب وہ یہ تک نہیں جانتی کہ اس دلدل سے باہر کیسے نکلنا ہے۔ جنرل اسرائیل زیف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ نہ صرف تمام حربے اور فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنے کی تمام کوششیں، حتمی مقاصد کے حصول میں بری طرح سے ناکام رہی ہیں بلکہ اسرائیلی فوج کو بھی مسلسل جانی نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ یہ مسئلہ "خوراک کی جنگ" میں اسرائیل کو ملنے والی "مکمل شکست" کے علاوہ ہے درحالیکہ صیہونی سیاسی رہنما، اب اس شکست کے بھیانک نتائج کی تلافی کرنے کی کوشش میں ہیں۔

صیہونی جنرل نے کہا کہ "قیدیوں کی رہائی" کے مقصد سے، "غزہ کے عوام کو بھوکا مار ڈالنے" کے مقصد تک، اس جنگ کی سمت میں آنے والی تبدیلی نے اسے دنیا بھر کی نظروں میں ایک "لعنتی جنگ" بنا ڈالا ہے جبکہ اس امر نے اب، اس جنگ کو مزید جاری رکھنے کے آخری جواز یعنی "قیدیوں کی واپسی" کو بھی سلب کر لیا ہے۔ صہیونی جنرل نے کہا کہ مسلح عناصر کے ساتھ طویل جنگ کا تو جواز ڈھونڈا جا سکتا ہے لیکن "بھوک کے باعث بچوں کی موت" کا کوئی جواز نہیں گھڑا جا سکتا۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس اسٹریٹجک شکست نے اسرائیل کے خلاف ایک بے مثال عالمی اتحاد کو جنم دیا ہے، جنرل اسرائیل زیف نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف اب ایک عالمی مہم شروع ہو چکی ہے کہ جس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی آئندہ ووٹنگ میں عروج ملے گا جبکہ اس ووٹنگ کو فرانس، برطانیہ و اسپین کی قیادت میں 142 ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے درحالیکہ "فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت" اور "غزہ میں بھوک پر مبنی صیہونی جنگ کی مذمت" میں یورپ کا موقف بھی متحد ہو چکا ہے۔ 

اسرائیلی فوج کی آپریشنز برانچ کے سابق کمانڈر نے کئی ایک عشروں کی "ڈی اسکیلیشن پالیسی" کے بعد، "اسرائیل کے مقابلے میں مسئلۂ فلسطین" کو ایک مرتبہ پھر زندہ کر دینے کا ذمہ دار غاصب صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کو ٹھہرایا اور زور دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کابینہ کی جانب سے جنگ کے انتظام و انصرام میں انجام پانے والی سنگین غلطیوں نے ہی حماس کو ایک "بڑی سیاسی فتح" حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جبکہ "بھوک کی جنگ" نے اسرائیلی فوج کے امیج کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے اسے "اقدار پر مبنی فوج" سے گرا کر "غیر اخلاقی فوج" میں بدل ڈالا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس جنگ کو روکنے کے لئے ڈالے جانے والے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ، حماس کی پوزیشن کو مزید مضبوط کرے گا، صہیونی جنرل نے کہا کہ صرف اور صرف "سیاسی وجوہات" کی بنا پر انجام پانے والے جنگ کے انتظام و انصرام، نے ہی اسرائیل کو بند گلی میں پہنچایا ہے اور یہی امر بالآخر، اس کی حاصل شدہ تمام کامیابیوں کو بھی برباد کر کے رکھ دے گا۔

اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان کے آخر میں، جنرل اسرائیل زیف نے نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں ایک ٹیکنوکریٹک حکومت بنانے اور حماس کو حکومت سے باہر کرنے پر مبنی "مصر کی تجویز" سے اتفاق کرے کیونکہ صرف ایسا کرنے سے ہی اسرائیل، غزہ کی اس گہری دلدل سے "وقار کے ساتھ" باہر نکل اور اپنے "قیدیوں" کو واپس لا سکتا ہے درحالیکہ اس منصوبے کو مسترد کر دینے اور جنگ کو مزید جاری رکھنے کی صورت میں اسرائیل، یقینی طور پر "عبرتناک شکست" کی جانب بڑھے گا!

متعلقہ مضامین

  • 2 ریاستی حل کے حامی، اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ نہیں: اسحاق ڈار
  • 22 ماہ سے جاری وحشیانہ صیہونی حملے، فلسطینی شہداء کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کرگئی
  • غزہ: غیر یقینی جنگ بندی کے دوران مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر کانفرنس
  • اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے دلیرانہ اقدامات ضروری، گوتیرش
  • امریکا، اسرائیل کا فلسطین کے دو ریاستی حل سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس کا بائیکاٹ
  • دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے، قبضہ ختم کرنے کا وقت آ گیا، یو این سیکرٹری جنرل
  • نیتن یاہو نے مسئلۂ فلسطین کو دنیا بھر میں زندہ کر دیا ہے، اسرائیلی جنرل
  • دو ریاستی حل کے سوا فلسطین-اسرائیل تنازعہ کا کوئی متبادل نہیں، فرانسوی وزیر خارجہ
  • اسرائیل کا غزہ امداد لے جانے والی کشتی حنظلہ پر حملہ، 21سماجی کارکن، عملہ اغوا
  • عالمی دباو، اسرائیل کا غزہ کے 3علاقوں میں روز 10گھنٹے کیلئے حملے روکنے کا اعلان