اسرائیلی حملہ اور دو ریاستی حل
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
ایک طرف فلسطینیوں پر زمین مزید تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل نے ایران پر ایک اور حملہ کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے میں ایران کی ٹاپ ملٹری قیادت، نیوکلئیر سائنس دانوں، میزائل کے اڈوں اور کم از کم ایک نیوکلئیر پلانٹ کو نشانہ بنایا گیا جس سے کچھ اہم ایرانی جنرل اور دو ٹاپ نیوکلئیر سائنس دان شہید ہوئے۔ اسرائیل نے دعوی کیا کہ ایرانی فوج کے سربراہ چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری شہید کر دئیے گئے۔ تاہم بعض ایرانی ذرائع اس کی تردید کر رہے ہیں۔
البتہ پاسداران اسلام کے چیف جنرل سلامی کی شہادت کنفرم ہو گئی ہے۔ جنرل غلام علی رشید اور نیوکلیئر سائنس دانوں ڈاکٹر تہرانچی اور فریدون عباسی کی شہادت کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
ایرانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ شدید بدلہ لیں گے۔ امریکہ نے آفیشل سطح پر اس حملے کی واضح تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ شائد صدر ٹرمپ اس موقعہ پر یہ کارروائی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن امریکہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایرانی حملوں کو روکیں گے۔ مڈل ایسٹ میں امریکہ نے اپنا عملہ اور ملٹری بیسز سے پہلے ہی طیارے نکال لیئے تھے۔ اس وقت ہر طرف ہائی الرٹ چل رہا ہے اور ایران کی طرف سے شدید جوابی حملے کی توقع کی جارہی ہے۔
لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کو اپنی ’’رئیل اسٹیٹ‘‘ بنانے کا منصوبہ اپنے آغاز کے قریب آ رہا ہے۔ اس حملے سے قبل اچانک سپین، جرمنی اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے اسرائیلی بربریت پر اسے پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دی تھیں۔ اس حملے سے قبل امریکہ نے بھی بظاہر اسرائیل پر دبائو بڑھایا تھا تاکہ مشرق وسطی میں فلسطین کے مسئلے پر اگلے ’’گیم پلان‘‘ کو شروع کیا جا سکے۔
دوسری طرف جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطی کے دورے پر گئے تھے تو وہ اسرائیل نہیں گئے تھے۔ ایک امریکی صدر مِڈل ایسٹ جائے اور اسرائیل نہ جائے، ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ اس دورے کے دوران اربوں ڈالر کی آرمز ڈیلز سائن ہوئیں، حماس کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک امریکی ہاسٹیج کی رہائی یقینی بنائی گئی، شام پر لگی امریکی پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا گیا، اور یمن میں حوثیوں کے خلاف فضائی حملے ختم کر دیئے گئے۔ ادھر ایران کے ساتھ مذاکرات کی خبریں بھی آتی رہی تھیں، اور حماس نے بھی اِس بات کی تصدیق کی کہ وہ غزہ پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہا ہے۔
عرب ممالک کی طرح اگر پاکستان بھی عقل مندی اور عالمی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرے تو فلسطین کے بارے میں اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اہل پاکستان فلسطینیوں کے پاکستان کے بارے نظریات اور خیالات سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں۔ اس معاملے میں مسلم ممالک کی بے حسی پر بات کریں تو وہ بہت حد تک علاقائی مسائل سے وابستہ ہے۔ اس کو بزدلی سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال پاک بھارت مئی 2025 ء کی جنگ ہے جس میں پاکستان نے بھارت سے کئی گنا چھوٹے اور معاشی طور پر کمزور ہونے کے باوجود بھارت کو منہ توڑ شکست سے دوچار کیا۔
جب غزہ کی جنگ کا آغاز ہوا تھا تو اس میں حماس نے اسرائیل پر حملہ کرنے میں پہل کی تھی۔ پاکستان پر حملہ کرنے میں بھی بھارت نے پہل کی جسے منہ کی کھانی پڑی۔ اب اتنا نقصان کروانے کے باوجود فلسطین کا جلد کوئی حل نہیں نکلتا ہے چاہے وہ’’دو ریاستی‘‘ حل ہی کیوں نہ ہو تو مصدقہ بات ہے کہ فلسطینیوں کی بے رحمانہ نسل کشی یونہی جاری رہے گی۔
اسرائیل کو اگر مسلم امہ کی عظیم ترین عثمانی سلطنت کا جد امجد ترکی تسلیم کر سکتا ہے، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک تسلیم کر سکتے ہیں تو فلسطین کو مکمل آزادی ملنے کی قیمت پر پاکستان اسے کیوں تسلیم نہیں کر سکتا ہے؟ اسرائیل اور ترکی کے درمیان 1949 ء میں اسرائیل کے قیام کے ایک سال کے اندر ہی سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے اور ترکی مسلم اکثریت کا وہ پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا!
حالانکہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کے عین قریب تھا اور یہ ان کی اپنی غلطی سے ہوا کہ انہیں فلسطین کا آباد علاقہ اور دیگر شہر مل رہے تھے.
بے شک ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور انشااللہ یہ ظلم بھی مٹ کر ہی رہے گا۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ خود مسلم دنیا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو پروموٹ کرتی ہے کہ اس سے ہمسایہ عرب ممالک بھی ایک دن لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔’’تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے، ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!‘‘مسلم دنیا کو چایئے کہ وہ اسرائیل کو آگے بڑھنے اور مزید طاقتور بنانے سے روکنے کے لیئے اس کی آزادی کو تسلیم کر لیں تاکہ خطے میں امن قائم ہو جائے اور اور غزہ میں سسکتی ہوئی انسانیت کو بھی زندہ رہنے کا حق مل سکے۔
غزہ کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونا افسوسناک ہے مگر اس کے بدلے میں غزہ کے مسلمان پناہ گزینوں کو قانونی طور پر یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور کنیڈا وغیرہ ایڈجسٹ کرتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ٹھیک ہے مصر اور اردن غزہ کے برباد مسلمان بھائیوں کو قبول نہیں کرتے تو نہ کریں اس سے ’’امہ‘‘ کا تصور باقی بچتا ہی کہاں ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہے۔
اس دور میں سوشل میڈیا سب سے بڑی آواز اور ایک ناگزیر طاقت ہے، اس لئے ہم سب کو مظلوم فلسطینیوں کے لئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے جتنا ہم کر سکتے ہیں اتنا ہمیں کرنا چایئے کہ جب تک اسرائیل کی طرح فلسطین کو ایک مکمل اور خود مختار ریاست کا درجہ نہیں ملتا ہے تب تک دنیا فلسطین کے مسئلے سے منہ موڑے رکھے گی۔
اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واقعی غزہ کو ایک پرامن اور پرآسائش’’سیر گاہ‘‘ بنانا چاہتے ہیں تو اس کا خوش دلی سے خیر مقدم کرنا چایئے تاکہ فلسطین کا مسئلہ حل ہو سکے جو نہ صرف مشرق وسطی کے امن کے لیئے خطرہ ہے بلکہ پوری دنیا کو بھی ایک دن آگ میں جھونک سکتا ہے۔
اسرائیل کے ایران پر اس تازہ حملے کا پس منظر بھی مسئلہ فلسطین کے ساتھ جڑا ہوا ہے کیونکہ ایران کے ایٹمی منصوبوں اور میزائل طاقت سے اسرائیل خوف زدہ ہے جس بنا پر وہ وقفے وقفے سے ایران پر حملے کرتا رہتا ہے۔ بلفرض، مسئلہ فلسطین دو ریاستی بنیادوں پر حل ہوتا ہے تو غزہ ایک ’’بفر سٹیٹ‘‘ کا درجہ حاصل کر لے گا، اور اس سے آئیندہ پوری دنیا کا امن بھی متاثر نہیں ہو گا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن قائم کرنے کے لیئے مسلم دنیا بشمول پاکستان مسئلہ فلسطین کے ’’دو ریاستی حل‘‘ کی تجویز پر آمادگی ظاہر کریں کیونکہ جب تک مشرق وسطی میں امن قائم نہیں ہوتا دنیا بھر کا امن
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کو فلسطین کا دو ریاستی امریکہ نے فلسطین کے کے ساتھ حملہ کر اس حملے سکتا ہے
پڑھیں:
ریاستی درجہ کی بحالی سے بی جے پی حکومت مُکر رہی ہے، بے اختیاروزیراعلیٰ کی دہائی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سری نگر:۔ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بی جے پی کی بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں کیا گیا اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے علاقے کی ریاستی حیثیت بحال کرے۔
انہوں نے کہا کہ مبہم یقین دہانیاں اب قابل قبول نہیں ہیں، ہمیں ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے ایک واضح روڈ میپ چاہیے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ نے سرینگر کے علاقے قمرواری میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے کہا تھا کہ انتخابات کے بعد ریاست کا درجہ بحال کیاجائے گا، لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ صحیح وقت کا انتظار کریں۔ انہوں نے سوال کیا کہ بھارتی حکومت ریاستی درجہ بحال کرنے سے آخر ڈر کیوں رہی ہے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ بطور وزیر اعلیٰ مجھے ریاست کی بحالی کے لیے طے شدہ وقت سے آگاہ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ملازمین کو برطرف کیا جارہا ہے ، لوگوں کو گھروں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور ہم اس صورتحال سے لوگوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد علاقے کا سیاحت کا شعبہ متاثر ہوا ہے۔ ہاﺅس بوٹس خالی پڑے ہیں، ٹیکسی ڈرائیور پریشان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری میرے پاس نہیں، خامیوں، کوتاہیوں کو دور کرنا میرے بس میں نہیں کیونکہ مجھے اس حوالے سے اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔