ان فنڈز میں سے 32 ہزار 500 اسکولوں میں 5.9 ملین طلبا وطالبات کے لیے کلاس رومز کی مرمت اور تدریسی مواد کی فراہمی، غیرنصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے مالی سال 26-2025 کے لیے تعلیمی بجٹ 327 ارب روپے سے بڑھا کر363 ارب روپے کر دیا جو رواں مالی سال سے 11 فیصد زائد ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبے کا مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کردیا اور صوبائی حکومت نے اسکولوں میں بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے۔ ان فنڈز میں سے 32 ہزار 500 اسکولوں میں 5.

9 ملین طلبا وطالبات کے لیے کلاس رومز کی مرمت اور تدریسی مواد کی فراہمی، غیرنصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔

گرلز کمیونٹی اسکولوں کی معلمات کے لیے 1593 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں، مفت درسی کتب کی فراہمی کے لیے 8545 ملین روپے کی تخصیص کے علاوہ ڈی آئی خان میں گرلز کیڈٹ کالج کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اسی طرح صوبے کے 10تاریخی اسکولوں کے تحفظ اور بحالی کے لیے 855ملین روپے رکھے گئے ہیں، اگلے مالی سال کے دوران اسکولوں سے باہر بچوں کا 50 فیصد انرول کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے، اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے والدین اور اساتذہ کی کونسلوں کے ذریعے ایک ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی فراہمی مالی سال کے لیے

پڑھیں:

بھارت میں طلبہ کی خودکشیوں میں اضافہ: اصل وجہ کیا ہے؟

بھارت میں ہر سال ہزاروں نوجوان اپنی جان لے لیتے ہیں جو ایک ایسا بحران جو اعدادوشمار سے کہیں زیادہ انسانی المیہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی طلبہ بھارتیوں پر سبقت لے گئے

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق نیشنل کرائم ریکارڈز بیور کے اعدادوشما کہتے ہیں کہ سال 2022 میں تقریباً 13،000 طلبہ نے خودکشی کی جو ملک میں ہونے والی مجموعی خودکشیوں کا 7.6 فیصد ہیں۔

یہ تعداد صرف ایک عددی اظہار نہیں بلکہ ایک بڑے معاشرتی، نفسیاتی اور تعلیمی دباؤ کی عکاسی ہے جس کا سامنا بھارت کے لاکھوں نوجوانوں کو ہے۔

شدید تعلیمی دباؤ اور معاونت کی کمی

ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارت میں طلبہ کی خودکشیوں کا رجحان صرف تعلیمی ناکامیوں سے نہیں بلکہ شدید مسابقتی ماحول، جذباتی معاونت کے فقدان اور زندگی کی مہارتوں کے فقدان سے جڑا ہے۔

نیورو سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر انجلی ناگپال کہتی ہیں کہ ہم بچوں کو امتحانات کے لیے تیار کرتے ہیں، زندگی کے لیے نہیں اور انہیں سیکھنے کے بجائے صرف کامیابی کی دوڑ میں دھکیلا جاتا ہے۔

مزید پڑھیے: بھارتی ریاست بہار: ایک سالہ بچے نے کوبرا کو کاٹ لیا، سانپ ہلاک، بچہ بے ہوش

یہی بات دہراتے ہوئے سوسائیڈ پریوینشن انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسیٰ کہتے ہیں کہ بھارتی تعلیمی نظام میں ایک خاموش اضطراب پھیل رہا ہے اور سخت گریڈنگ، زہریلی مسابقت، اور ناقص ذہنی صحت کے ڈھانچے نے بہت سے طلبہ کو ٹوٹنے کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

’خودکشی نظام کی ناکامی‘

یونیورسٹی آف میلبورن اور بھارت کے معروف اداروں کی سنہ 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق 9 بھارتی ریاستوں کی 30 یونیورسٹیوں میں 8،500 سے زائد طلبہ میں سے 12 فیصد نے خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا جبکہ 6.7 فیصد نے زندگی میں کم از کم ایک بار خودکشی کی کوشش کی۔

یہ شرحیں عالمی اوسط سے خاصی بلند ہیں اور بھارت کے تعلیمی نظام کی گہرائی میں موجود بحران کو بے نقاب کرتی ہیں۔

حکومتی اقدامات ناکافی کیوں؟

بھارتی حکومت نے حالیہ برسوں میں ذہنی صحت سے متعلق کچھ اقدامات کیے ہیں جن میں طلبہ، اساتذہ اور والدین کے لیے کونسلنگ پروگرامز شامل ہیں۔ تاہم ماہرین اسے ناکافی قرار دیتے ہیں۔

وزیر مملکت برائے تعلیم سکانت مجمدار نے پارلیمنٹ میں تسلیم کیا کہ شدید تعلیمی دباؤ کمزور طلبہ کو متاثر کر رہا ہے اور حکومت کو اس سلسلے میں مزید کثیر الجہتی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

’گیٹ کیپر تربیت‘

ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ’گیٹ کیپر‘ تربیت عام کی جائے، یعنی ایسے پروگرامز جن میں اساتذہ اور عملے کو طلبہ میں خودکشی کے خطرات پہچاننے، ابتدائی مدد فراہم کرنے اور فوری اقدامات کی تربیت دی جاتی ہے۔

نیلسن موسیٰ کے مطابق ہمیں کیمپسز میں زندگی کی مہارتوں، جذباتی ذہانت اور دباؤ سے نمٹنے کے عملی کورسز متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔

کامیابی کا تصور اور نوجوانوں کی بے بسی

3 دہائیوں کا تجربہ رکھنے والے ماہر نفسیات آچل بھگت نے کہا کہ ہمارا معاشرہ کامیابی کو صرف اعلیٰ نمبروں یا امتحان کی جیت تک محدود رکھتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صنفی تفریق، تشدد، روزگار کے مواقع کی کمی اور سماجی گفتگو کی کمی نوجوانوں کو ایک گہرے خلا میں دھکیل دیتی ہے جہاں انہیں اپنی زندگی بے معنی محسوس ہونے لگتی ہے۔

سپریم کورٹ کی مداخلت

بھارتی سپریم کورٹ نے خودکشی کے بڑھتے رجحان کو ’خودکشی کی وبا‘ قرار دیتے ہوئے مارچ 2024 میں ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو تعلیمی اداروں میں ذہنی صحت کے ڈھانچے، پالیسی تجاویز اور مشاورتی عمل کی نگرانی کر رہی ہے۔ تاہم، زمینی سطح پر اب بھی بہت کام باقی ہے۔

آگے کا راستہ: ایک جامع تبدیلی کی ضرورت

اس وقت بھارت کو صرف ایک تعلیمی اصلاحات کی نہیں بلکہ ایک سماجی اور نفسیاتی بیداری کی ضرورت ہے۔

کامیابی کی تعریف کو وسیع کرنا، والدین اور اساتذہ کی تربیت، اور تعلیمی نظام کو انسان دوست بنانا وہ اقدامات ہیں جن کے بغیر یہ بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا۔

مزید پڑھیں: احمد آباد طیارہ کریش: جہاز جس میڈیکل ہاسٹل پر گرا، وہاں کیا گزری؟

مہیشور پیری، جو کریئرز360 کے بانی ہیں، کہتے ہیں کہ طلبہ کو ایک دن کے امتحان سے نہیں، زندگی کے مجموعی تجربے سے پرکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے لیے ایک مضبوط تحفظاتی نظام تیار کرنا ہوگا تاکہ وہ تنہا نہ ہوں، اور ان کے پاس مدد لینے کے واضح اور قابل رسائی راستے ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت بھارت کے طلبہ بھارت کے طلبہ میں خودکشی کا رجحان بھارت کے نوجوان خودکشی کا رجحان

متعلقہ مضامین

  • 5 اگست حکومت کیلئے ایک بڑا سرپرائز کا دن ہے: بیرسٹر سیف
  • خیبر پختونخوا: پی ٹی آئی اراکین ناراض، کیا گنڈاپور حکومت کے خلاف اندرونی بغاوت ہو رہی ہے؟
  • ٹیچنگ لائسنس کا اجراء: ہمیں اسکولوں سے زیادہ باصلاحیت اساتذہ چاہئیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • مہنگائی ایک سال میں 23.4سے کم ہو کر 4.5فیصد ہوگئی ‘ وزارت خزانہ ماہانہ اقتصادی آئوٹ لک جاری 
  • مہنگائی کی شرح ایک سال میں 23.4 فیصد سے کم ہوکر 4.5 فیصد پر پہنچ گئی، وزارت خزانہ
  • وزیراعلیٰ کی تیراہ واقعے کی مذمت، جاں بحق افراد کیلئے فی کس ایک کروڑ روپے کا اعلان
  • بھارت میں طلبہ کی خودکشیوں میں اضافہ: اصل وجہ کیا ہے؟
  • گیس کی فی یونٹ قیمت میں 590 روپے کا ہوشربا اضافہ
  • تیراہ واقعہ: خیبر پختونخوا حکومت کا لواحقین کیلئے ایک کروڑ روپے امداد کا اعلان
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی تیراہ واقعے کی مذمت،جاں بحق افراد کیلیے فی کس ایک کروڑ روپے امداد کا اعلان