جی سیون گروپ سے روس کو باہر رکھنا غلط ہے، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2025ء) کینیڈا میں جمع ہونے والے جی سیون ممالک کے رہنماؤں نے پیر کے روز کی کارروائی کے اختتام پر جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں ایران اسرائیل تنازعے کو کم کرنے پر زور دیا۔
ان رہنماؤں نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایرانی بحران کے حل سے غزہ میں جنگ بندی سمیت مشرق وسطیٰ میں دشمنی میں وسیع پیمانے پر کمی آئے گی۔
گروپ نے ایک مشترکہ بیان میں مشرق وسطیٰ کے خطے میں "امن اور استحکام کے لیے اپنی وابستگی" کا اعادہ کیا اور کہا کہ اس تناظر میں "اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔"
سب کو فوراﹰ تہران خالی کر دینا چاہیے، ڈونلڈ ٹرمپ
گروپ کا ایران کی جوہری صلاحیتوں پر اپنے موقف کا اعادہجی سیون ممالک کے رہنماؤں کے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
(جاری ہے)
ہم مسلسل اس بات پر واضح رہے ہیں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔"ایرانی حکومت کا مسلسل دعویٰ رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین نوعیت کا ہے اور زیادہ تر ماہرین اور مغربی انٹیلیجنس ایجنسیاں بھی اس بات سے متفق ہیں کہ ایران فی الحال جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے۔
کینیڈا: جی سیون اجلاس میں عالمی تنازعات توجہ کا مرکز
مشرقی وسطی میں بحران کے شدید تر ہونے کے سبب ہی صدر ٹرمپ سربراہی کانفرنس سے جلدی واپس چلے گئے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی صدر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور میکسیکو کے صدر کلاڈیا شین بام کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں سے محروم رہیں گے، جو سربراہی اجلاس کے آخری دن منگل کو ہونے والی تھیں۔ جی سیون گروپ سے روس کو نکالنا غلطامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اس گروپ کی جانب سے روس کو اس سے باہر نکال دینا ایک غلطی ہے۔
سن 2014 تک روس اس گروپ کا حصہ تھا، جسے جی ایٹ کہا جاتا تھا، تاہم کریمیا کے روس میں الحاق کرنے کے بعد اسے گروپ سے نکال دیا گیا تھا۔ٹرمپ نے کینیڈا کے سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "جی 7سیون پہلے جی 8 ہوا کرتا تھا۔ براک اوباما اور ٹروڈو نامی شخص روس کو شامل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اور میں کہوں گا کہ یہ ایک غلطی تھی، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ کے پاس روس ہوتا تو اس وقت آپ کی جنگ نہیں ہو رہی ہوتی، اور اگر ٹرمپ چار سال پہلے صدر ہوتے تو ابھی جنگ نہیں ہوتی۔
"کینیڈا میں جی سیون سمٹ میں بھارت چھ برسوں میں پہلی بار مدعو نہیں
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا، "پوٹن مجھ سے بات کرتے ہیں۔ وہ کسی اور سے بات نہیں کرتے۔۔۔ وہ اس کے بارے میں خوش نہیں ہیں۔"
امریکی رہنما نے یہ بھی کہا کہ انہیں چین کی جی سیون گروپ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ جی سیون کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر جو حتمی اعلامیہ تیار ہو گا، اس دستاویز پر دستخط کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جی سیون روس کو کہا کہ ہیں کہ اس بات
پڑھیں:
وینزویلا کے اندر حملے زیر غور نہیں ہیں‘ ٹرمپ کی تردید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینزویلا کے اندر فوجی اہداف کو نشانہ بنانے کے فیصلے کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کی ان خبروں کی تردید کردی ہے کہ انہوں نے حملے کی منظوری دی تھی۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری اینا کیلی سے جب اس رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اخبار نے جن ذرائع کا حوالہ دیا ہے وہ نہیں جانتیں کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں اور ٹرمپ کی طرف سے کوئی بھی اعلان آئے گا۔ میامی ہیرالڈ نے جمعہ کے روز اطلاع دی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے وینزویلا کے اندر فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کہ حملے کسی بھی وقت ہوسکتے ہیں۔وال اسٹریٹ جرنل کی طرف سے بھی رپورٹ کردہ منصوبہ بند حملوں کا مقصد منشیات کے کارٹیل کے زیر استعمال فوجی تنصیبات کو تباہ کرنا ہے۔ ان تنصیبات کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ یہ وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو کے زیر کنٹرول ہیں اور ان کی حکومت کے سینئر ارکان چلاتے ہیں۔ اہداف کا مقصد کارٹیل کی قیادت کو منقطع کرنا بھی ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ کارٹیل سالانہ تقریباً 500 ٹن کوکین برآمد کرتا ہے جسے یورپ اور امریکا کے درمیان پھیلایا جاتا ہے۔ واشنگٹن نے مادورو کی گرفتاری کی اطلاع کے لیے اپنے انعام کو دگنا کر کے 5 کروڑ ڈالر کر دیا ہے جو تاریخ کا سب سے بڑا انعام ہے۔ یہ فی الحال وزیر داخلہ ڈیوسڈاڈو کابیلو سمیت اپنے کئی اعلیٰ معاونین کی گرفتاری کے لیے ڈھائی کروڑ ڈالر تک کے انعامات کی پیشکش بھی کر رہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کارٹیل کی کارروائیاں چلا رہے ہیں۔ امریکی منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات کا سامنا کرنے والی حکومت کی دیگر اہم شخصیات میں وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرینو لوپیز بھی شامل ہیں۔