امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی سے خود کو دور کیوں رکھ رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
جمعہ 13 جون کی صبح جب اسرائیلی طیاروں نے ایران پر بمباری کی تو مشہور جریدے دی گارڈین نے لکھا کہ ’امریکا نے خود کو اس جنگ سے جلد علیحدہ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ اس اسرائیلی جارحیت سے مشرق وسطیٰ میں مکمل جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اسرائیل کے اس یکطرفہ اقدام نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے شروع کیے گئے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: اس سے قبل کہ دیر ہو جائے ایران کو کشیدگی کم کرنے پر بات کرنی چاہیے، ٹرمپ
امریکی وزیر خارجہ (سیکریٹری آف اسٹیٹ) مارکو روبیو نے اپنے بیان میں اسرائیلی جارحیت کو یکطرفہ اقدام قرار دیا اور کہا کہ ایران کے خلاف اس حملے میں ہم ملوث نہیں ہیں اور ہمارا مقصد خطے میں صرف امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ 13 جون سے کہہ رہا ہے کہ اگر ایران امریکی مفادات پر حملہ نہیں کرتا تو ہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
لیکن اگروسیع تناظر میں ایران اسرائیل جھڑپوں میں صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کے غیر جانبداری کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو جو چیزیں سمجھ آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ امریکا اس جنگ میں مکمل طور پر غیر جانبدار تو نہیں بلکہ میزائل فراہم کرنے میں اسرائیل کا مددگار ہے اور دوسری طرف سفارتی اور باضابطہ طور پر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ سفارتی سطح پر اس جنگ کے حامی نظر نہیں آتے۔ جس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور سیاسی حکمت عملی کے کلیدی نکات درج ذیل ہیں۔
ٹرمپ سفارتکاری کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتے ہیںمزید پڑھیے: ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کا اسرائیلی منصوبہ مسترد کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مواد کی افزودگی کے لیے ایران کو نیوکلیئر ڈیل کی پیشکش کی اور اس کے لیے سفارتی مذاکرات پر زور دیا ہے، خاص طور پر عمان میں مذاکرات کے امکانات کو ترجیح دی۔
انہوں نے اسرائیل سے کہا کہ وہ ایران پر حملوں کو روکے تاکہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کے قتل کی تجویز کو مسترد کیا۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے بیانات، جیسے کہ ’خونریز جنگ‘ کو ختم کرنے کے لیے معاہدے کی حمایت، ان کی اسرائیلی جارحیت سے انحراف کی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔
’سب سے پہلے امریکا‘ پالیسیصدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکا کو غیر ملکی جنگوں سے نکالیں گے اور مشرق وسطیٰ میں نئے تنازعات سے گریز کریں گے۔ ان کے حامی ایران اسرائیل جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف ہیں۔
سفارت کاری کی گنجائش رکھناصدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے تعلقات ایران اور غزہ کے معاملات پر اختلافات کی وجہ سے زیادہ اچھے نہیں تھے لیکن نیتن یاہو کی ایران پر فوجی کارروائی نے امریکی صدر کو مزید پریشانی میں مبتلا کیا۔ صدر ٹرمپ اس معاملے میں مذاکرات کی گنجائش رکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ اسرائیل کی محدود حد تک حمایت کرنا چاہتے ہیںصدر ٹرمپ اسرائیل کے حامی تو ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ امریکا اس کی جنگ کا براہِ راست فریق بنے۔
مزید پڑھیں: پاکستان اور بھارت کی جنگ رکوائی، ایران و اسرائیل کے درمیان بھی جلد معاہدہ ہوگا : ڈونلڈ ٹرمپ
کونسل آن فارن ریلیشنز تھنک ٹینک کے ایلیٹ ایبرامز لکھتے ہیں کہ ’ٹرمپ نے پہلے اسرائیل کے حملے سے آگاہی ظاہر کی، پھر خود کو الگ کر لیا، پھر تعریف بھی کی، یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ وہ شریک دکھنا چاہتے ہیں، ملوث نہیں‘۔
جغرافیائی اور تجارتی سیاسی حکمت عملیصدر ٹرمپ تجارت بڑھانے پر زور دینے والے رہنما ہیں۔ وہ ایک علاقائی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسی جنگ جو عالمی تیل منڈیوں کو متاثر کرے، تاہم صدر ٹرمپ کے متضاد بیانات، جیسا کہ ایک طرف شمولیت سے انکار، دوسری طرف اسرائیل کی حمایت اس بات کو ظاہر کرتی ہے حالیہ بحران بے حد پیچیدہ نوعیت کا حامل ہے جبکہ صدر ٹرمپ اپنی ’امن ساز‘ میراث کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران اسرائیل تنازع اور ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی ٹرمپ الگ تھلگ کیوں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل تنازع اور ٹرمپ ایران اسرائیل کشیدگی ایران اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر اسرائیل کے چاہتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
ایک دن آئے گا جب پاکستان تیل بھارت کو بیچے گا، ٹرمپ کو یہ بیان کیوں دینا پڑا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان تیل بھارت کو بیچے گا۔
سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ توانائی کے شعبے میں ایک بڑے تجارتی معاہدے کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر کی ترقی کے لیے مشترکہ طور پر کام کریں گے۔ اس پیش رفت کا مقصد نہ صرف دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا ہے بلکہ امریکی تجارتی خسارے کو بھی کم کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کا امریکا اور پاکستان کی تجارتی ڈیل کا اعلان، تیل کے ذخائر پر بھی تعاون ہوگا
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرتھ سوشل‘ پر جاری ایک بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم نے ابھی پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ مکمل کیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک مل کر پاکستان کے بڑے تیل کے ذخائر کو ترقی دیں گے۔
ہم اس وقت اس آئل کمپنی کے انتخاب کے مرحلے میں ہیں جو اس شراکت داری کی قیادت کرے گی۔ کون جانے، شاید ایک دن وہ بھارت کو بھی تیل بیچنا شروع کر دیں‘۔
امریکا نے بھارت کو دیا زور کا جھٹکادوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم اگست سے بھارت سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارت کو اسی تاریخ سے ایک اور غیر متعین ‘سزا’ کا بھی سامنا کرنا پڑے گا تاہم انہوں نے اس سزا کی نوعیت یا مقدار کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ بھارت ہمارا دوست ہے لیکن ہم نے برسوں میں ان سے بہت کم تجارت کی ہے کیونکہ اُن کے ٹیرف دنیا میں سب سے زیادہ ہیں اور اُن کی غیر مالیاتی تجارتی رکاوٹیں بھی انتہائی سخت اور ناقابل قبول ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے ہمیشہ روس سے بڑی مقدار میں فوجی ساز و سامان خریدا ہے اور چین کے ساتھ مل کر وہ روس سے توانائی کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے، ایسے وقت میں جب دنیا چاہتی ہے کہ روس یوکرین میں قتل و غارت بند کرے، یہ تمام چیزیں اچھی نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: یورپی یونین 30 فیصد امریکی ٹیرف سے بچ گیا، امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے
واضح رہے کہ اس سے قبل آج ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے زیر التوا تجارتی معاہدہ طے نہ پایا تو بھارتی درآمدات پر 25 فیصد تک ٹیرف عائد کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا پاکستان تجارتی معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت تیل