کراچی کے دیہی علاقے، ترقی کے منتظر
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
کراچی، جو ملک کا معاشی حب ہے، اس کی چمکتی روشنیوں اور فلائی اوورزکے پیچھے ایک تاریک تصویر چھپی ہوئی ہے، وہ تصویر جسے ہم ’’ کراچی کے دیہی علاقے‘‘ کہتے ہیں۔ ان دیہی علاقوں میں شہرکی قدیم آبادی بس رہی ہے۔ ان قدیم آبادیوں میں مبارک ولیج، ریڑھی گوٹھ، ابراہیم حیدری، گابو پٹ، لعل بکھر،گڈاپ، منگھوپیر،گڈاپ، لٹھ بستی اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
ان علاقوں میں رہنے والی آبادی کو آج بھی نلکے کے پانی، نکاسی آب اور صفائی ستھرائی جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ اکثرگاؤں میں پانی کی ضروریات صرف واٹر ٹینکرز کے ذریعے پوری کی جاتی ہیں۔ زیادہ تر علاقوں میں بجلی اور ٹیلی فون کی سہولت بھی موجود نہیں، جب کہ سڑکوں کی حالت نہایت خراب ہے۔ کچھ ہی سڑکیں ہیں جو کارپٹڈ ہیں، باقی صرف کچی یا ٹوٹی پھوٹی ہیں۔ دیہی علاقوں کی اکثریتی آبادی سندھی اور بلوچی بولنے والے افراد پر مشتمل ہے، جو کچے پکے گھروں میں رہائش پذیر ہیں۔ اکثر لوگ زراعت سے منسلک ہیں، جب کہ ساحلی علاقوں میں ماہی گیری ذریعہ معاش ہے۔
تعلیم کی صورتحال بھی تشویشناک ہے، جہاں شرح خواندگی قومی اوسط سے کہیں کم ہے۔ اکثریتی لوگ یا تو محنت کش مزدور ہیں یا کسان۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث درجنوں خواتین اور بچے معمولی بیماریوں میں ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود کئی ڈسپنسریاں بغیر عملے کے ہیں، جب کہ ان کے نام پر تنخواہیں باقاعدگی سے جاری کی جاتی ہیں۔ بخار،گٹھیا، ملیریا اور پیٹ کے امراض یہاں عام ہیں، جب کہ خوراک کی کمی اور غربت نے عوام کو مزید کمزور بنا دیا ہے۔ کراچی کے نواح میں واقع پسماندہ مگر خوبصورت ماہی گیر بستی مبارک ولیج طویل عرصے سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
ساحلِ سمندر سے قریب واقع اس گاؤں کے مکینوں کا گزر بسر مچھلی کے شکار پر ہے، مگر علاج و معالجہ جیسی بنیادی سہولت آج بھی ان کے لیے خواب بنی ہوئی ہے۔ مبارک ولیج میں ایک عالیشان میٹرنٹی ہوم کی عمارت تعمیرکی گئی تھی جسے سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال کے دورِ نظامت میں مکمل کیا گیا۔ جدید طرزِ تعمیر سے آراستہ اس عمارت کو ماہی گیروں کی خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے ایک انقلابی قدم تصورکیا جا رہا تھا، مگر افسوس کہ منصوبہ مکمل ہونے کے باوجود یہ اسپتال کبھی فعال نہ ہو سکا، جب مصطفیٰ کمال کی مدت ختم ہوئی تو یہ منصوبہ انتظامی توجہ سے محروم ہوگیا۔ عمارت اگرچہ مکمل ہے، لیکن اس میں نہ ڈاکٹرز تعینات ہیں اور نہ ہی میڈیکل اسٹاف موجود ہے۔
آلات، سہولیات اور بنیادی عملے کی عدم دستیابی کے سبب یہ میٹرنٹی ہوم برسوں سے بند پڑا ہے اور اس کے در و دیوار خاموشی سے سرکاری غفلت کا ماتم کررہے ہیں۔ ان معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ موجودہ میئرکراچی، بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے علم میں بھی لایا گیا ہے، مگر تاحال کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔ صرف زبانی یقین دہانیاں کی گئی ہیں، جب کہ زمینی صورتحال جوں کی توں ہے۔
اس غفلت کا سب سے بڑا نقصان مبارک ولیج کے غریب ماہی گیر خاندانوں کو ہو رہا ہے، جنھیں معمولی بیماری یا زچگی کے دوران کراچی شہرکا طویل اور مہنگا سفر کرنا پڑتا ہے، اکثر خواتین بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور کئی قیمتی جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔ یہ صورتحال صرف صحت عامہ کا مسئلہ نہیں بلکہ گورننس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ جب ایک مکمل تیار سرکاری ادارہ برسوں سے بند پڑا ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ترجیحات کا تعین عوامی ضرورت کے بجائے کسی اور بنیاد پرکیا جا رہا ہے۔
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور معاشی مرکز کہلانے والا شہر، ایک طویل عرصے سے شہری اور دیہی تقسیم کا شکار رہا ہے۔ 2023 میں ایک بڑی انتظامی تبدیلی کے تحت کراچی میونسپل کارپوریشن (KMC) اور ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کو ضم کردیا گیا، جس کا بنیادی مقصد یہ بتایا گیا کہ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان ترقیاتی تفاوت کو ختم کیا جائے۔ اس انضمام کے نتیجے میں تقریباً 25 یونین کونسلز، جو پہلے ڈسٹرکٹ کونسل کا حصہ تھیں، اب کے ایم سی میں شامل کردی گئیں۔ اس اقدام کو اُس وقت ایک ’’ انقلابی فیصلہ‘‘ قرار دیا گیا، جس سے توقع تھی کہ کراچی کے مضافاتی اور دیہی علاقوں کو بھی شہری سہولیات اور ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔
تاہم، منتخب عوامی نمایندوں اور مقامی باسیوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ محض کاغذی کارروائی تک محدود رہا۔ سندھ حکومت ہو یا کے ایم سی، کسی نے بھی ان علاقوں کی ترقی کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی یا ترقیاتی پیکیج کا اعلان نہیں کیا۔ ہر سال بجٹ آتے اور گزرتے رہے، مگر کراچی کے دیہی علاقے، جنھیں انتظامی طور پر ’’ شہری دائرہ کار‘‘ میں لایا گیا تھا، آج بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ نہ سڑکیں تعمیر ہوئیں، نہ نکاسی آب کا نظام بہتر ہوا، نہ اسپتالوں یا اسکولوں کی حالت بدلی۔ اس صورتِ حال نے مقامی آبادی میں شدید مایوسی کو جنم دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے سندھ حکومت اور کے ایم سی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر بجٹ میں ہمیں مکمل طور پر نظر اندازکیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں کو صرف مردم شماری اور ووٹ کے وقت یاد رکھا جاتا ہے، مگر جب ترقیاتی فنڈزکی بات ہو تو ہمیں شہری کراچی کا حصہ ماننے سے انکارکردیا جاتا ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر ان علاقوں کو کے ایم سی کا حصہ بنایا گیا ہے تو انھیں برابر کی ترقیاتی ترجیحات دینا حکومت کی آئینی و اخلاقی ذمے داری ہے، مگر اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ نہ تو کے ایم سی کی سطح پر کوئی ترقیاتی اسکیم ان علاقوں میں شروع کی گئی اور نہ ہی سندھ حکومت کی جانب سے کوئی اضافی فنڈز مختص کیے گئے۔ یہ صورتحال کئی اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔
کیا انضمام کا فیصلہ صرف سیاسی نوعیت کا تھا؟ اگر دیہی علاقوں کو شہری حدود میں شامل کرنا ایک ترقیاتی فیصلہ تھا، تو اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا اس پورے عمل کا مقصد صرف اختیارات کا مرکزیت کی طرف منتقلی تھا، نہ کہ عوامی فلاح؟ آج بھی کراچی کے دیہی علاقے جیسے مبارک ولیج، مراد میمن گوٹھ، گڈاپ یا ابراہیم حیدری صاف پانی، صحت کی سہولیات، معیاری تعلیم اور بنیادی انفرا اسٹرکچر سے محروم ہیں۔
یہ وقت ہے کہ سندھ حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی اپنی ذمے داریوں کا ادراک کریں اور کراچی کے ان علاقوں کو ترقی کے اس دھارے میں شامل کریں جس کا وعدہ 2023 کے انضمام کے وقت کیا گیا تھا، اگر یہ محرومی یونہی جاری رہی، تو شہری و دیہی خلیج مزید گہری ہوگی اور اس کا نتیجہ صرف عوامی بے چینی ہی نہیں، بلکہ انتظامی ناکامی کی صورت میں بھی سامنے آسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دیہی علاقوں علاقوں میں مبارک ولیج سندھ حکومت ان علاقوں علاقوں کو کے ایم سی ا ج بھی کا حصہ
پڑھیں:
کراچی پولیس نشانے پر، رواں سال میں اب تک افسر سمیت 14 جوان شہید
رواں سال کے دوران اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 14 پولیس اہلکار زندگی کی بازی ہار گئے جس میں اے ایس آئی سمیت 6 پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق شہر میں رواں سال کے دوران پولیس پر جان لیوا حملوں میں مجموعی طور پر اے ایس آئی سمیت 14 پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔
رواں سال 12 فروری کو ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے اسٹیل ٹاؤن میں کانسٹیبل خمیسو خان کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا، پھر 15 فروری کو ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے منگھوپیر میں سی ٹی ڈی کے کانسٹیبل عمران خان کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔
اس کے بعد 13 اپریل کو ڈسٹرکٹ سٹی کے علاقے عیدگاہ میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر کانسٹیبل محمد ایوب کو قتل کیا گیا، 19 مئی کو ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں کانسٹیبل فاروق اور 22 مئی کو ڈسٹرکٹ کیماڑی کے علاقے ڈاکس میں کانسٹیبل عبدالواجد پولیس مقابلے میں شہید ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 28 مئی کو ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے علاقے بوٹ بیسن ٹریفک پولیس چوکی کے قریب ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں کانسٹیبل زین علی رضا شہید ہوا، یکم جون کو ڈسٹرکٹ سینٹرل کے علاقے یوسف پلازہ میں کانسٹیبل شہریار علی ٹارگٹ کلنگ کی واردات میں شہید ہوا۔
رپورٹ کے مطابق 27 جون کو ڈسٹرکٹ سینٹرل کے علاقے سرسید بلال کالونی کچی آبادی میں کانسٹیبل حجن کی گھر سے تشدد زدہ سوختہ لاش ملی تھی جس کے قتل کے الزام میں خواجہ اجمیر نگری پولیس نے 2 ملزمان گرفتار کیا۔
2 جولائی کو ڈسٹرکٹ کورنگی کے علاقے عوامی کالونی میں اسپیشل پروٹیکشن یونٹ میں تعینات ٹیکنیشن عمیر علی کو قتل کیا گیا، 11 جولائی کو ڈسٹرکٹ کیماڑی کے علاقے سائٹ اے میں کانسٹیبل وسیم اختر کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
اس کے علاوہ 20 اگست کو ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے بن قاسم میں اسٹیل ٹاؤن تھانے میں تعینات اے ایس آئی محمد خان ابڑو کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا جس کے ملزمان کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
ایک ہفتے کے بعد 27 اگست کو ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے بن قاسم میں پولیس ہیڈ کانسٹیبل میتھرو خان کو موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 11 ستمبر کو ڈسٹرکٹ ملیر ہی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن عثمان خاصیلی گوٹھ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں ہیڈ کانسٹیبل عبدالکریم شہید ہوگیا جسے میمن گوٹھ تھانے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے دہشت گردوں نے فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
پولیس کے مطابق 17 ستمبر کو ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے گلشن معمار میں کریم شاہ مزار کے قریب کار سوار دہشت گردوں نے پنکچر کی دکان پر کھڑے کانسٹیبل صدام کو اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔
اس کے علاوہ رواں ماہ کے دوران 14 ستمبر کو ساؤتھ زون ڈسٹرکٹ ساؤتھ ڈیفنس خیابان بخاری کے قریب گزری تھانے کی پولیس موبائل پر حملے میں ایک ملزم نے اندھا دھند فائرنگ کر دی اور موقع سے فرار ہوگیا ، واقعے میں خوش قسمتی سے پولیس موبائل کا ڈرائیور اور ایک سپاہی معجزانہ طور پر محفوظ رہے جبکہ پولیس کو جائے وقوعہ سے نائن ایم ایم پستول کے کئی خول ملے تھے۔
پولیس ابھی اسی واقعے کی تحقیقات کر رہی تھی کہ چند گھنٹوں کے بعد سی ویو دو دریا کے قریب کار سوار ملزمان نے پولیس کی کار موبائل پر گولیاں برسائیں اور ایک پولیس اہلکار کو اغوا کر کے فرار ہوگئے جسے بعدازاں سپر ہائی وے نیو سبزی منڈی کے قریب ملزمان چھوڑ کر فرار ہوگئے جو پیر کی صبح تک واپس ساحل تھانے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
شہر میں سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ کا خفیہ نیٹ ورک غیر فعال دکھائی دیتا ہے، پولیس پر پے در پے حملے اور انھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے میں ملوث دہشت گردوں کا تاحال کوئی سراغ لگایا جا سکا جبکہ دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں اپنے ہدف کو نشانہ بنا کر فرار ہوجاتے ہیں۔