ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک تجرباتی ٹول پین ڈرم جلدی بیماریوں، خصوصاً میلانوما (جلدی کینسر) کی فوری اور درست تشخیص میں مدد فراہم کرتا ہے۔

یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے نیچر میڈیسن میں شائع ہوئی، پین ڈرم نے جلدی کینسر کی تشخیص کی درستی میں 11 فیصد اضافہ کیا جب ماہرینِ صحت نے اس کا استعمال کیا۔

جلد کی دیگر بیماریوں کی تشخیص میں 17 فیصد تک درستگی میں بہتری دیکھی گئی، یہ ٹول صرف 5 سے 10 فیصد ڈیٹا استعمال کر کے بھی عام تشخیص کے مقابلے میں زیادہ مؤثر نتائج دیتا ہے۔

پین ڈرم ایک جدید AI سسٹم ہے جو بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے تیار کیا ہے، اسے 20 لاکھ سے زائد جلدی بیماریوں کی تصاویر پر تربیت دی گئی ہے۔

اس کا مقصد ماہرینِ امراضِ جلد (Dermatologists) کی معاونت کرنا ہے تاکہ وہ پیچیدہ امیجنگ ڈیٹا کو بہتر انداز میں سمجھ کر درست فیصلے لے سکیں۔

آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی میں ڈیٹا سائنس اور اے آئی کے ماہر ڈاکٹر زونگیوآن لیو کہتے ہیں کہ پین ڈرم کلینکس کے ساتھ مل کر کام کرنے والا ایک آلہ ہے جو انہیں اعتماد کے ساتھ بہتر فیصلے لینے میں مدد دیتا ہے۔

یونیورسٹی آف کوئنز لینڈ کے ڈرماٹولوجی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر پیٹر سوئیر کا کہنا ہے کہ یہ اے آئی ٹیکنالوجی خاص طور پر ان علاقوں میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جہاں ماہر جلدی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتے۔

ابھی پین ڈرم کو مکمل منظوری نہیں ملی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر مزید تحقیق اور جانچ درکار ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پین ڈرم

پڑھیں:

پلوٹو پر حیرت انگیز نئی فضا دریافت: نیلی فضائی تہیں سائنسدانوں کیلیے معما بن گئیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نظامِ شمسی کے سب سے دورافتادہ اور پراسرار سیارے پلوٹو سے متعلق ایک نئی سائنسی دریافت نے ماہرین فلکیات کو حیران کر دیا ہے۔

جدید ترین خلائی تحقیقاتی ٹیکنالوجی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے سائنسدانوں کو پلوٹو پر ایک غیر معمولی فضائی نظام کا سراغ ملا ہے، جو نہ صرف باقی تمام سیاروں سے مختلف ہے بلکہ ماہرین اسے ایک ’’بالکل نئی قسم کا کلائمیٹ‘‘قرار دے رہے ہیں۔

یہ انکشاف دراصل جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے مڈ-انفراریڈ انسٹرومنٹ سے حاصل کردہ ڈیٹا سے کیا گیا، جس میں پلوٹو کی فضا میں موجود باریک ذرات سے خارج ہونے والی تھرمل ریڈی ایشن یعنی حرارتی تابکاری کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ تابکاری انفراریڈ لہروں کی صورت میں سامنے آئی، جو خاص طور پر رات کے وقت ان فضائی ذرات سے خارج ہوتی ہے، جب سورج کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور یہ ذرات ٹھنڈے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پلوٹو کی فضا میں یہ حرارت پیدا کرنے اور خارج کرنے کا عمل اس قدر متوازن اور نایاب ہے کہ اس جیسا نظام نہ زمین پر پایا جاتا ہے، نہ مریخ پر اور نہ ہی زحل کے چاند ٹائٹن پر، جنہیں اب تک فضا کے پیچیدہ نظاموں کے حامل سیارے مانا جاتا تھا۔

اس نئی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پلوٹو کی فضا اور موسمیاتی توازن ایک نئی کلاس میں آتے ہیں، جسے سائنسی اصطلاح میں ’’نیو کلائمیٹ‘‘کہا جا رہا ہے۔

پلوٹو کی فضا میں جو نیلی اور کثیف تہیں دیکھی گئی ہیں وہ سطحِ زمین سے تقریباً 300 کلومیٹر کی بلندی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان تہوں کو ’’ہائی ایلٹیٹیوڈ ہیز‘‘(High-Altitude Haze) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تہیں بنیادی طور پر نائٹروجن اور میتھین جیسے مرکبات پر مشتمل ہیں، جو دن کے وقت سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہیں اور رات کو یہ توانائی تھرمل ریڈی ایشن کی شکل میں خارج کر دیتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پلوٹو کی فضا دن کو گرم اور رات کو خودبخود ٹھنڈی ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017ء  میں فلکیاتی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ پلوٹو کی فضا میں موجود یہ باریک ہیز اس کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کا باعث بنتے ہیں،تاہم اُس وقت یہ محض ایک نظریہ تھا۔ اب جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے اس سائنسی مفروضے کو حقیقت میں بدل دیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ہیز درحقیقت ایک متحرک تھرمل سسٹم کی طرح کام کرتے ہیں۔

پلوٹو کی فضا کا یہ نظام نہ صرف سادہ گیسوں جیسے نائٹروجن یا میتھین پر مشتمل ہے، بلکہ ان گیسوں کے ایسے مرکبات پر مشتمل ہے جو ہائی ایلٹیٹیوڈ پر خاص انداز سے کام کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فضائی تہیں اتنی باریک اور شفاف ہیں کہ انہیں صرف جدید ترین انفراریڈ آلات سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی تفصیل عام دوربینوں یا پرانی سیٹلائٹس سے نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔

یہ نیا موسمیاتی نظام سائنسدانوں کے لیے ایک نیا سوال بھی کھڑا کرتا ہے کہ اگر پلوٹو پر اتنا منفرد اور متوازن موسمیاتی نظام موجود ہے، تو کیا نظامِ شمسی کے دیگر بعید سیاروں پر بھی اسی قسم کے پوشیدہ موسمیاتی نظامات ہو سکتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ان میں سے کچھ ایسے حالات رکھتے ہیں جو زندگی کی ابتدائی شکلوں کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں؟

ماہرین اس دریافت کو کائناتی تحقیق میں ایک سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ پلوٹو، جسے 2006ء  میں ایک مکمل سیارے کے درجے سے ہٹا کر ’’بونے سیارے‘‘ (Dwarf Planet) کا درجہ دے دیا گیا تھا، اب ایک بار پھر سائنسی دلچسپی کا مرکز بن گیا ہے۔ اس کی فضا، ساخت اور سطح پر تحقیق اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے مستقبل قریب میں مزید مشاہدات کیے جائیں گے تاکہ اس حیرت انگیز فضائی نظام کی تفصیلات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ سائنسدان امید رکھتے ہیں کہ یہ تحقیق نہ صرف پلوٹو بلکہ نظامِ شمسی کے دیگر بعید اجسام کے بارے میں بھی نئے دروازے کھولے گی، جنہیں اب تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

یہ دریافت فلکیاتی سائنسی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بھی ہے، کیونکہ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین پر موجود لیبارٹریوں میں بھی ایسے ماڈلز تیار کریں جو پلوٹو کے اس انوکھے موسمیاتی نظام کی نقل کر سکیں اور اس پر تجربات کر کے مزید پہلوؤں کو سامنے لا سکیں۔

متعلقہ مضامین

  • 5 علامات جوسنگین بیماریوں کی علامت ہو سکتی ہیں
  • کینسر کی تشخیص علامات سے 3 سال پہلے ممکن ہو گئی
  • پلوٹو پر حیرت انگیز نئی فضا دریافت: نیلی فضائی تہیں سائنسدانوں کیلیے معما بن گئیں
  • علامات ظاہر ہونے سے قبل کینسر کی تشخیص کا نیا طریقہ
  • سابق ن لیگی رہنما کینسر کے مرض میں مبتلا
  • سابق ایم پی اے سلطانہ شاہین کینسر کے مرض میں مبتلا؛ علاج کی اپیل
  • کیسپرسکی ای سم اسٹور عالمی مسافروں کو دنیا بھر میں آسان انٹرنیٹ فراہمی کا ذریعہ بن گیا
  • کراچی میں کانگو وائرس سے شہری جان کی بازی ہار گیا
  • کراچی زمین بوس ہونے کے خطرناک مرحلے میں داخل، ماہرین ارضیات