ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹول پلازوں کی عام نیلامی شروع
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹول پلازوں کی عام نیلامی شروع WhatsAppFacebookTwitter 0 19 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:ملک کی مصروف ترین شاہراہوں پر ٹول پلازوں کی کھلی نیلامی کا انعقاد این ایچ اے کی طرف سے جناح کنونیشن سینٹر میں کیا جا رہا ہے۔
ترجمان این ایچ اے کے مطابق کل 72 ٹول پلازوں کو نیلام عام کے لیے پلان کیا گیا ہے، شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا کو بالخصوص مدعو کیا گیا ہے، چیئرمین این ایچ اے شہریار سلطان نیلامی کی نگرانی کر رہے ہیں۔
نیلام عام کا انعقاد وزیر اعظم اور وزیر مواصلات کی خصوصی ہدایات پر کیا گیا ہے، جس میں شفافیت اور شرکت میں آسانی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نیلامی میں کثیر تعداد میں خواہشمند حضرات شرکت کر رہے ہیں۔
شرکاء کی طرف سے پہلی بار نیلام عام پر این ایچ اے کی ستائش کی گئی۔ شرکاء نے کہا کہ شفاف نیلام عام سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گا، سرمایہ کار اور کاروباری حضرات اس قدام سے خوش ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا؛ جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شکیل کا اختلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلہ بدنیتی پر مبنی تھا؛ جسٹس نعیم اختر اور جسٹس شکیل کا اختلاف جوڈیشل کمیشن کا اجلاس: آئینی بنچز کی مدت میں 30 نومبر تک توسیع بلاول نے مشکل وقت میں پاکستان کی دنیا میں نمائندگی کی: آصفہ بھٹو وزیر اعظم نے چیئرمین ایچ ای سی کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی بنادی او آئی سی کا ہنگامی اجلاس 21جون کو طلب، اسرائیلی جارحیت ایجنڈے میں شامل ملک بھر میں 20سے 23جون کے دوران گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ٹول پلازوں
پڑھیں:
ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251005-03-7
شاہنواز فاروقی
ایک زمانہ تھا کہ مسلم دنیا ’’دیوقامت‘‘ لوگوں کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں بڑے مفسرین تھے، بڑے محدثین تھے، بڑے متکلمین تھے، بڑے مفکر تھے، بڑے دانش ور تھے، بڑے شاعر تھے، بڑے ادیب تھے، بڑے سیاست دان تھے، بڑے اساتذہ تھے، بڑے ماں باپ تھے، بڑے دوست احباب تھے۔ پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ ہم لوگوں نے ’’بونے‘‘ پیدا کرنے شروع کیے۔ مذہب کے دائرے میں بھی بونے تھے، شعر و ادب کے دائرے میں بھی بونے تھے، سیاست میں بھی بونے تھے، مگر ہمارا زمانہ ’’بالشتیوں‘‘ اور ’’حشرات الارض‘‘ کا زمانہ ہے۔ اب نہ ہمارے پاس بڑے مفسرین ہیں، نہ بڑے سیرت نگار ہیں، نہ بڑے محدثین ہیں، نہ بڑے متکلمین ہیں، نہ بڑے شاعر ہیں، نہ بڑے ادیب ہیں، نہ بڑے دانش ور ہیں، نہ بڑے سیاست دان ہیں، نہ بڑے اساتذہ ہیں، نہ بڑے ماں باپ، نہ بڑی اولادیں ہیں، نہ بڑے دوست احباب ہیں، اس حوالے سے صورت حال اتنی ہولناک ہے کہ اس کی اطلاع عطا الحق قاسمی کے فرزند یاسر پیرزادہ تک کو ہوگئی ہے۔ چنانچہ یاسر پیرزادہ نے اپنے ایک کالم میں اس موضوع پر گفتگو کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے سائنس دان، دانش ور اور فلسفی کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ یاسر پیرزادہ نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’یونیورسٹیاں محض اس لیے نہیں بنائی جاتیں کہ وہاں نو سے پانچ بجے تک دفتر آیا جائے، حاضری لگائی جائے، کلاس پڑھائی جائے اور تنخواہ وصول کی جائے، جامعات کا کام سائنس دان، فلسفی اور دانشور پیدا کرنا ہوتا ہے، نوکری پیشہ مزدور تو گورنمنٹ ڈگری کالج ساہیوال بھی پیدا کرلے گا (اہالیان ساہیوال سے معذرت کے ساتھ)۔ مجھے اکثر یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملتا رہتا ہے جہاں میں ایسی ہی جلی کٹی باتیں سناتا ہوں، جواب میں کچھ وی سی صاحبان اپنی غزل بھی سناتے ہیں جس میں مطلع سے لے کر مقطع تک وہ محبوب کے بجائے اپنی ذات کی تعریفیں یوں بیان کرتے ہیں کہ غالب بھی شرما جائے۔ میرا ایک ہی مدعا ہوتا ہے کہ اگر ملک کی یونیورسٹیاں اور ان کے وی سی خواتین و حضرات ایسا ہی عمدہ کام کررہے ہیں تو ہماری جامعات سائنس دان، دانشور اور فلسفی پیدا کرنے کے بجائے نوکری کے متلاشی روبوٹ کیوں پیدا کررہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مسئلے کی جڑ موجود ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ، 28 ستمبر 2025ء)
یاسر پیرزادہ نے یونیورسٹیوں کی ناکارکردگی تو بیان کردی مگر انہوں نے اپنے پورے کالم میں اس سوال کا کوئی جواب فراہم نہیں کیا کہ ہم فلسفی، دانش ور اور سائنس دان کیوں پیدا نہیں کرپا رہے؟ لکھنے والوں کا فرض صرف یہ نہیں کہ مسئلے کی نشاندہی کریں بلکہ ان کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ اپنے اٹھائے ہوئے سوال کا کوئی جواب بھی مہیا کریں۔
انسانی تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ اس سفر کے سب سے بڑے لوگ تین ہیں۔ انبیا، اولیا اور مجدّدین۔ اتفاق سے انسانوں کی یہ تینوں اقسام مامور من اللہ ہوتی ہیں اور ان کا مقصد حیات بھٹکے ہوئے انسانوں کو صحیح راستہ دکھانا ہوتا ہے۔ ان عظیم ترین انسانوں کا مقصد حیات حق کا دفاع اور اس کا فروغ اور باطل کی مزاحمت ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو انسان کی نفوس کا ’’تزکیہ‘‘ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابراہیمؑ نے نمرود کے سامنے کلمہ حق بیان کیا اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ سیدنا موسیٰؑ نے فرعون کو مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی اور اس کے باطل کی مزاحمت کی۔ رسول اکرمؐ نے مکے کے کافروں اور مشرکوں کے سامنے حق کو پیش کیا اور ان کے باطل کی مزاحمت کی۔ یہی کام بعدازاں اولیا اور مجددین ِ وقت نے کیا۔ برصغیر میں اگر مجدد الف ثانیؒ نہ ہوتے تو بادشاہت کا پورا ادارہ اسلام دشمن بن جاتا اور ہندو ازم میں جذب ہوجاتا۔ شاہ ولی اللہ کے وقت میں برصغیر سے قرآن اور حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے فرزندوں نے برصغیر میں قرآن و حدیث کے علم کو زندہ کیا۔ مولانا مودودیؒ بھی مجدد وقت تھے۔ وہ نہ ہوتے تو پوری امت مسلمہ یہ بات بھول جاتی کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے اور مغرب اس دور کا سب سے بڑا باطل ہے۔ ہمیں اس بارے میں رتی برابر بھی شبہ نہیں ہے کہ مجدد الف ثانی بھی مامور من اللہ تھے۔ شاہ ولی اللہ بھی مامور من اللہ تھے اور مولانا مودودی بھی مامور من اللہ تھے۔ یہ ہماری تاریخ میں بڑے انسانوں کے ظہور کا سب سے اہم اسلوب ہے۔
مسلم تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہماری تاریخ میں بڑی آرزو نے بھی بڑے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ برصغیر میں اقبال اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ اقبال اپنے تخلیقی سفر کے آغاز میں ایک قوم پرست شاعر تھے۔ وہ ہمالے کی شان میں نظم لکھ رہے تھے۔ وہ ایک ہندو کی طرح کہہ رہے تھے۔
پتھر کی مورتوں کو سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی آرزو بدل ڈالی پہلے ان کی آرزو صرف ہندوستان کا جغرافیہ تھا پھر ان کی آرزو ایک سطح پر عالمگیر اور دوسری سطح پر آفاقی ہوگئی اور وہ کہنے لگے
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
٭٭
پرے ہے چرخِ نیلی خام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہیں وہ کارواں تُو ہے
آرزو کی اس تبدیلی نے اقبال کو اوسط درجے کے شاعر سے ایک عظیم شاعر میں ڈھال دیا۔ ایسے شاعر میں کہ جب تک فارسی اور اردو زندہ رہیں گی اقبال اس وقت تک زندہ رہیں گے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے پاس اقبال تھے مگر اب ہمارے پاس اقبال کا سایہ بھی نہیں ہے۔
انسانی شخصیت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بسا اوقات زندگی میں ہونے والا کوئی بڑا تجربہ بھی انسان کو دیوقامت بنا دیتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی سب سے بڑی مثال میر تقی میر ہیں۔ انہیں عشق کے تجربے نے ’’معمولی‘‘ سے ’’غیر معمولی‘‘ بنادیا۔ چنانچہ انہوں نے محبت کے تجربے سے عظیم الشان شاعری تخلیق کرکے دکھائی۔ انہوں نے کہا ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
٭٭
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
٭٭
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تاریخ کا علم بتاتا ہے کہ تاریخ کی بڑی کروٹ بھی بڑے انسان پیدا کرتی ہے۔ تاریخ کی کروٹ ایک چیلنج ہوتی ہے اور چیلنج کے بارے میں ٹوائن بی نے بنیادی بات کہی ہے۔ ٹوائن بی نے کہا ہے کہ چیلنج کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو صورتیں ہیں۔ کچھ لوگ چیلنج کو اپنے لیے بوجھ بنالیتے ہیں اور وہ بوجھ کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ چیلنج کو ایک ’’قوتِ محرکہ‘‘ یا Motivation میں ڈھال لیتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال قائداعظم ہیں۔ انہوں نے قیام پاکستان کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے محمد علی جناح سے ’’قائداعظم‘‘ بن گئے۔ کبھی وہ صرف ’’افراد‘‘ کے وکیل تھے مگر چیلنج نے انہیں ایک مذہب، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک قوم کا ’’وکیل‘‘ بنا کر کھڑا کردیا۔ 20 ویں صدی میں لینن اور مائو بھی تاریخ کی کروٹ کا حاصل تھے۔ چنانچہ لینن نے روس میں اور مائو نے چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کیا۔
انسانی شخصیت کی تفہیم بتاتی ہے کہ بڑی ذہانت اور بڑا علم بھی انسان کو عظیم بنا کر کھڑا کردیتا ہے۔ ہماری ادبی تاریخ میں غالب اور محمد حسن عسکری اس کی سب سے بڑی مثالیں ہیں۔ بلاشبہ غالب اردو کے چار عظیم شاعروں میں سے ایک ہے۔ اس کی پشت پر نہ مذہب کی قوت تھی نہ اس کے پاس کوئی بڑا اور گہرا تجربہ تھا مگر اس کی ذہانت اور علم بے مثال تھا وہ فارسی کی پوری روایت کو جذب کیے بیٹھا تھا۔
محمد حسن عسکری کا مطالعہ قاموسی یا Encyclopedic تھا۔ برصغیر میں ان کی سطح کا مطالعہ صرف اقبال کے پاس تھا۔ چنانچہ عسکری صاحب اردو کے سب سے بڑے نقاد بن گئے۔ ان کے جیسا نقاد نہ ان سے پہلے کوئی تھا۔ نہ ان کے زمانے میں کوئی تھا اور نہ کسی دوسرے عسکری کی پیدائش کا امکان دور دور تک نظر آتا ہے۔
ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اپنے تہذیبی اور تاریخی تجربے سے کئی گئی اور فرد پرستی نے انسان کے اندر موجود اجتماعیت پرستی کو مار دیا ہے۔ اس کا اظہار سلیم احمد نے اپنے ایک قطعے میں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
ہر طرف سے انفرادی جبر کی یلغار ہے
کن محاذوں پر لڑے تنہا دفاعی آدمی
میں سمٹتا جارہا ہوں ایک نقطے کی طرح
میرے اندر مر رہا ہے اجتماعی آدمی
ہمارے اندر اجتماعی آدمی کی موت نے ہمارے چاروں طرف بالشتیوں کے ڈھیر لگادیے ہیں۔
ہماری ایک بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اعلیٰ درجے کے ادارے وجود میں لانے سے قاصر ہیں۔ چنانچہ ہماری ذہانتیں اور ہمارا علم ادارتی نہیں بن پا رہا یعنی Institutionalize نہیں ہوپا رہا۔ ہماری جامعات میں جو تحقیق ہورہی ہے اس کی سطح پست اور اس کا مقصد صرف عہدے اور تنخواہ کی ’’ترقی‘‘ ہے۔ چنانچہ جامعات ہوں یا مدارس ہم ہر جگہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں کوئی بڑا آدمی پیدا ہو تو کیسے؟