ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹول پلازوں کی عام نیلامی شروع
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
ملک کی مصروف ترین شاہراہوں پر ٹول پلازوں کی کھلی نیلامی کا انعقاد این ایچ اے کی طرف سے جناح کنونیشن سینٹر میں کیا جا رہا ہے۔
ترجمان این ایچ اے کے مطابق کل 72 ٹول پلازوں کو نیلام عام کے لیے پلان کیا گیا ہے، شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے میڈیا کو بالخصوص مدعو کیا گیا ہے، چیئرمین این ایچ اے شہریار سلطان نیلامی کی نگرانی کر رہے ہیں۔
نیلام عام کا انعقاد وزیر اعظم اور وزیر مواصلات کی خصوصی ہدایات پر کیا گیا ہے، جس میں شفافیت اور شرکت میں آسانی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نیلامی میں کثیر تعداد میں خواہشمند حضرات شرکت کر رہے ہیں۔
شرکاء کی طرف سے پہلی بار نیلام عام پر این ایچ اے کی ستائش کی گئی۔ شرکاء نے کہا کہ شفاف نیلام عام سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گا، سرمایہ کار اور کاروباری حضرات اس قدام سے خوش ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایچ اے نیلام عام گیا ہے
پڑھیں:
دنیا ئے اسلام کی پہلی جدید شادی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-03-5
امیر محمد کلوڑ
جمادی الاوّل اسلامی ہجری کلینڈر کا پانچواں مہینہ ہے اس مہینے میں کائنات میں ایک متبرک شادی کا انعقاد ہوا جوکہ رہتی دنیا تک اپنی پاکیزگی اور محبت کے سچے رشتے کے حوالے سے یاد رکھی جائے گی کہ زوجہ سے اتنی محبت کہ ان کے مرنے کے بعد جب بھی قربانی کا گوشت تقسیم کرتے تو اپنی مرحومہ زوجہ محترمہ کی سہیلیوں کو گوشت لازماً بھیجتے تھے۔ آج میں ایک ایسی جدید اور مثالی شادی کا تذکرہ کروں گا جو اُس دور کے رسم و رواج سے ہٹ کر تھی۔ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنی عمر سے کم عمر کی لڑکیوں سے شادی کرتے تھے لیکن جس خوبصورت جوڑے کا ذکر کررہا ہوں وہ اس دور کے عرب معاشرے کے لیے ایک غیر معمولی اور جدید سوچ تھی، کیونکہ عام طور پر مرد بڑی عمر کی عورت سے شادی نہیں کرتے تھے۔ سیدہ خدیجہؓ نبی کریمؐ سے 15 سال بڑی تھیں، مگر اس کے باوجود شادی محبت، اعتماد اور کردار کی بنیاد پر ہوئی، عمر کی نہیں۔ ایک طرف دلہن اپنے وقت کی ایک کامیاب ورکنگ وومن ایک بزنس ٹائیکون 40 سال کی سلجھی ہوئی عمر میں انسان کی شخصیت میں سکون، سنجیدگی اور وقار آجاتا ہے۔ جذباتی اُتار چڑھاؤ کی جگہ سمجھ بوجھ اور تدبر آجاتا ہے۔ چہرے پر وقار کے ساتھ نرمی آتی ہے، جو حسن کو اور نمایاں کر دیتی ہے۔ اور دوسری طرف کائنات کے حسین ترین انسان اور ابھرتے ہوئے 25 سالہ کاروباری نوجوان عمر میں وہ معروف اور معتبر شخصیت کے طور پر مکہ میں پہچانے جانے لگے تھے۔ اسی عمر میں خدا کے لاڈلے، محمد مصطفی احمد مجتبیٰؐ کی سیدہ خدیجہؓ سے شادی ہوئی، جو نہ صرف ذاتی زندگی میں خوشی کا دور تھا بلکہ ایک مضبوط اخلاقی اور مالی استحکام بھی تھا۔ اس عمر میں آپؐ اعتماد، بصیرت، اور سماجی کردار کے لحاظ سے بہت مستحکم ہو چکے تھے اور جن کو آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے کاروبار کے بوجھ کا ذمہ دینا تھا اور آخرت میں شفاعت کی ذمے داری بھی انہیں سونپنی تھی۔
اسلامی روایات کے مطابق، نبی اکرمؐ نے سیدہ خدیجہؓ کو جو مہر دیا، اْس کے بارے میں مختلف روایات پائی جاتی ہیں: 1۔ طبقات ابن سعد اور دلائل النبوہ للبیہقی میں مہر کی مقدار بارہ اوقیہ اور نصف اوقیہ (تقریباً 500 درہم) بیان کی گئی ہے۔ 2۔ سیرت ابن ہشام اور تاریخ طبری میں مہر کی قیمت 20 اونٹوں کے برابر بیان کی گئی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ دونوں روایتیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ مہر کی رقم اْس زمانے کے معیار کے لحاظ سے نہ بہت زیادہ تھی نہ بہت کم بلکہ اعتدال پر مبنی اور باعزت تھی۔ جہاں تک سیدہ خدیجہؓ کے جہیز کا تعلق ہے، تو اسلامی تاریخ میں اس کا ذکر بہت سادگی کے ساتھ آیا ہے۔
سیرت حلبیہ اور دیگر کتب کے مطابق: سیدہ خدیجہؓ نے چند کپڑے، خوشبوئیں، اور سادہ گھریلو سامان بطور جہیز دیا۔ کوئی شان و شوکت یا فضول خرچی نہیں تھی۔ اصل تحفہ اْن کا اعتماد، ایمان، اور نبیؐ کی رفاقت تھی۔ عام طور پر ہمارے ہاں دین اسلام کو ایک دقیانوسی اور فرسودہ تصورات والا دین سمجھا جاتا ہے لیکن اس شادی نے وہ سارے اس وقت کے خیالات اور اس اکیسویں صدی کے جدید ٹیکنالوجی کے دور کے انسان کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ مکہ کی سب سے بڑی تاجر خاتون جن کا تجارتی نیٹ ورک شام، یمن، حبشہ اور دیگر خطوں تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کے قافلے اتنے بڑے ہوتے تھے کہ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ’’قریش کے تمام قافلوں کا نصف سیدہ خدیجہؓ کے قافلے کے برابر نہ تھا‘‘۔ مگر ان کا نظام دیانت، امانت، اور انسانی بھلائی پر قائم تھا، نہ کہ صرف منافع پر۔
آج کی بزنس خواتین جن کا مقصد زیادہ تر پرافٹ، سرمایہ، برانڈ ویلیو ہوتا ہے۔ ان کے کاروبار میں اکثر روحانی یا سماجی مقصد ثانوی ہوتا ہے اپنی کامیابی کے باعث بااثر شخصیات سمجھی جاتی ہیں۔ انہیں مالی طاقت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن قربان جائوں ام المومنین سیدہ خدیجہؓ پر جو ’’الطاہرہ‘‘ (پاکیزہ) اور ’’سیدۃٌ نساء قریش‘‘ (قریش کی عورتوں کی سردار) کہلائیں۔ انہوں نے اپنی دولت، عزت اور کاروبار سب کچھ نبی کریمؐ کی خدمت اور دین ِ اسلام کے لیے وقف کر دیا۔ ان کا مقصد معاشی استحکام اخلاقی خدمت تھا۔ تجارت میں بھی انصاف، مساوات اور سخاوت نمایاں تھی۔
جب اسلام کا آغاز ہوا، تو انہوں نے اپنا تمام سرمایہ اسلام کے پیغام کی ترویج میں لگا دیا یہ دنیا کی سب سے بڑی ’’سوشل انویسٹمنٹ‘‘ کہی جا سکتی ہے۔ یہ شادی اپنے وقت کے لحاظ سے انتہائی جدید اور باعزت تھی۔ سیدہ خدیجہؓ ایک کامیاب، خودمختار خاتون تھیں۔ انہوں نے نبی کریمؐ کے کردار، دیانت اور سچائی کو دیکھ کر خود شادی کی پیشکش کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو اپنی پسند کے فیصلے کا مکمل حق دیتا ہے۔ اسلام کی جدیدیت میں یہ پہلو بھی آتا ہے کہ اس پورے پروسیس میں کسی مرد کا رول نہیں ہے یہاں تک کہ پیغام لانے والی بھی بی بی خدیجہ کی سہیلی نفیسہ نامی بھی ایک عورت تھی اور اس سے زیادہ کیا روشن مثالی ہوگی۔ کائنات کے اس پاک جوڑے نے اپنی زندگی اعتماد، عزت، اور محبت پر گزاری۔ سیدہ خدیجہؓ نے نبی کریمؐ کے مشکل وقتوں میں ساتھ دیا، ان کے مشن پر ایمان لایا اور اپنا مال قربان کیا۔ نبیؐ نے بھی زندگی بھر ان کی محبت اور وفاداری کو یاد رکھا۔
یہ شادی ہمیں سکھاتی ہے کہ اسلامی رشتہ برابری، عزت اور باہمی اعتماد پر قائم ہوتا ہے یہی اصل میں جدید اور بہترین ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے۔ یعنی رشتہ برابری، عزت اور شعور کی بنیاد پر ہو نہ کہ کسی رسم یا دباؤ پر۔ یہ آج کے ’’mutual respect and consent‘‘ کے اصول کے عین مطابق ہے۔