Jasarat News:
2025-08-04@22:02:06 GMT

چینی سائنسدانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا ڈرون بنا لیا

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

چینی سائنسدانوں نے ایک انتہائی چھوٹا ڈرون تیار کیا ہے جو سائز میں مچھر جتنا ہے اور اسے فوجی مشنز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈرون چین کی نیشنل یونیورسٹی آف ڈیفنس ٹیکنالوجی کی روبوٹکس لیب میں تیار کیا گیا ہے اور سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی پر اس کی جھلک بھی دکھائی گئی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے رکن لیانگ ہیکسیانگ نے بتایا کہ یہ روبوٹک ڈرون ناصرف جنگی میدان میں مخصوص مشنز کے لیے کارآمد ہوگا بلکہ حساس علاقوں میں معلومات جمع کرنے جیسے کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ اس کے چھوٹے پَر کسی پتے جیسے نظر آتے ہیں اور باریک ٹانگیں اس کی حساس ساخت کا پتہ دیتی ہیں۔

یہ ڈرون ایک عام اسمارٹ فون کی مدد سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، جو اس کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔ تاہم، اتنے چھوٹے سائز میں سینسرز، کنٹرول سرکٹس، اور پاور سسٹمز کو فٹ کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

یہ ننھا روبوٹ صرف فوجی مقاصد کے لیے ہی نہیں بلکہ طبی شعبے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، جیسے مخصوص جگہوں پر مائیکرو سرجری یا نگرانی کے لیے استعمال۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی مستقبل میں جنگی اور سائنسی میدان میں نئی راہیں کھول سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:

ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:

’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘

راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘

راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات ذخائر راجہ کامران زر مبادلہ شرح سود صنعتی ڈھانچہ قرض گراوٹ مالیاتی عدم توازن

متعلقہ مضامین

  • پولیس کا پی ٹی آئی رہنما اکمل خان باری کے گھر چھاپہ، چھوٹا بھائی گرفتار
  • چین مسلسل 12 سال سے دنیا کی سب سے بڑی صنعتی روبوٹ مارکیٹ برقرار رکھے ہوئے ہے، چینی میڈیا
  • یوکرین کا روس کے بڑے آئل ڈپو پر ڈرون حملہ، شدید آگ بھڑک اٹھی
  • افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟
  • ترکیہ کا جنگی’’ کتا‘‘ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا
  • یو کرین کا روس کے آئل ڈپو پر ڈرون حملہ، آگ بھڑک اٹھی، قریبی ہوائی اڈے پر پروازیں معطل
  • شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے نام پیغام جاری کردیا
  • ملک بھر میں کل سے بارشوں کا نیا سلسلہ، سیلابی صورتحال سنگین ہونے کا خدشہ
  • یوکرین کے روس پر بڑے پیمانے پر ڈرون حملے، آئل ریفائنری نذرِ آتش، 3 ہلاک
  • پاکستان اور چین کے سائنسدانوں نے مِل کر چاول کی نئی ہائبرڈ قسم تیار کرلی