ایران پر بمباری کے سائے میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت، نیتن یاہو پر امریکی سینیٹرز برس پڑے
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
امریکا کے دو سینیٹرز، کرس وین ہولن اور الزبتھ وارن نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو پر شدید تنقید کرتے ہوئے دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران غزہ میں جاری انسانی بحران کو نظر انداز نہ کرے۔
امریکی سینیٹر الزبتھ وارن نے اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کو شاید لگتا ہے کہ جب وہ ایران پر بمباری کر رہے ہیں تو کوئی غزہ میں ان کے اقدامات کو نہیں دیکھے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔ 55,000 افراد شہید ہو چکے ہیں۔ امدادی کارکنوں اور ڈاکٹروں کو سرحدوں سے واپس بھیجا جا رہا ہے۔ جو لوگ خوراک کے لیے تڑپ رہے ہیں ان پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا تمہیں دیکھ رہی ہے، بن یامین نیتن یاہو!
Israel's Prime Minister may think no one will notice what he's doing in Gaza while he bombs Iran.
People face starvation. 55,000 killed. Aid workers and doctors turned away at the border. Shooting at innocent people desperate for food.
The world sees you, Benjamin Netanyahu. — Elizabeth Warren (@SenWarren) June 20, 2025
سینیٹر وین ہولن نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ اسرائیل-ایران جنگ کے آغاز کے بعد صرف سات دنوں میں غزہ میں 400 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے کئی اس وقت گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ناقابلِ برداشت ہے کہ نیتن یاہو نے اب تک بین الاقوامی اداروں کو خوراک کی ترسیل دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی۔
Don’t look away. Since the start of the Israel-Iran war 7 days ago, over 400 Palestinians in Gaza have been killed, many shot while seeking food. It's unconscionable that Netanyahu has not allowed international orgs to resume food delivery.
The weaponization of food must end. https://t.co/Togx6vv6Hg
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
متحدہ عرب امارات اسرائیل کیساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے، غیر ملکی خبر ایجنسی کا دعویٰ
متحدہ عرب امارات نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا تو امارات، اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات محدود کر سکتا ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق ابوظہبی کی جانب سے اسرائیل کو واضح طور پر آگاہ کر دیا گیا ہے کہ مغربی کنارے کا الحاق امارات کے لیے ”ریڈ لائن“ ہے۔ اگر اسرائیل نے یہ قدم اٹھایا تو متحدہ عرب امارات اپنے سفیر کو واپس بلانے جیسے اقدامات پر غور کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امارات نے 2020 میں امریکا کی ثالثی میں ابراہام معاہدے کے تحت اسرائیل سے تعلقات قائم کیے تھے، جو اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی بڑی خارجہ پالیسی کامیابی تصور کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امارات مکمل سفارتی تعلقات ختم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، تاہم موجودہ صورتِ حال میں تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ غزہ جنگ کے باعث پہلے ہی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور تجارتی روابط سرد مہری کا شکار ہیں اور پانچ سال بعد بھی نیتن یاہو نے اب تک امارات کا دورہ نہیں کیا۔
اس کشیدگی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ امارات نے اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کو دبئی ایئر شو 2025 میں شرکت سے روک دیا ہے۔ تین سفارتی ذرائع اور اسرائیلی دفاعی حکام نے اس فیصلے کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی وزارت دفاع کے مطابق، انہیں فیصلے سے آگاہ کیا گیا ہے تاہم کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ اسرائیلی سفارتخانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ابراہام معاہدے کے تحت تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششیں جاری رہیں گی۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل سموٹریچ نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ مغربی کنارے کے زیادہ تر علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے نقشے تیار کیے جا رہے ہیں۔ نیتن یاہو کی حکومت کو دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت درکار ہے، اور یہ اقدام ان کے لیے سیاسی فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔
قطر میں مسلم ممالک کے ہنگامی اجلاس میں اسرائیل کے اقدامات کی شدید مذمت کی گئی اور رکن ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ اسرائیل سے سفارتی اور معاشی تعلقات پر نظرِثانی کریں۔ اماراتی صدارتی مشیر انور قرقاش نے بھی حالیہ اسرائیلی فضائی حملے کو ”غداری“ قرار دیا۔
اماراتی وزارت خارجہ کی اعلیٰ اہلکار لانا نسیبہ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ اگر اسرائیل نے الحاق کی پالیسی پر عمل کیا تو یہ اقدام ابراہام معاہدے کو خطرے میں ڈال دے گا اور خطے میں جاری انضمام کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچائے گا۔
دوسری جانب یو اے ای کی وزارتِ خارجہ نے خبر ایجنسی کی رپورٹ پر ردِعمل دینے سے گریز کیا ہے۔