بلوچستان کی صوبائی بجٹ پر اپوزیشن کی سخت تنقید
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
اجلاس کے دوران ڈاکٹر مالک بلوچ، یونس عزیز زہری و دیگر اراکین نے حکومتی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے اسے مایوس کن قرار دیا، جبکہ حکومتی اراکین نے کہا کہ بجٹ متوازن ہے۔ تمام سیکٹرز کو اہمیت دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں جھالاوان میڈیکل کالج کو بجٹ سے نکالنے کے فیصلے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ یہ اقدام خطرناک ہے۔ مشکلات ہر جگہ ہیں لیکن ایسا کرنا درست نہیں۔ یونس عزیز زہری نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنی کوتاہیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال رہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے تجاویز کو شامل نہ کئے جانے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا، تاہم بعد میں اپوزیشن ایوان میں واپس آگئی۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے جواب دیا کہ حکومت کسی کا نقصان نہیں کرے گی۔ کسی اسکیم کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور خضدار کے لوگوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 2016 کے منصوبے پی ایس ڈی پی سے نکال دیئے گئے ہیں۔ واک آؤٹ جمہوری عمل ہے اور بلوچستان کے حقوق پر مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے زمرک اچکزئی نے بجٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر سال کی کارکردگی دیکھتے ہیں، لیکن وفاق میں ہمارے حقوق تسلیم نہیں کئے جاتے۔ ہمیں غریب اور غیر تعلیم یافتہ کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماشکیل میں ریکوڈک والوں کے لئے 25 ارب روپے کا ڈیم بنایا جارہا ہے، جبکہ بلوچستان کو موٹروے جیسے ترقیاتی منصوبے نہیں دیئے جاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حقوق کی بات کرتے ہیں، انہیں طعنے سننے پڑتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے نواز کبزئی نے کہا کہ ژوب کے علاقے کبزئی میں 1947 سے اب تک کوئی سرکاری تعمیر نہیں ہوئی، تاہم اس بار کے بجٹ میں ژوب کے لئے فنڈ مختص کئے گئے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے رحمت صالح بلوچ نے بجٹ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی بلوچستان پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ حکومت کو موجودہ صورتحال پر توجہ دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نیا بجٹ پرانے بجٹ کا تسلسل ہے۔ اس میں کوئی میگا پراجیکٹ شامل نہیں، جو نوجوانوں کی مایوسی ختم کر سکے۔ سولر سسٹم پر ٹیکس لگانے سے زمیندار اور عوام متاثر ہوں گے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، جبکہ ملازمین اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر دوبارہ احتجاج کریں گے۔
صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ظہور بلیدی نے کہا کہ 2025-26 کا بجٹ متوازن ہے۔ تمام سیکٹرز کو اہمیت دی گئی ہے۔ سوشل پروٹیکشن کو ترجیح دی گئی ہے۔ سبزی منڈیاں، میٹ پروسیسنگ پلانٹس اور فرٹیلائزر سٹیز بنائی جائیں گی۔ گوادر کے پینے کے پانی کے منصوبے اس سال مکمل ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان نے اپنا حصہ لڑ جھگڑ کر لیا، اور ترقیاتی اسکیمیں علاقائی یا حلقہ وار نہیں بلکہ بڑے منصوبے رکھے گئے ہیں۔ رواں سال حکومت نے 100 فیصد بجٹ خرچ کیا۔ دستگیر بادینی نے کہا کہ حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو گزشتہ سال کی اسکیموں کا جائزہ لے گی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بلوچستان کے عوام آج بھی بنیادی حقوق سے محروم ہیں، اور اگر حکومتی و اپوزیشن حلقوں میں پانچ پانچ ماڈل منصوبے رکھے جاتے تو عوامی اطمینان بہتر ہوتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بلوچستان میں واٹر لیول خطرناک حد تک گر چکا ہے اور ہم مستقبل کا پانی آج استعمال کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے
جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نظام عوام کی سہولت کے بجائے ان پر اضافی مالی دباؤ ڈالنے کا حربہ ہے۔
کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس عمل کا مقصد ٹرانسپورٹ کے نظام کی بہتر نہیں، بلکہ شہریوں سے رقم وصول کرنا ہے۔
مزید پڑھیں: ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید
حافظ نعیم نے کہاکہ شہریوں کو 5، 10، حتیٰ کہ 25 ہزار روپے تک کے بھاری جرمانے کیے جا رہے ہیں، مگر شہر آج بھی مناسب عوامی ٹرانسپورٹ سے محروم ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کراچی میں ایک خلاف ورزی کا چالان 5 ہزار روپے کا ہے اور لاہور میں یہی جرمانہ صرف 200 روپے کیوں ہے؟ کیا اس صورتحال میں پیپلز پارٹی پر تنقید جائز نہیں بنتی؟
انہوں نے عالمی بینک کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ کراچی جیسے میگا سٹی کو کم از کم 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، لیکن سندھ حکومت اب تک صرف 400 بسیں فراہم کر سکی ہے، جبکہ شہر کی آبادی 2 کروڑ 36 لاکھ سے زیادہ ہے۔
ان کے مطابق کروڑوں کی آبادی والے شہر کو موٹر سائیکل اور چنگچی رکشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، اور اب کراچی میں موٹر سائیکلوں کی تعداد 50 لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔
حافظ نعیم نے پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اس جماعت نے گزشتہ 30 سے 40 برسوں میں کراچی کو ترقی دینے کے بجائے اس کی نسلیں برباد کیں، جبکہ گزشتہ 15 برسوں میں کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت کے شروع کردہ بڑے منصوبے بھی سست رفتاری یا ناکامی کا شکار ہیں، جن میں ایس-III، کراچی سرکلر ریلوے، گرین لائن، ریڈ لائن اور اورنج لائن شامل ہیں۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہاکہ کراچی سرکلر ریلوے کا 6 سے 8 مرتبہ افتتاح ہو چکا ہے لیکن منصوبہ آج تک مکمل نہیں ہو پایا، گرین لائن منصوبہ ابھی تک جزوی طور پر چل رہا ہے جبکہ ریڈ لائن نے یونیورسٹی روڈ تباہ کر دی ہے۔
جماعتِ اسلامی کے سربراہ نے اپنے کارکنان کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود پارٹی نے شہر کے نو ٹاؤنز میں فعال کردار ادا کیا ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: ڈی آئی جی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر ای چالان کی زد میں آگئے
ان کے مطابق نکاسیِ آب، صفائی اور کچرا اٹھانے جیسے کام جو کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور میئر مرتضیٰ وہاب کی ذمہ داری ہیں، اب جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین اور یو سی سطح کے کارکن انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جماعت نے نارتھ ناظم آباد جیسے علاقوں میں پرانے سیوریج کے مسائل حل کیے ہیں اور گجر نالے کی لائنوں کو بہتر بنا کر آب نکاسی کے نظام میں بہتری پیدا کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ای چالان سسٹم تنقید جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان مالی بوجھ وی نیوز