Jasarat News:
2025-08-06@10:12:01 GMT

قتل مقاتلے کے واقعات میں اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خیبر پختون خوا میں حالیہ برسوں کے دوران قتل کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ماہرین قانون اور سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ریاست قتل کو سنگین جرم تسلیم کرتے ہوئے سخت سزائیں نافذ نہیں کرے گی تو معاشرے میں امن و امان کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ قانون کے مطابق قتل ایک سنگین جرم ہے لیکن عدالتوں میں عملی طور پر قتل کے مجرموں کو سز انہیں دی جا رہی ہے جس کے باعث لوگوں میں قانون کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ گزشتہ چھے سال سے جیلوں میں پھانسی گھاٹ بند کر دیے گئے ہیں جبکہ سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی لگی ہے جس سے مجرموں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ وہ قتل جیسا سنگین جرم کرنے کے باوجودآسانی سے بچ پائیں گے یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں قتل مقاتلے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ معاشرے میں قتل و مقاتلے کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کسی جرم کی سزا نہیں دی جاتی تو لوگ اسے معمولی سمجھنے لگتے ہیں۔ معمولی تنازعات، جائداد کے جھگڑوں اور ذاتی دشمنیوں پر لوگ بے دریغ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں صوبے کے مختلف علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر قتل کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے مجرم بے خوف ہو کر جرائم کر رہے ہیں جبکہ عدالتی نظام کی سست روی اور سزاؤں کے نفاذ میں تاخیر مجرموں کو مزید شہ دے رہی ہے۔ اس وقت مختلف اضلاع بشمول پشاور، مردان، کو ہاٹ اور بنوں میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے ان علاقوں میں قتل، ڈکیتی، راہزنی اور تشدد کے واقعات عام ہوچکے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پشاور میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے یہاں پر روزانہ کی بنیاد پرقتل اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران خیبر پختون خوا، بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں معمولی نوعیت کے تنازعات پر ہونے والے قتل کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ہلاکتیں عام طور پر معمولی جھگڑوں، غلط فہمیوں یا ایسی بے ضرر باتوں جیسے پارکنگ، کاروباری لین دین یا گھریلو جھگڑوں کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔ پولیس رپورٹس اور میڈیا ذرائع کے مطابق، خطے میں ہونے والے بے شمار قتل جذباتی فیصلوں اور بے قابو غصے کا نتیجہ ہیں۔ ایسے بہت سے معاملات میں جھگڑے، جنہیں بات چیت یا قانونی ذرائع سے حل کیا جا سکتا تھا، مہلک تصادم میں بدل گئے۔ یہ رجحان معاشرتی سطح پر گہرے بگاڑ کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں برداشت میں کمی اور پرامن طریقے سے مسائل کے حل کی ثقافت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے کئی اسباب ہیں جن میں معاشی دباؤ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اسلحے تک آسان رسائی، خاندانی و سماجی رشتوں کی کمزوری اور سب سے بڑھ کر قانون کی گرفت سے بے خوفی وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ہنستا بستا معاشرہ روز بروز جہنم بنتا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق نفسیاتی مدد کے نظام اور غصے پر قابو پانے کے شعور کی کمی بھی ان پْرتشدد نتائج کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ایک زمانے میں اپنے ثقافتی اور تاریخی
ورثے کے لیے مشہور پشاور شہر اب معمولی تنازعات پر ہونے والے پْرتشدد واقعات کی خبروں میں زیادہ آتا ہے۔ شہر کے گنجان آباد علاقے، سماجی و سیاسی کشیدگی اور معاشی مشکلات کے ساتھ اس قسم کے سانحات کے لیے اکثر میدان بن جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے، تاہم صرف پولیسنگ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے ریاستی اداروں، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور مذہبی رہنماؤں کو مل کر صبر، برداشت، مکالمے اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دینا ہوگا۔ عوامی آگاہی مہمات، نفسیاتی مشاورت، کمیونٹی پولیسنگ اور اسلحے کی ملکیت پر سخت کنٹرول اس رجحان کو روکنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو تعلیمی اور مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا بھی مایوسی اور پْرتشدد رویوں میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ معمولی باتوں پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات اخلاقی اور نفسیاتی بحران کی علامت بھی ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان مسائل کی جڑوں تک پہنچ کر حل تلاش نہیں کیا جاتا تشدد کا یہ مکروہ سلسلہ جاری رہے گا جو معاشرے کے سماجی تانے بانے کو گہری چوٹ پہنچاتا رہے گا۔
خیبر پختون خواخصوصاً پشاور میں وقوع پزیر ہونے والے بدامنی کے یہ واقعات ایک وسیع تر معاشرتی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں برداشت کی کمی اور غصے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے بھی افراد اور خاندانوں پر شدید دباؤ ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ، مایوسی اور عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے۔ پولیس اور عدالتی نظام میں بدعنوانی اور نااہلی کے باعث عوام کا اعتماد ان اداروں سے اٹھ چکا ہے، جس کے باعث لوگ خود ہی انصاف لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، بعض ثقافتی اقدار جیسے غیرت اور مردانگی کے تصورات انتقام کو ایک فخریہ عمل بنا دیتے ہیں، جو صورتحال کو مزید بگاڑتے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی اسلحے کے خلاف کارروائی کو مؤثر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ مقامی سطح پر جرگے اور تنازعات کے حل کی کونسلوں جیسے نظام کو ازسرنو فعال اور بااختیار بنانا بھی ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی روزگار کے مواقع اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے عوامی دباؤ کم کرنا بھی اہم ہے۔
عوام کو پرامن بقائے باہمی، برداشت، اور زندگی کی قدر کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے مہمات شروع کی جانی چاہئیں۔ عدالتی نظام میں اصلاحات کے ذریعے فوری اور منصفانہ انصاف کی فراہمی کوبھی یقینی بنانا ہوگا۔ دراصل معمولی تنازعات پر ہونے والے قتل محض جرائم نہیں بلکہ ایک بڑے سماجی بحران کی علامت ہیں۔ ان کے سدباب کے لیے فوری قانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل المدتی سماجی، نفسیاتی اور ادارہ جاتی اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ خیبر پختونخواحکومت نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور سزاؤں کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کا وعدہ کیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور سزاؤں کے نفاذ کے لیے اقدامات کرے گی۔ وہ یہ اقدامات کب اور کیسے کرے گی یہ وہ سوال ہے جس کا جواب متعلقہ حکومتی حلقوں پر قرض ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عدالتی نظام خیبر پختون ہونے والے کے واقعات کے مطابق رہے ہیں کے لیے قتل کے

پڑھیں:

ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں مسلسل دسویں روز اضافہ

کراچی:

بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر مضبوط اعتماد، مثبت معاشی اشاریوں کی بدولت بیرونی سرمایہ کاری کے بڑھتے ہوئے امکانات کے باعث زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں منگل مسلسل دسویں روز بھی ڈالر کے مدمقابل روپے کی قیمت میں اضافہ ہوا۔

امریکا کی جانب سے پاکستان میں تیل کی تلاش کے منصوبوں میں سرمایہ کاری دلچسپی، ریکوڈک منصوبے میں 5 ارب ڈالر سرمایہ کاری کی توقعات اور آنے والے مہینوں میں زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر میں بتدریج اضافے کی پیشگوئیوں کے باعث انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے تمام دورانیے میں ڈالر تنزلی سے دوچار رہا۔

ایک موقع پر ڈالر کی قدر 40 پیسے کی کمی سے 282 روپے 25پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی تاہم بعد دوپہر معیشت میں زرمبادلہ کی طلب آنے، نئی درآمدی لیٹر آف کریڈٹس کھلنے کی وجہ سے کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قدر 08پیسے کی کمی سے 282روپے 57پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔

اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی طلب گاروں کی کمی کے باعث ڈالر کی قدر 10پیسے کی کمی سے 285روپے 15پیسے کی سطح پر بند ہوئی۔

حکومت کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں نئے یورو بانڈز کے اجراء کی منصوبہ بندی، امریکا کے ساتھ ٹریڈ ڈیل، درآمدی لاگت گھٹنے سے ڈالر کی طلب میں کمی سے بھی روپیہ تگڑا رہا۔

متعلقہ مضامین

  • برائلر گوشت کی قیمت میں20 روپے کلو اضافہ ،فارمی انڈے بھی مہنگے
  • نئےمالی سال کے پہلے ماہ میں ہی ٹیکسٹائل برآمدات میں اضافہ
  • کراچی میں فائرنگ کے تین مختلف واقعات، 2 افراد جاں بحق، ایک زخمی
  • ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں مسلسل دسویں روز اضافہ
  • اس سال یومِ استحصال کی غیر معمولی اہمیت ہے، صدر مملکت
  • کراچی: فائرنگ کے مختلف واقعات میں چار افراد زخمی
  • سیکڑوں برس قبل تہذیب انسانی ہڈیوں سے کیا کرتی تھی؟
  • سونے کی قیمت میں اضافہ
  • چین کی خدمات کی درآمدات اور برآمدات کی کل مالیت 3887.26 بلین یوآن تک پہنچ گئی
  • قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی نشستوں میں اضافہ