Jasarat News:
2025-09-20@21:10:13 GMT

قتل مقاتلے کے واقعات میں اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خیبر پختون خوا میں حالیہ برسوں کے دوران قتل کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، ماہرین قانون اور سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ریاست قتل کو سنگین جرم تسلیم کرتے ہوئے سخت سزائیں نافذ نہیں کرے گی تو معاشرے میں امن و امان کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ قانون کے مطابق قتل ایک سنگین جرم ہے لیکن عدالتوں میں عملی طور پر قتل کے مجرموں کو سز انہیں دی جا رہی ہے جس کے باعث لوگوں میں قانون کا خوف ختم ہو چکا ہے۔ گزشتہ چھے سال سے جیلوں میں پھانسی گھاٹ بند کر دیے گئے ہیں جبکہ سزائے موت پر غیر اعلانیہ پابندی لگی ہے جس سے مجرموں کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ وہ قتل جیسا سنگین جرم کرنے کے باوجودآسانی سے بچ پائیں گے یہی وجہ ہے کہ خیبر پختون خوا میں قتل مقاتلے کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ معاشرے میں قتل و مقاتلے کی بڑھتی ہوئی شرح کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کسی جرم کی سزا نہیں دی جاتی تو لوگ اسے معمولی سمجھنے لگتے ہیں۔ معمولی تنازعات، جائداد کے جھگڑوں اور ذاتی دشمنیوں پر لوگ بے دریغ ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں صوبے کے مختلف علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر قتل کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے مجرم بے خوف ہو کر جرائم کر رہے ہیں جبکہ عدالتی نظام کی سست روی اور سزاؤں کے نفاذ میں تاخیر مجرموں کو مزید شہ دے رہی ہے۔ اس وقت مختلف اضلاع بشمول پشاور، مردان، کو ہاٹ اور بنوں میں جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے ان علاقوں میں قتل، ڈکیتی، راہزنی اور تشدد کے واقعات عام ہوچکے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پشاور میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے یہاں پر روزانہ کی بنیاد پرقتل اور تشدد کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں۔
گزشتہ چند مہینوں کے دوران خیبر پختون خوا، بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور میں معمولی نوعیت کے تنازعات پر ہونے والے قتل کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ ہلاکتیں عام طور پر معمولی جھگڑوں، غلط فہمیوں یا ایسی بے ضرر باتوں جیسے پارکنگ، کاروباری لین دین یا گھریلو جھگڑوں کے نتیجے میں سامنے آتی ہیں۔ پولیس رپورٹس اور میڈیا ذرائع کے مطابق، خطے میں ہونے والے بے شمار قتل جذباتی فیصلوں اور بے قابو غصے کا نتیجہ ہیں۔ ایسے بہت سے معاملات میں جھگڑے، جنہیں بات چیت یا قانونی ذرائع سے حل کیا جا سکتا تھا، مہلک تصادم میں بدل گئے۔ یہ رجحان معاشرتی سطح پر گہرے بگاڑ کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں برداشت میں کمی اور پرامن طریقے سے مسائل کے حل کی ثقافت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے کئی اسباب ہیں جن میں معاشی دباؤ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اسلحے تک آسان رسائی، خاندانی و سماجی رشتوں کی کمزوری اور سب سے بڑھ کر قانون کی گرفت سے بے خوفی وہ بنیادی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ہنستا بستا معاشرہ روز بروز جہنم بنتا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق نفسیاتی مدد کے نظام اور غصے پر قابو پانے کے شعور کی کمی بھی ان پْرتشدد نتائج کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ایک زمانے میں اپنے ثقافتی اور تاریخی
ورثے کے لیے مشہور پشاور شہر اب معمولی تنازعات پر ہونے والے پْرتشدد واقعات کی خبروں میں زیادہ آتا ہے۔ شہر کے گنجان آباد علاقے، سماجی و سیاسی کشیدگی اور معاشی مشکلات کے ساتھ اس قسم کے سانحات کے لیے اکثر میدان بن جاتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سنگینی کو تسلیم کرتے ہوئے سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے، تاہم صرف پولیسنگ سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے ریاستی اداروں، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور مذہبی رہنماؤں کو مل کر صبر، برداشت، مکالمے اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دینا ہوگا۔ عوامی آگاہی مہمات، نفسیاتی مشاورت، کمیونٹی پولیسنگ اور اسلحے کی ملکیت پر سخت کنٹرول اس رجحان کو روکنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو تعلیمی اور مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا بھی مایوسی اور پْرتشدد رویوں میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ معمولی باتوں پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات اخلاقی اور نفسیاتی بحران کی علامت بھی ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ان مسائل کی جڑوں تک پہنچ کر حل تلاش نہیں کیا جاتا تشدد کا یہ مکروہ سلسلہ جاری رہے گا جو معاشرے کے سماجی تانے بانے کو گہری چوٹ پہنچاتا رہے گا۔
خیبر پختون خواخصوصاً پشاور میں وقوع پزیر ہونے والے بدامنی کے یہ واقعات ایک وسیع تر معاشرتی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں برداشت کی کمی اور غصے میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے بھی افراد اور خاندانوں پر شدید دباؤ ڈالا ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی دباؤ، مایوسی اور عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے۔ پولیس اور عدالتی نظام میں بدعنوانی اور نااہلی کے باعث عوام کا اعتماد ان اداروں سے اٹھ چکا ہے، جس کے باعث لوگ خود ہی انصاف لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں، بعض ثقافتی اقدار جیسے غیرت اور مردانگی کے تصورات انتقام کو ایک فخریہ عمل بنا دیتے ہیں، جو صورتحال کو مزید بگاڑتے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی اسلحے کے خلاف کارروائی کو مؤثر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔ مقامی سطح پر جرگے اور تنازعات کے حل کی کونسلوں جیسے نظام کو ازسرنو فعال اور بااختیار بنانا بھی ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی روزگار کے مواقع اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے عوامی دباؤ کم کرنا بھی اہم ہے۔
عوام کو پرامن بقائے باہمی، برداشت، اور زندگی کی قدر کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے مہمات شروع کی جانی چاہئیں۔ عدالتی نظام میں اصلاحات کے ذریعے فوری اور منصفانہ انصاف کی فراہمی کوبھی یقینی بنانا ہوگا۔ دراصل معمولی تنازعات پر ہونے والے قتل محض جرائم نہیں بلکہ ایک بڑے سماجی بحران کی علامت ہیں۔ ان کے سدباب کے لیے فوری قانونی اقدامات کے ساتھ ساتھ طویل المدتی سماجی، نفسیاتی اور ادارہ جاتی اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ خیبر پختونخواحکومت نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور سزاؤں کے نفاذ کے لیے فوری اقدامات کا وعدہ کیا ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور سزاؤں کے نفاذ کے لیے اقدامات کرے گی۔ وہ یہ اقدامات کب اور کیسے کرے گی یہ وہ سوال ہے جس کا جواب متعلقہ حکومتی حلقوں پر قرض ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عدالتی نظام خیبر پختون ہونے والے کے واقعات کے مطابق رہے ہیں کے لیے قتل کے

پڑھیں:

امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امیگریشن کے خلاف اپنے تازہ اقدام کے طور پر ایچ-1بی (H-1B) ویزا کے لیے ایک لاکھ ڈالر (تقریباً 88 لاکھ روپے) فیس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:صدر ٹرمپ کے گولڈ اور پلاٹینم کارڈز کیا ہیں اور اس سے کون فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق یہ اقدام ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ ویزا سب سے زیادہ بھارت اور چین سے تعلق رکھنے والے ہنر مند افراد کو ملتا ہے۔

بھارتی شہری سب سے زیادہ متاثر

امریکی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 71 فیصد ایچ-1بی ویزے بھارتی شہریوں کو ملے، جبکہ چین دوسرے نمبر پر رہا جس کا حصہ صرف 11.7 فیصد تھا۔

ایمیزون، مائیکروسافٹ اور میٹا جیسی بڑی کمپنیاں اس ویزا کے ذریعے ہزاروں ملازمین بھرتی کرتی ہیں۔ صرف ایمیزون اور اس کی ذیلی کمپنی اے ڈبلیو ایس کو 2025 کے ابتدائی چھ ماہ میں 12 ہزار سے زائد ویزے منظور ہوئے تھے۔

ماہرین کے مطابق فیس میں زبردست اضافہ بھارتی امیدواروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ انہیں گرین کارڈ کے حصول کے طویل انتظار کے دوران بار بار ویزا تجدید کرنی پڑتی ہے، اور ہر بار یہ بھاری فیس ادا کرنا ہوگی۔

راہول گاندھی کا ردِعمل

بھارت میں اس فیصلے پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔

 کانگریس رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مودی حکومت نے بیرون ملک کام کرنے والے بھارتی ماہرین کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی نہیں اپنائی۔

I repeat, India has a weak PM. https://t.co/N0EuIxQ1XG pic.twitter.com/AEu6QzPfYH

— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) September 20, 2025

انہوں نے خبردار کیا کہ فیس میں اضافہ بھارتی نوجوانوں کے لیے امریکی ملازمتوں کے دروازے بند کر دے گا اور آئی ٹی صنعت کو براہِ راست نقصان پہنچائے گا۔

وائٹ ہاؤس کا مؤقف

وائٹ ہاؤس کے اسٹاف سیکرٹری ول شارف نے کہا کہ ایچ-1بی پروگرام ملک کے امیگریشن نظام میں سب سے زیادہ غلط استعمال ہونے والے ویزوں میں شمار ہوتا ہے۔

ان کے بقول نئی فیس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ جو افراد امریکا آ رہے ہیں وہ واقعی اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں اور امریکی کارکنوں کی جگہ نہ لے سکیں۔

صدر ٹرمپ کا اعلان

صدر ٹرمپ نے اعلان کرتے ہوئے کہا ’ہمیں بہترین کارکن چاہیے، اور یہ اقدام اس بات کی ضمانت ہے کہ یہاں صرف وہی آئیں گے جو واقعی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں‘۔

ایچ-1بی ویزا کیا ہے؟

ایچ-1بی ویزا امریکہ میں عارضی کام کرنے کا اجازت نامہ ہے جسے 1990 میں متعارف کرایا گیا۔ اس کے تحت ایسی ملازمتوں کے لیے غیر ملکی ماہرین کو رکھا جا سکتا ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ جیسے شعبوں میں مشکل سے پُر ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی ورک ویزا مزید مہنگا،’ہم بہترین لوگوں کو امریکا میں آنے کی اجازت دیں گے‘،صدر ٹرمپ

یہ ویزا ابتدائی طور پر تین سال کے لیے دیا جاتا ہے جسے زیادہ سے زیادہ چھ سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

سخت تر شہریت ٹیسٹ

امریکی حکومت نے شہریت کے لیے درخواست دینے والوں پر بھی ایک مشکل ٹیسٹ دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں شروع کیا تھا لیکن صدر بائیڈن نے ختم کر دیا تھا۔

اس نئے ٹیسٹ میں امیدواروں کو امریکی تاریخ اور سیاست سے متعلق 128 سوالات کے ذخیرے سے زبانی طور پر 20 سوال پوچھے جائیں گے، جن میں سے کم از کم 12 کے درست جواب دینا لازمی ہوگا۔

ٹرمپ کا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام

صدر ٹرمپ نے ایک نیا ’گولڈ کارڈ‘ ویزا پروگرام بھی متعارف کرایا ہے جس کے تحت انفرادی افراد کے لیے فیس ایک ملین ڈالر اور کمپنیوں کے لیے دو ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔ امریکی وزیرِ تجارت ہاورڈ لٹ نِک کے مطابق یہ پروگرام صرف غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد  کے لیے ہوگا جو امریکہ میں کاروبار اور روزگار پیدا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ گرین کارڈ پروگرام غیر منطقی تھا کیونکہ اس کے ذریعے ہر سال اوسطاً 2.8 لاکھ افراد آتے تھے جن کی آمدنی سالانہ صرف 66 ہزار ڈالر تھی اور وہ زیادہ تر حکومتی امداد پر انحصار کرتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایچ-1بی) ویزا بھارت بھارتی شہری چین گولڈ کارڈ ورک ویزا

متعلقہ مضامین

  • امریکی ورک ویزا فیس میں ہوشربا اضافہ، 71فیصد بھارتی لپیٹ میں آگئے
  • کراچی میں فائرنگ کے واقعات میں 2 افراد جاں بحق
  • بلوچستان، ستمبر میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ، حکومت امن قائم کرنے کے لیے کیا کررہی ہے؟
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ غیر معمولی واقعہ ہے‘ راشد نسیم
  • صنعتی پیداوار میں اضافہ اور گندم کی قلت
  • مہنگائی میں معمولی کمی، 18 اشیاء مہنگی، 14 سستی
  • کراچی، مختلف علاقوں میں حادثے اور فائرنگ کے واقعات، ایک شخص جاں بحق، 2 خواتین سمیت 3 افراد زخمی
  • سعودی عرب کیساتھ تاریخی دفاعی معاہدہ غیر معمولی قیادت کا منہ بولتا ثبوت، ایس ایم تنویر
  • اسرائیلی فوجی و چینی پروفیسر کے درمیان غیر معمولی تلخ مکالمہ
  • اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ ‘18 افراد ہلاک