جوہری تنصیبات خالی کر دی گئیں، ایرانی حکام کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
ایرانی حکام نے وضاحت میں کہا کہ امریکی حملے سے قبل ہی تمام ایٹمی تنصیبات کو خالی کروا لیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دشمن کے فضائی حملے کے باوجود ان سائٹس میں کوئی ایسا مواد نہیں تھا جو خارج ہو کر نقصان پہنچا سکتا۔
ایران نے مزید کہا کہ وہ آئندہ بھی اپنے ایٹمی پروگرام کو جاری رکھے گا اور اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
واضح رہے کہ امریکا نے فردو، نطنزا ور اصفہان میں واقع تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ان کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ فضائی حملے کامیاب رہے اور فردو ایٹمی سہولت مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
جاپان میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے ’درد‘ کی اگلی نسل تک منتقلی کی مہم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اگست 2025ء) بدھ کے روز جاپان میں اس واقعے کو 80 سال مکمل ہو رہے ہیں جب دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں امریکہ نے جاپانی شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس سے ابتدائی دھماکے میں تقریباً 80,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ہیروشیما میں 6 اگست کو یادگاری تقریبات منعقد کی گئیں اور تین دن بعد ناگاساکی میں ہونے والی یادگاری تقریبات میں بھی دنیا بھر سے ہزاروں افراد شرکت کریں گے۔
تاہم، اس سال زندہ بچ جانے والے افراد، جنہیں ''ہیباکوشا‘‘ کہا جاتا ہے، کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں کم ہو گی۔مارچ میں جاری کردہ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق اب صرف 99,130 ہیباکوشا زندہ ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 7,695 کم ہیں، کیونکہ عمر رسیدگی کی وجہ سے ان کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔
(جاری ہے)
اس وقت زندہ بچ جانے والوں کی اوسط عمر 86.13 سال ہے۔
چونکہ ایٹمی ہتھیاروں کے جنگی استعمال کے عینی شاہدین کی داستانیں وقت کے ساتھ ختم ہو رہی ہیں، اس لیے عجائب گھروں، تنظیموں اور انفرادی افراد نے یہ ذمہ داری اٹھائی ہے کہ وہ ان کہانیوں کو زندہ رکھیں۔
رائے عامہ بیدار کرنے کی مہمہیروشیما کے ’’جانشینوں‘‘ میں سے ایک شُن ساساکی ہیں، جو اپنے آبائی شہر پر حملے کی ہولناکی اور اس کے بعد کے حالات کو لوگوں تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔
12 سالہ ساساکی اگست 2021 سے، غیر ملکی سیاحوں سے ہیروشیما میموریل پیس پارک کے مختلف مقامات کے بارے میں بات کرتے آئے ہیں۔ساساکی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’جب میں پہلی جماعت میں تھا تو میں ایٹمی بم کے گنبد کے پاس سے گزر رہا تھا اور میں نے سوچا کہ یہ ابھی تک کیوں موجود ہے، حالانکہ اس کی حالت بہت خراب تھی۔‘‘ یہ وہ عمارت ہے جو 1945 میں بم گرنے کے بعد بھی کھڑی رہ گئی تھی۔
انہوں نے بتایا، ’’میں نے انٹرنیٹ پر تلاش کی اور پیس میموریل میوزیم گیا، جہاں مجھے یہاں گرائے گئے بم کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں۔‘‘
آبائی شہر کا المیہساساکی کی اپنے شہر کی المناک تاریخ میں دلچسپی اس وقت اور بڑھی جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی پڑدادی 6 اگست 1945 کے حملے میں زندہ بچ گئی تھیں۔ لیکن بعد میں کینسر سے چل بسیں۔
ساساکی نے کہا،’’جب بم گرایا گیا تو وہ 12 سال کی تھیں اور اپنے گھر کے اندر موجود تھیں، جو ’ہائپو سینٹر‘ یا مرکزِ دھماکہ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور تھا۔ وہ جلیں تو نہیں کیونکہ وہ گھر کے اندر تھیں، لیکن وہ تابکاری کا شکار ہوئیں اور جب انہیں نکالا جا رہا تھا تو اُن پر ‘سیاہ بارش‘ برس رہی تھی۔‘‘
’’سیاہ بارش‘‘ دراصل گرد، بم سے اٹھنے والی راکھ، اور تابکار ذرات کا مرکب تھی، جو دھماکے کے بعد کئی گھنٹوں تک بارش کے ساتھ زمین پر برستی رہی۔
ساساکی کی پڑدادی، یوریکو، کو 38 سال کی عمر میں چھاتی کا کینسر اور 60 سال کی عمر میں بڑی آنت کا کینسر لاحق ہوا۔ وہ 69 سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسیں۔
ساساکی کو پہلے سالگرہ سے قبل ہی انگریزی سیکھنے والے کھلونے دیے گئے تھے، اور وہ چار سال کی عمر میں انگریزی بولنے کے قابل ہو گئے۔ آج وہ کہتے ہیں کہ انہیں جاپانی کے بجائے انگریزی بولنا زیادہ پسند ہے۔
یہی انہیں ان غیر ملکی سیاحوں سے بات کرنے میں مدد دیتی ہے، جو 1945 میں ہیروشیما میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں پہلے سے کچھ تصورات لے کر آتے ہیں۔ساساکی انہیں بتاتے ہیں کہ یورینیم سے بنا بم، جسے ’’لٹل بوائے‘‘ کا نام دیا گیا تھا، تقریباً سیدھا جینباکو گنبد کے اوپر پھٹا۔ یہ وہی پتھریلی عمارت ہے جسے آج ایٹمی بم گنبد کہا جاتا ہے۔
بم کی توانائی تقریباً 15 کلوٹن ٹی این ٹی کے برابر تھی۔تقریباً ہر عمارت تباہ ہو گئی اور 1.3 کلومیٹر کے دائرے میں موجود ہر شخص ہلاک ہو گیا۔ 1945 کے آخر تک ہلاکتوں کی کل تعداد تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار تک پہنچ گئی، جن میں زیادہ تر لوگ یا تو شدید جھلسنے یا تابکاری سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب جان کی بازی ہار گئے۔
ساساکی نے کہا، ’’بہت سے لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ ہیروشیما یہ سوچ کر آئے تھے کہ وہ اس کہانی کو جانتے ہیں اور یہ کہ شہر صرف بری طرح تباہ ہوا تھا، لیکن پھر وہ کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ دراصل کیا ہوا تھا۔
‘‘ آنسو اور سچائیساساکی نے بتایا،’’ان میں سے کچھ رونے لگتے ہیں، زیادہ تر لوگ بہت حیران ہوتے ہیں۔ اور سب یہی کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا کبھی دوبارہ نہیں کرنا چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ جنگیں اس لیے ہوتی ہیں کیونکہ لوگ واقعی نہیں جانتے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔‘‘
ساساکی نے یاد کرتے ہوئے کہا،’’میں ایک امریکی شخص کی رہنمائی کر رہا تھا، اور اس نے کہا کہ اب وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں تمام ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔
یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ اگر وہ جا کر کسی کو ہیروشیما کی حقیقت بتائے، اور پھر وہ آگے کسی اور کو بتائے، تو امن کا پیغام پھیلتا جائے گا۔‘‘ساساکی نے مزید کہا،’’یہاں جو کچھ ہوا ہم اس کے حقائق کو نہیں بدل سکتے، لیکن ہم بم کی حقیقت کو استعمال کر کے مستقبل کو بدل سکتے ہیں۔‘‘
ہیباکوشا (ایٹم بم سے بچ جانے والے افراد) کے تجربات کو آگے بڑھانے کی اسی طرح کی کوششیں ناگاساکی میں بھی جاری ہیں، جو 9 اگست 1945 کو ’’فیٹ مین‘‘ پلوٹونیم بم کا نشانہ بنا تھا۔
اس حملے میں فوری طور پر اور بعد میں طویل مدتی اثرات جیسے کہ خون کے کینسر (لیوکیمیا) اور تابکاری سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں کی وجہ سے تقریباً 80,000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ناگاساکی ایٹمی بم میوزیم کے ڈائریکٹر تاکوجی اینوئے کہتے ہیں،’’ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہیباکوشا اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہوں گے۔
‘‘ انہوں نے کہا،’’تاہم، ایک ایٹم بم سے متاثرہ شہر کے طور پر، ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں اور دیگر پریشان کن حالات کے باعث۔‘‘ بین الاقوامی مہممیوزیم نے ایک نئی بین الاقوامی مہم شروع کی ہے تاکہ ایٹمی بم حملوں کی ’’حقیقت کو اجاگر‘‘ کیا جا سکے اور بموں کے اثرات کی سمجھ کو ’’نسل در نسل‘‘ پھیلایا جا سکے۔
انہوں نے کہا ہیروشیما ہمیشہ تاریخ میں پہلے ایٹمی بم کے مقام کے طور پر کندہ رہے گا۔ ’’تاہم، کیا ناگاساکی آخری رہے گا یا نہیں، یہ اس مستقبل پر منحصر ہے جو ہم تخلیق کرتے ہیں۔‘‘
چھ اگست کو صبح 8 بج کر 15 منٹ پر، وہ وقت جب پہلا بم ہیروشیما پر پھٹا تھا، پورا شہر خاموشی اختیار کرے گا تاکہ لوگ احترام پیش کر سکیں۔ پیس پارک میں جو تقاریر کی جائیں گی، ان میں بچوں کا عہد برائے امن بھی شامل ہو گا۔
اس سال یہ خطاب شُن ساساکی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا،’’میں ہمیشہ سے ایک بڑے مجمع کے سامنے بولنا چاہتا تھا، اس لیے میں بہت خوش ہوں کہ مجھے چُنا گیا۔‘‘ساساکی کا کہنا تھا، ’’میری تمنّا ہے کہ ہر وہ شخص جو دلچسپی رکھتا ہے وہ ہیروشیما آئے اور امن کے بارے میں سوچے۔‘‘
ادارت: صلاح الدین زین