اپوزیشن بدتمیزی کرے گی تواسی زبان میں جواب ملے گا، عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن بدتمیزی کرےگی تو بدتمیزی سے جواب ملے گا۔پنجاب اسمبلی اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ پانچ سال میں پہلی مرتبہ بجٹ پر بات کرنے کا موقع ملا، تعلیم
کے لیے 800ارب سے زیادہ رکھے گئے ہیں، ایک سال میں بانوے لاکھ لوگوں نے کلینک ان وہیل سے استفادہ کیا۔انہوں نے کہا کہ حالیہ دور میں نئے اسپتال بنے ہیں، مریم نواز نے مافیا گروپ کو ختم کیا جو گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے تھے،انہوں نے کہا تھا وہ سب کی سی ایم ہیں۔انہوں نے سید علی حیدر گیلانی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی پنجاب کارڈ ایک بھائی نے کل یہاں کھیلا، ایک پارٹی جس نے سو دن میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا تھا آج وہ بھی ہم سے صوبے کا پوچھتے ہیں۔انہوں کا کہنا تھا کہ ایک وہ جماعت جو ساری زندگی اقتدار کے ایوانوں میں رہے وہ بھی ہمیں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ہم سے پوچھتے ہیں، جنوبی پنجاب میں تونسہ کے لیے کھچی کینال مظفر گڑھ میں شرمپ فارمنگ شروع کی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
شادی عورت کی شخصیت یابنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،عدالت عظمیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ شادی کسی بیٹی کو اپنے والدین کے سرکاری کوٹے کے تحت نوکری کے حق سے محروم نہیں کر سکتی۔
عدالت نے واضح کیا کہ شادی شدہ بیٹی کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو شادی شدہ بیٹے کو حاصل ہوتے ہیں اور اس بنیاد پر ملازمت سے انکار آئین، قانون اور خواتین کے مساوی حقوق کے منافی ہے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے رپورٹنگ کے لیے منظور شدہ تحریری فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ نے فرخ ناز بنام سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کیس میں تحریر کیا۔ کیس میں درخواست گزار فرخ ناز کی تقرری بطور پرائمری اسکول ٹیچر منسوخ کر دی گئی تھی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں۔
عدالت نے اس فیصلے کو غیر قانونی اور امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے بحال کر دیا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریٹائرمنٹ یا وفات پانے والے سرکاری ملازم کے بچوں کے لیے مختص کوٹہ دراصل ریاست کی طرف سے متاثرہ خاندان کی مالی مدد اور والدین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر دیا جاتا ہے۔ اس لیے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس حق کو متاثر نہیں کرتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ “شادی عورت کی شخصیت یا اس کے بنیادی حقوق ختم نہیں کرتی،” اور اسے کسی طور پر ملازمت کے لیے نااہل قرار دینا آئین کے آرٹیکلز 14، 25 اور 27 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایک شادی شدہ عورت کو والدین پر بوجھ یا ذمہ داری قرار دینا انتہائی توہین آمیز اور غیر آئینی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ عورت کو کام کرنے یا گھر پر رہ کر خاندان کی دیکھ بھال کرنے کا اختیار دونوں صورتوں میں باعزت ہے۔ قانون اسے اس کی مرضی کے خلاف محدود نہیں کر سکتا۔
ویب ڈیسک
Faiz alam babar