برطانوی وزیراعظم کی صدر ٹرمپ سے ٹیلیفونک گفتگو، ایران کے ایٹمی خطرے پر اظہار تشویش
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کو جلد از جلد مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہیئے، تاکہ دیرپا امن کا راستہ ہموار ہوسکے۔ آخر میں دونوں نے آئندہ دنوں میں رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔ اسلام ٹائمز۔ برطانیہ کے وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ دونوں رہنماوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو عالمی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایران کو کبھی بھی ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف گذشتہ شب کیے گئے امریکی اقدامات سے آگاہ کیا، جن کا مقصد بقول امریکا کو لاحق خطرات کو کم کرنا تھا۔ برطانوی وزیراعظم اور امریکی صدر دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کو جلد از جلد مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہیئے، تاکہ دیرپا امن کا راستہ ہموار ہوسکے۔ آخر میں دونوں نے آئندہ دنوں میں رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی صدر
پڑھیں:
سید عباس عراقچی کی کینیڈین وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک گفتگو
انیتا آنند سے اپنی ایک ٹیلیفونک گفتگو میں ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تمام حکومتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ حالیہ جارحیت کو رکوائیں اور اسرائیل کو اس قانون شکنی پر جوابدہ ٹھہراتے ہوئے سزا دلوائیں۔ اسلام ٹائمز۔ گزشتہ شب اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ "سیدعباس عراقچی" اور ان کی کنیڈین ہم منصب "انیتا آنند" کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔ جس میں ایران کے خلاف مسلسل صیہونی جارحیت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران سید عباس عراقچی نے اسرائیلی حملوں میں سائنس دانوں، دانشوروں و عسکری شخصیات سمیت نہتے شہریوں بالخصوص بچوں کی شہادتوں اور سول انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائے جانے کی تفصیلات بیان کیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام حکومتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمے داری ہے کہ وہ حالیہ جارحیت کو رکوائیں اور اسرائیل کو اس قانون شکنی پر جوابدہ ٹھہراتے ہوئے سزا دلوائیں۔
سید عباس عراقچی نے صیہونی رژیم کی جانب سے ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ جارحانہ اقدام، ایران کے جوہری معاملات پر ہونے والی بات چیت کے درمیان کیا گیا جو تمام بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اسرائیل کی جارحیت کے اثرات کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک سے اپنی سفارتی مشاورتوں کا ذکر کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ موجودہ تنازعے میں امریکہ کی شمولیت اور حمایت ایک بڑی غلطی ہے، جس سے پورے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے باہر بھی جنگ پھیل سکتی ہے۔ دوسری جانب انیتا آنند نے خطے میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو صرف سفارتی زریعے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جس میں وہ تعاون کے لیے تیار ہیں۔