امریکا کی چین سے آبنائے ہرمز بند کرنے کے ممکنہ ایرانی فیصلے میں کردار اداکرنے کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جون ۔2025 )امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ تہران کو آبنائے ہرمز بند کرنے سے باز رکھنے میں کردار ادا کرے کیونکہ یہ اقدام امریکی فضائی حملوں کے ردعمل میں ایران کی جانب سے متوقع ردعمل کے طور پر سامنے آ سکتا ہے.
(جاری ہے)
امریکی نشریاتی ادارے ”فاکس نیوز“سے گفتگو کرتے ہوئے مارکوروبیو نے کہاکہ میں بیجنگ میں چینی حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پر ایران سے بات کرے کیونکہ چین اپنی تیل کی فراہمی کے لیے آبنائے ہرمز پر بری طرح انحصار کرتا ہے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران واشنگٹن کی جانب سے اپنے جوہری مراکز پر حملے کے جواب میں آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا راستہ اختیار کر سکتا ہے یہ آبی گزرگاہ دنیا کے تیل کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ ہے جہاں سے دنیا بھر کے کل تیل کا پانچواں حصہ گزرتا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تیل کی
پڑھیں:
ایرانی پارلیمنٹ کی آبنائے ہُرمز بند کرنے کی منظوری کے بعد 2 سپر ٹینکرز نے راستہ بدل لیا
ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے اور ایرانی پارلیمنٹ کی جانب سے ’آبنائے ہرمز‘ کی بندش کی منظوری کے بعد خلیج میں داخلے کی واحد سمندری گزرگاہ کے مستقبل کے حوالے سے عالمی خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے، اتوار کو ایران پر امریکی حملے کے بعد آبنائے ہرمز میں موجود 2 سپر ٹینکرز کی جانب سے راستہ بدلنے کا انکشاف ہوا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق، تیل لے جانے والے دو بڑے بحری جہاز“کوز وِزڈم لیک“ اور ”ساوتھ لوئیلٹی“ نے اتوار کے روز آبنائے ہرمز میں داخل ہونے کے بعد اپنی سمت تبدیل کر لی۔
بلومبرگ نے جہازوں کے ٹریکنگ ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں ٹینکرز اُس وقت آبنائے میں موجود تھے جب ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی منظوری دی، جس کے بعد یہ یوٹرن لے کر واپس ہو گئے۔
رپورٹ میں اس پیش رفت کو خلیج میں بڑھتے خطرات کے تناظر میں تیل کی سپلائی لائن پر ممکنہ اثرات کی ابتدائی علامت قرار دیا گیا ۔
آبنائے ہرمز دنیا کی سب سے اہم تیل راہداریوں میں شمار ہوتی ہے۔ امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق، عالمی سطح پر استعمال ہونے والے تیل کا تقریباً 20 فیصد اسی راستے سے گزرتا ہے، جو اسے عالمی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔