اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل سپورٹس فیڈریشنز کے انتخابی عمل سے متعلق اہم ہدایات جاری کردیں
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
اسلا م آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پاکستان ٹینس فیڈریشن کے حالیہ الیکشن کے حوالے سے دائر درخواست نمٹاتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر کوئی شخص انتخابی عمل سے متاثر ہے تو وہ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے آئین کے تحت متعلقہ فورم (پی ایس بی) سے رجوع کر سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر رٹ پٹیشن نمبر2024- 1105 میں درخواست گزار لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد آصف ڈار نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ٹی ایف نے 10 فروری 2024 کو پی ایس بی کی ہدایات اور عدالتی حکم کے برعکس الیکشن کرائے انھیں کالعدم قرار دیا جائے۔
پی ٹی ایف کے وکلاء نے مؤقف اپنایا کہ انتخابات آئینی ضوابط کے مطابق منعقد کیے گئے ۔ درخواست گزار انتخابی عمل سے متاثر نہیں اور نہ ہی امیدوار تھا، اس لیے اسے متاثرہ فریق نہیں کہا جا سکتا۔
پی ایس بی کے لیگل ایڈوائزر سیف الرحمان رائو نے اپنے دلائل میں فاضل عدالت کو بتایا کہ 2022 میں اسی فاضل عدالت نے حکم دیا تھا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ ، قانون اور 2022 کے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن ،الیکشن ریگولیشنز ،سپورٹس فیڈریشنز کے لئے ماڈل آئین کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ موجودہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان سپورٹس بورڈ نے انہی عدالتی احکامات کی روشنی میں پی ایس بی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے الیکشن کمیشن، الیکشن ریگولیشنز منظور کرائیں اور خودمحتار پینل آف ایجیوڈیکیٹر مقرر کیا تا کہ اپیل اس فورم پر کی جاسکے۔
فاضل جج نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد گزشتہ روز پانچ صفحات پر محیط اپنا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،جس میں فاضل جج نے درخواست کو نمٹاتے ہوئے ہدایات دیں کہ اگر کوئی شخص انتخابی عمل سے متاثر ہے تو وہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے آئین کے تحت متعلقہ فورم (پی ایس بی ) سے رجوع کرسکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سپورٹس بورڈ پی ایس بی
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ: 8 سینیئرز پر ترجیح دیتے ہوئےلیبر افسر کی ترقی پر چیف کمشنر سے وضاحت طلب
8 سینئر افسران کو سپر سیڈ کر کے لیبر انسپکٹر اور بعدازاں لیبر افسر کی تعیناتی سے متعلق مقدمے کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی، جہاں جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران چیف کمشنر اسلام آباد سے اس ضمن میں وضاحت طلب کرلی۔
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے چیف کمشنر صاحب کو چیئرمین سی ڈی اے کی سیٹ زیادہ پسند ہے۔ ایک دن وہ چیف کمشنر کی کرسی پر بیٹھ کر دیکھیں کہ کام کیسے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف کمشنر کو اپنے ماتحت خالی پوسٹوں پر نظر ڈالنی چاہیے، اسلام آباد میں لیبر انسپکٹرز کی 4 نشستیں تاحال خالی ہیں جبکہ لوگ نوکریوں کو ترس رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا بحران سنگین ہوگیا، درخواست گزاروں کے مقدمات تاخیر کا شکار
سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے متعلقہ افسر کی ترقی اور تعیناتی پر سخت ریمارکس دیے، انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال پٹواریوں کے کیس جیسی ہے جہاں اصل تعیناتی کی بجائے منشی رکھ لیے جاتے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ڈیپارٹمنٹل کمیٹی نے خود تسلیم کیا کہ پہلے اس افسر کو ترقی نہ دینا غلط فیصلہ تھا۔ جسٹس کیانی نے کہا کہ اس افسر کو نہ صرف ترقی دی گئی بلکہ اس کا کیڈر بھی تبدیل کر کے لیبر انسپکٹر تعینات کر دیا گیا۔
جسٹس کیانی نے طنزیہ ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہ اگر یہ افسر اتنا ہی شاندار تھا تو اسے سیدھا ڈپٹی کمشنر ہی لگا دینا چاہیے تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص سندھ میں ترقی نہ حاصل کر سکے لیکن اسلام آباد آ کر اسے پروموشن مل جائے، صرف اس لیے کہ یہاں گنجائش موجود ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کی عدم دستیابی، اہم مقدمات کی سماعت لٹک گئی
عدالت نے ریمارکس دیے کہ غلط فیصلوں کا دفاع کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے اور سرکاری لا آفیسراور اسٹیٹ کونسل کے لیے بھی ایسے اقدامات کا دفاع کرنا آسان نہیں رہتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی واضح فیصلے موجود ہیں کہ چیئرمین سی ڈی اے اور چیف کمشنر کے عہدے ایک ہی شخص کے پاس نہیں ہونے چاہییں۔
درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف راہی، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن اور اسٹیٹ کونسل عبد الرحمن عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے چیف کمشنر سے وضاحت طلب کرتے ہوئے سماعت آئندہ ماہ تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد پٹواریوں جسٹس محسن اختر کیانی چیف کمشنر سندھ سی ڈی اے لیبر انسپکٹرز منشی